جناب طاہر القادری نظام انتخاب
کی اصلاح کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے میدانِ کار زار میںجبہ و دستار
سمیت اترے ہیں۔ ان کا واحد مقصد جو ابھی تک وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام
الناس تک پہنچا پائے ہیں یا پہنچانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ محض نظام ِ
انتخاب کی اصلاح چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے نیک،
دیانتدار ، پارسا اور مخلص لوگ جو آئین کی متعلقہ شقوں پر پورا اترتے ہوں
اسمبلیوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ اس طرز پر تشکیل پانے والی اسمبلیاں یقینا
عوام کی فلاح کا کام کماحقہ سر انجام دے کر ریاست کو ایک حقیقی فلاحی ریاست
میں بدل دیں گی۔
مقصد یقینا نیک اور بہت بلند ہے۔ اور اگر حقیقت میں ایسا ہو جائے تو قوم کی
تقدیر بدل سکتی ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے شیخ الاسلام نے لوگوں کو، خاص
طور پر اپنے کارکنوں کو تلقین کی ہے کہ و ہ اپنے زیورات ،گاڑیاں اور تمام
تر اثاثے ، بیچ کر اسلام آباد کا رخ کریں تاکہ انقلاب برپا کیا جا سکے۔
میں جناب شیخ کا کارکن تو نہیں مگر معتقد رہاہوں اور ایک معتدل اسلام پسند
لیڈر کے طور پر ان کی تعظیم و تکریم کرتا ہوں مگر شیخ کی لاہور آمد کے بعد
ان کے بیانات ، ان کی مصرفیات اور ان کے ریاست کو بچانے کیلئے کئے گئے
اقدامات سے تذبدب کا شکار ہو گیا ہوں ۔ شیخ کے انقلابی اقدامات اور بیانات
جس قدر سنتا جاتا ہوں، سر دھنتا جاتا ہوں مگر ذہن میں شکوک وشبہات ہیں کہ
بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں ۔ لاکھ ان شک کے سنپولیوں کا سر عقیدت کے بھاری پتھر
سے کچلتا ہوں مگر حضرت کے اقدامات کو دیکھ یہ سنپولیے زہریلے سانپ بن کر
میری سوچ کو زہر آلود کرتے چلے جاتے ہیں۔
حضرت نے مینار پاکستان کے اپنے شعلہ نوا بیان میں فرمایا کہ یہ کیسی ستم
ظریفی ہے کہ لٹیرے اسمبلیوں میں بھرے پڑے ہیں۔ وہ لوگ اسمبلیوں کے رکن ہیں
جو آئین کی رو سے نا اہل ہیں۔ انہوں نے ببانگِ دہل فرمایا کہ وہ ایسے لوگوں
کو سمندر میں ڈبو دیں گے اور نیک و پارسا لوگوں کی اسمبلیوں تک رسائی کا
راستہ ہموار فرمائیں گے۔
اس مقصد کے حصول کیلئے حضر ت شیخ الاسلام نے ایم کیوایم اور ق لیگ کو اپنا
دست و بازو بنایا۔ ان جماعتوں کے ساتھ ہمنوائی کو فخر سے میڈیا پر بیان
فرمایا بلکہ کراچی میں ایم کیوایم کے سٹیج سے جلسہ تک کر ڈالا۔چوہدری
برادران کے ہمراہ پریس کانفرنس کر ڈالی جس میں چوہدری شجاعت نے یہ تسلیم
کیا کہ شیخ سے مل کر ان کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ جس کام کا بیڑہ حضرت نے
اٹھا یا ہے اور اس کو سرانجام دینے کیلئے جن لوگوں کو دست و بازو بنا یاہے
یقیناوہ لوگ تو ان گندی مچھلیوں میں سے نہیں ہونے چاہیئں جنہوں نے سارے جل
کو گندہ کر رکھا ہے اور جو سراپا کرپشن کی کالک سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ
تو امین ، دیانتدار ، نیک اور پارسا ہونے چاہیئں ۔ یہ ایک منطقی بات ہے۔ اس
کا مطلب ہے کہ حضرت شیخ الاسلام صاحبان قاف و میم کو دودھ دھلے سمجھتے ہیں
کہ اپنے بلند تر مقصد کے حصول کیلئے ان کو منتخب کیا یا ساتھ ملایا یا ان
کا ساتھ قبول کیا ۔ جبکہ مذکورہ دونوں جماعتوں کا حال عوام الناس اور منہاج
القرآن کے کارکن خوب جانتے ہیں۔ یہ میڈیا کا دور ہے اور کچھ بھی ڈھکا چھپا
نہیں ۔ مشرف باقیات کواپنے گرد جمع کرتے ہوئے شیخ یقینا مشرف کے اقدامات کی
نہ صرف توثیق کر رہے ہیں بلکہ شاید اسی دور کا احیاءچاہتے ہیں۔
شیخ کی پریس کانفرنس جو انہوں نے قاف لیگ کے ساتھ کی ، اس کانفرنس میں مونس
الہی ان کے پیچھے نمایاں کھڑے تھے۔ مونس الہی کا کرپشن کیس عوام الناس کے
ذہن میں تازہ ہے جس کو ختم کرانے کے لئے قاف لیگ کو اپنی وفاداریاں زرداری
کی جھولی میں ڈالنا پڑیں اور قاف لیگ قاتل لیگ کہنے والے زرداری کے پاس بھی
ان کو قبول کرنے کے سواشاید کوئی چارا نہ تھا ۔ حضرت شیخ اسی مداری تماشا
کو ختم کرنے کیلئے ہی تومیدان میں اترے ہیں پھر اسی قماش کے لوگوں سے پیار
کی پینگیں بڑھانا چہ معنی دارد؟
حضرت نے فرما یا کہ موجودہ نظام انتخاب فرسودہ اور ظالمانہ ہے جس میں لوگوں
سے جبراً ووٹ حاصل کیا جاتا ہے ۔ یہ بات حضرت نے ایم کیوایم کے سٹیج سے کہی
۔ کراچی کے لوگ خوب جانتے ہیں کہ وہاں کس کے حق میں وہ اپنا حق رائے دہی
استعمال کرنے پر مجبور ہیں، ورنہ ان کا گھر ، جان ومال کچھ محفوظ نہیں رہے
گا۔
منہاج القرآن کے کارکن اسلام پسند ہیں وہ اپنے قائد کو قبلہ کہتے ہیں ۔ مگر
اب وہ قبلہ رو ہوتے ہوئے تذبذب کا شکار ہیں۔ اگر وہ عقیدت میں گھر بار سب
کچھ بیچ کر حضرت کے پیچھے اللہ اکبر کہ بھی دیں تو کیا ضمانت ہے کہ امام
صاحب ا نہیں سجدے میں چھوڑ کے کینےڈا نہ سدھار جائیں گے کہ ان کا تو وہاں
بھی گھر ہے مگر غریب کارکن اسلام آباد سے ناکام واپسی کے بعد کہاں جائیں
گے؟
شیخ الا سلام صاحب سے دست بستہ عرض ہے کہ عقیدت کا بت ایک بار پاش پاش
ہوجائے تو دوبارہ نہیں بنتا۔اور منہاج القرآن کے کارکنوں کو مشورہ ہے کہ
عقیدت سے نہیں ذرا عقل سے کام لیکر حالات کا جائزہ لیں ۔ بہت کچھ واضح ہو
جائیگا ۔ مشورہ حاضر ہے من چاہے مان لیجیے ورنہ دیوارِ عقیدت پر دے ماریئے۔ |