ماضی ایک ایسا آئینہ ہوتا ہے جس
میں جھانک کرہم اپنے حال اورمستقبل کاچہرہ سنوارسکتے ہیں۔ماضی کوفراموش
کرنے اورغلطیوں سے نہ سیکھنے والے لوگ تاریخ کی کتابوں ،افسانوںاورلوک
داستانوں کاحصہ بن جاتے ہیں۔ناکام ہونابری بات نہیں لیکن ناکامی کی وجوہات
یااس کے اسباب تلاش اوران کاسدباب نہ کرنا واقعی بری بات ہے ۔ اپنے ماضی
اورحال کاموازنہ کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنازندہ قوموں کا طرہ
امتیازرہا ہے۔پاکستان 14اگست1947ءکومعرض وجودمیں آیاتھا جبکہ
14اگست2047ءکوپاکستان کی سنچری پوری ہوجائے گی مگر قیام پاکستان سے اب تک
ہم استحکام پاکستان کے سلسلہ میں سیاستدانوں اورحکمرانوں کی بڑی بڑی ڈینگیں
سن رہے ہیں جبکہ پچھلے کئی برسوں سے ہمارے ملک میں ڈرون حملے ہورہے ہیں
لیکن فوجی آمر پرویزمشرف سے صدرآصف زرداری تک کسی نے اس بدترین جارحیت
کیخلاف مزاحمت تودرکنار اس فسطائیت کی مذمت تک نہیں کی ۔بحیثیت قوم اپنی
ناکامیوں اورکامیابیوں کی روشنی میں باآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ہم کل
کہاں کھڑے تھے،آج کہاں سٹینڈ کرتے ہیں اورکل کس مقام پرہوں گے ۔جوفرد،ادارہ
،ریاست یاقوم مستقبل کے حوالے سے درپیش چیلنجز اورخطرات سے چشم پوشی اختیار
کرلے گمنامی ،بدنامی اورناکامی اس کامقدرجاتی ہے۔دنیا کی ترقی یافتہ
اورمہذب اقوام نے مستقبل کی ٹھوس ،درست اوردوررس منصوبہ بندی کرکے آ ج یہ
مقام پایا ہے۔خدشات اورخطرات کے درمیان بہت باریک فرق ہوتا ہے ،جوخودکومستقبل
میں پیش آنیوالے چیلنجزاورخطرات کیلئے تیارنہیں کرتے وہ ناکام لوگ زندگی
بھر قسمت کودوش دیتے ہیں لیکن جوواقعات اورامکانات کی روشنی میں مستقبل کی
سمت پیش قدمی کرتے ہیں انہیں زندگی میں کبھی مڑکرپیچھے دیکھنا
یاپچھتانانہیں پڑتا۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے جس وقت پانی سر سے گزرجاتا ہے
توپھرارباب اقتداراورعوام ہوش میں آتے ہیں مگرحادثہ یاسانحہ کسی کاانتظار
نہیں کرتااورکسی کوسنبھلنے کی مہلت نہیں دیتا۔
14اگست1947ءمیں ہمارے پاس ایک قائدؒ ،ایک متحد قوم اورایک ایسا ملک تھا
جوہمارے دشمن بھارت کے مشرق اورمغرب میں واقع اوردفاعی اعتبار سے اس کیلئے
ایک بڑا خطرہ تھا۔قائدؒ کے انتقال نے قوم کاشیرازہ بکھیردیااورملک وقوم کی
باگ ڈوربونے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں آگئی۔ہمارے زیادہ تر سیاستدان
اقتدارکے پجاری نکلے اوران کی اس ہوس کافائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے دشمن بھارت
نے نفاق کا بیج بویا جس کے نتیجہ میں1971ءمیں پاکستان کاایک بازوکاٹ دیا
گیا۔اس اندوہناک واقعہ نے ہماری ریاست ،سیاست اورمعیشت کابیڑا غرق
کردیااورہم روزبروزگہری کھائی میں گرتے چلے گئے ۔ ملک عزیز کا مستقبل خطرے
میں دیکھتے ہوئے ہماری بزدل اورطوطاچشم حکمران اشرافیہ نے اپنا کاروبار
اورسرمایہ بیرون ملک منتقل کرناشروع کردیا جس کے نتیجہ میں بچی کچھی ریاست
،سیاست اورمعیشت مزیدکمزورہوتی چلی گئی ۔کاروباراورسرمایہ بیرون ملک منتقل
ہونے سے ایک طرف پاکستان کے روپے کی قدرمیں نمایاں کمی آتی گئی،دوسری طرف
پاکستان کے اوپربیرونی قرض کوبوجھ مزید بڑھتا گیا ،کئی ملین ہنرمندافراد
بیروزگار ہوگئے اورہمارے بیش قیمت ٹیلنٹ نے بھی روزگار کی تلاش میں مختلف
بیرونی ملکوں کارخ کرلیا۔ہزاروں ڈاکٹرزاورانجینئرزاپناملک چھوڑگئے ۔سرمایہ
دارسیاستدانوں نے سیاست،تجارت اورجمہوریت کوہائی جیک کرلیا جس کے نتیجہ
میںعوام ریاستی ،معاشی اورہمارے ملک میں رائج طبقاتی نظام سے متنفر ہوگئے
اوران کاسرمایہ دارسیاسی قیادت پرسے اعتماد اٹھ گیا ورنہ اس ملک کے کروڑوں
عوام اوربالخصوص نوجوان کسی متبادل نظام اورمتبادل قیادت کی تلاش میں نہ
ہوتے۔سرمایہ داراور مفادسیاستدانوں نے ریاست ،جمہوریت اورمعیشت کومضبوط
کرنے کی بجائے اپنے اپنے اقتدارکی مضبوطی پرزوردیا اوردونوں ہاتھوں سے خوب
مال بنایا۔سرمایہ داربزدل ہوتے ہیں کیونکہ ان کی جان ان کے پیسے میں ہوتی
ہے اوروہ باآسانی معاشی طورپرمضبوط ملکوں اورمالیاتی اداروں سے بلیک میل
ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میںضرورت سے زیادہ سیاسی پارٹیاں اوردھڑے معرض وجودمیں آنے سے
عوام صوبوں،برادریوں،پارٹیوں اورمادری زبانوں کی بنیادپرمنقسم اورمنتشر
ہوتے چلے گئے ۔پاکستان کاروپیہ ڈی ویلیوہونے سے اس کے قرض پرپڑنے والے
سودکاحجم راتوں رات کئی گنابڑھ جاتا ہے۔ریاست سے معاشرے تک ہمارے ہاں کوئی
طبقہ سادگی اورکفایت شعاری کواپنانے کیلئے تیارنہیں ہے ۔کسی کوحالات کی
سنگینی کاادراک اوراحساس تک نہیں ہے ،ہمارے ہاں دستیاب وسائل کاایک بہت
بڑاحصہ فضولیات پرصرف کیا جارہا ہے۔کروڑوں روپے کے تعمیراتی منصوبوں کی
بیجا تشہیر کیلئے اربوں روپے اشتہارات کی مدمیں لٹادیے جاتے ہیں۔بیرونی
سرمایہ کاروں کوپاکستان میں انوسٹمنٹ کرنے کی بار بار دعوت دی جاتی ہے مگر
مقامی سرمایہ کارجواپنے کاروبارسمیت بیرون ملک منتقل ہورہے ہیںان کے اعتماد
کی بحالی کیلئے کسی فوجی یاجمہوری حکمران نے آج تک کچھ نہیں کیا ۔کمزورسیاست
اورنیم مردہ معیشت کے ساتھ کوئی ریاست اپنا وجودبرقرارنہیں رکھ سکتی ۔اگرہم
نے اپنے ریاستی قرض کی جلدسے جلد ادائیگی کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی
اوراپنے وسائل بڑھانے اوران کادرست استعمال کرنے کیلئے سوچ بچار نہ کی
توخدانخواستہ پاکستان صومالیہ بن جائے گا۔میں مایوسی کاعلمبردارنہیں ہوں
لیکن خوش گمانی یاخوش فہمی کی دنیا میں رہنا بھی مجھے پسند نہیں ہے۔بلاشبہ
قیام پاکستان ایک معجزہ تھا مگراس کے استحکام کیلئے ہم میں سے ہرکسی کواپنا
اپنا کرداراداکرناہوگامگرہم بحیثیت قوم شایدآج پھر کسی معجزے کے منتظر
ہیںاورہماری خوش فہمی کے مطابق ایک روزخودبخودپاکستان کاقرض اترجائے
گااورہماراملک مخلص اورمدبرسیاسی قیادت کی قلت ،توانا ئی کی قلت ،ضروریات
زندگی کی قلت ،ادویات کی قلت ،روزگارکی قلت جبکہ بدعنوانی کی فراوانی ،جھوٹ
کی بھرماراورملاوٹ کی زیادتی کے ساتھ ایک معاشی طاقت بن جائیں گا۔اگرہمارے
حکمران اپنے پیشروحکمرانوں کی ڈگرپرچلیں گے توپھر عوام کومایوسی اورمحرومی
کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔پاکستان کودوررس معاشی اوراقتصادی اصلاحات کی ضرورت
ہے ۔پاکستان کوانڈسٹری فرینڈلی سٹیٹ ڈکلیئر کیااورمقامی سرمایہ کاروں
کوزیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے ۔
پاکستان میں متحرک سیاسی پارٹیاں کسی ایک ایجنڈے پرمتفق نہیں ہیں بلکہ
ہرکسی کااپنا اپنا ایجنڈا اورگورکھ دھنداہے ۔کوئی سیاسی لیڈر دوسرے
کاوجودبرداشت کرنے کیلئے تیار نہیںہے،یہ ہروقت میڈیا میں ایک دوسرے
کولوٹا،چور،ڈاکو،قاتل اورقومی مجرم قراردیتے ہیں اورپھرنظریہ ضرورت کے تحت
راتوں رات ان سے اتحادبھی کرلیا جاتا ہے۔اس منافقانہ روش کے نتیجہ میں
سیاستدان عوام کے نزدیک ناقابل اعتماد ہوگئے ہیں ۔ہمارے ہاں رائج اصول
وضابطے سے عاری سیاست نے پاکستان کوقیادت سے محروم، ہماری قوم کوپھر سے
ہجوم،جمہوریت کوآمریت سے بدتر اورمعیشت کابھرکس بنادیا ہے۔پچھلی پانچ
دہائیوں کے دوران جوبھی فوجی یامنتخب سیاستدان اقتدارمیں آیااس نے اپنے
اپنے اندازمیں ریاست،سیاست ،جمہوریت اور معیشت کوتختہ مشق بنایا ، ان سب نے
اپنی اپنی عیش وعشرت کیلئے پاکستان کومزید مقروض اورمعاشی طورپرمفلوج
کردیاہے،ٹریڈ کوفروغ دینے کی بجائے ایڈ پرانحصار کیا گیا،امریکہ کی
ایڈپاکستان کیلئے ایڈز سے زیادہ مہلک ہے۔مختلف حکمرانوں نے مختلف ادوارمیں
جوبھاری شرطوں پر قرض لیا تھا اب اس بوجھ کو عہدحاضر کے حکمرانوں میں سے
کون اورکس طرح اتارے گا،ہمارے سیاستدانوں نے کبھی اس ایشوکاٹھو س حل تلاش
کرنے کیلئے آپس میں سر نہیں جوڑے جبکہ اپنے اپنے مفاد کی خاطر آئین میں
ترمیم کیلئے وہ راتوں رات متحداور پوری طرح متفق ہوجاتے ہیں۔جہاں سیاسی
پارٹیوں اورسیاسی قیادت کے رویوں میں جمہوریت اورحمیت نہیں ہوگی اس ریاست
میںسیاست، جمہوریت اورمعیشت کامستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔بحیثیت ریاست اورقوم
ہماراڈاﺅن فال کسی دشمن ملک کی سازش سے زیادہ ہمارے اپنے حکمرانوں کی
نااہلی کاشاخسانہ ہے۔ہم اپنے بنیادی اوراہم قومی ایشوزکوٹیک اپ کئے بغیر
ٹیک آف کی پوزیشن پرنہیں آسکتے۔ہمیں فوری طورپربیرونی قرض سے چھٹکاراپانا
ہوگا،کس طرح یہ سوچنا ماہرین معیشت کاکام ہے۔اس ملک اوراس کی معیشت کیلئے
عوام نے بار بارقربانی دی اب حکمرانوں کی باری ہے وہ اپنا اپنا پیسہ
اورکاروبار پاکستان منتقل کریں تواس ملک سے بیروزگاری،بیقراری اوربدحالی
دورہوجائے گی ورنہ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔بحیثیت قوم ہمارے
جواعمال ہیں ،ہمارے ہاں معجزہ نہیں ہوگاتاہم بروقت تدبیر سے تقدیربدلی
جاسکتی ہے۔ |