ان امریکی انتخابات پر تقریباچھ
ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے اور ہر امریکی کو یہ انتخاب بیس ڈالر میں پڑا ہے۔
اگر ان انتخابات کو سوشل میڈیا کے انتخابات کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ
آرائی نہیں ہو گی
انتخابات میں بارک اوباما ایک بار پھر صدر بن گئے، کسی نے کہا ،،امریکہ کو
اوباما اور پاکستان کو ڈرون مبارک ہوں،،۔ اور کسی نے کہا کہ ،، امریکی صدر
سیاہ فام ہو یا سفید فام پاکستان کو کیا فرق پڑے گا،،۔ امریکی صدارتی
انتخابات جہاں شروع سے آخر تک جہاں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی توجہ کا
مرکز بنے رہے وہیں یہ موضوع 'سوشل میڈیا' پر بھی چھایا رہا۔دنیا بھر کے
کروڑوں افراد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر امریکہ کے صدارتی انتخابات
سے متعلق اپنی آرا اور انتخابات کے نتائج پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔
امریکہ میں انتخابات ہوگئے۔ ساری دنیا ان انتخابات کے پیچھے تھی۔ ہر شخص
ٹوئٹر یا فیس بک پر موجود تھا۔انتخابات میں بارک اوباما ایک بار پھر صدر بن
گئے، کسی نے کہا ،،امریکہ کو اوباما اور پاکستان کو ڈرون مبارک ہوں،،۔ اور
کسی نے کہا کہ ،، امریکی صدر سیاہ فام ہو یا سفید فام پاکستان کو کیا فرق
پڑے گا،،۔ امریکی صدارتی انتخابات جہاں شروع سے آخر تک جہاں دنیا بھر کے
ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے رہے وہیں یہ موضوع 'سوشل میڈیا' پر بھی
چھایا رہا۔دنیا بھر کے کروڑوں افراد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر
امریکہ کے صدارتی انتخابات سے متعلق اپنی آرا اور انتخابات کے نتائج پر
اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔ ان امریکی انتخابات پر تقریباچھ ارب ڈالر کی
لاگت آئی ہے اور ہر امریکی کو یہ انتخاب بیس ڈالر میں پڑا ہے۔ اگر ان
انتخابات کو سوشل میڈیا کے انتخابات کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی
نہیں ہو گی۔ امریکہ انتخابی مہم کے دوران صدارتی امیدواروں کے جانب سے کئے
گئے مجموعی اخراجات 2008 کے الیکشن کے مقابلے بیس کروڑ ڈالر کم رہے تاہم
سینٹ اور کانگریس کے امیدواروں کے خرچوں کو ملا کر یہ تاریخ کے مہنگے ترین
انتخابات ہیں۔ امریکہ کے فیڈرل الیکشن کمیشن کے مطابق صدر براک اوباما نے
انتخابی مہم پر مجموعی طور پر ترانوے کروڑ بارہ لاکھ ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ
ان کے مخالف مٹ رومنی نے ایک ارب ایک کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کی ہے۔
دونوں امیدواروں نے مجموعی طور پر دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ
گزشتہ امریکی انتخابات میں دو اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر استعمال ہوئے تھے۔
رومنی اخراجات کے حوالے سے تو آگے رہے مگر اوباما کو انفرادی عطیات زیادہ
ملے۔ انتخابات کے قواعد کے مطابق حتمی صدارتی امیدوار سرکاری خزانے سے نو
کروڑ دس لاکھ ڈالر لینے کے حقدار تھے تاہم اس صورت میں انھیں اپنے اخراجات
محدود رکھنے پڑتے۔ اسی وجہ سے دونوں صدارتی امیدواروں نے یہ رقم لینے سے
گریز کیا۔ دوسری طرف صدارتی امیدواروں کے ساتھ سینٹ اور کانگریس کے
امیدواروں کو شامل کر لیا جائے تو یہ خرچہ آٹھ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر
گیا ہے۔ یوں یہ انتخابات امریکی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ہیں۔
الیکشن کا دن آنے سے پہلے ہی انتخابی مہم سے انتخابی دوروں تک کے اخراجات
چھ ارب ڈالر کی حدود پار کرگئے تھے ۔دی ویسلیئن میڈیا پراجیکٹ کے مطابق
صدارتی انتخابات کی مہم کے آغاز سے نولاکھ پندرہ ہزار بار اشتہارات آن ایئر
ہوئے ۔ گزشتہ انتخابی مہم کے اخراجات کے مقابلے میں چوالیس اعشاریہ پانچ
فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس بار انتخابی مہم کے اخراجات چھ ارب سے زائد تھے ۔ جو
چالیس ملکوں کے مجموعی جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں اربوں روپے کے
اخراجات کارپوریشنز کی جانب سے کیئے جاتے ہیں تاکہ اوول آفس میں بیٹھنے
والا صدر اقتدار ملنے کے بعد معاون ثابت ہوسکے۔
ان انتخابات کا خاص پہلو یہ تھا کہ اس میں نہ کوئی دنگا فساد ہوا، نہ کوئی
گولی چلی، نہ کو جھگڑا ہوا،
امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخاب پاکستان جیسے بہت سے جمہوری ملکوں کے لئے
بہت سے قابل تقلید پہلو لئے ہوئے ہیں۔ امریکی سیاست، معیشت اور میڈیا پر دو
فیصد یہودیوں کی واضح چھاپ ہے اور اسکے اسلام مخالف اقدامات بھی کسی سے
ڈھکے چھپے نہیں مگر ایک آزاد جمہوری معاشرے کے نمائندہ ملک کے طور پر وہاں
بہت سی اچھی چیزیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں اور یہ خوبیاں انہوں نے طویل
جمہوری تجربے کے بعد حاصل کی ہیں۔ ایک پختہ جمہوری معاشرے کی سب سے بڑی
خوبی تحمل اور بردباری ہے۔ جس میں دوسروں کے وجود اور انکے خیالات و نظریات
کو بھی برداشت اور ان کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس کا
فقدان ہے، اس کا مشاہدہ آپ روزانہ الیکٹرونک میڈیا پر ہونے والے بحث و
مباحثے میں کرتے ہوں گے۔ باہم میل ملاپ اور گفت و شنید کے دوران احترام کو
ملحوظ رکھنا تو ویسے بھی بنیادی انسانی تقاضا ہے مگر جن لوگوں نے عوام کو
لیڈ کرنا ہوتا ہے انکے درمیان برداشت اور تحمل زیادہ ضروری ہے۔ ہمارے ہاں
اس بنیادی انسانی خوبی کی خاصی حد تک کمی نظر آتی ہے حالانکہ ہمارا مذہب
ہمیں دوسروں سے کہیں زیادہ تحمل اور درگزر کی تعلیم دیتا ہے۔ آپ نے حسب
سابق امریکہ کے موجودہ صدارتی امیدواروں کو بحث مباحثوں کے درمیان میڈیا پر
کھل کھلا کر ہنستے ہوئے دیکھا ہوگا۔ دونوں میں سے کسی نے کسی بھی جگہ
جذباتی ہوکر ایک دوسرے پر کوئی کیچڑ نہیں اچھالا، کسی نے دوسرے کو غدار،
سیکورٹی رسک، بددیانت اور کرپٹ قرار نہیں دیا۔ اصولی باتوں پر بحث مباحثے
ہوتے رہے۔ اپنی اپنی حکمت عملیوں کی وضاحت اور پیش آمدہ چیلنجز کو حل کرنے
کےلئے مختلف تجاویز سنجیدگی کے ساتھ عوام کے سامنے رکھی گئیں۔ الیکشن کے
بعد صدر اوباما نے فریق مخالف مٹ رومنی کو مبارکباد پیش کی کہ اس نے بھرپور
الیکشن مہم کا اہتمام کیا۔ ہارنے والوں نے دھاندلی کا کوئی الزام نہیں
لگایا ۔ جیتنے والے نے کسی چھوٹے پن کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نہ آپس میں دست و
گریبان ہوئے ۔ ہارنے والے یا جیتنے والے نے حصول اقتدار کی دوڑ میں کسی بھی
مر حلے پر جذباتی ہوکر کوئی ایسی بات نہیں کی کہ بعد میںشرمندگی کا باعث
بنتی ۔ اوباما کی جیت کو رومنی نے کھلے دل سے قبول کرتے ہوئے اوباما کو بھی
مبارکباد دی ہے۔
انتخابی صدارتی مہم کا یہ پہلو بھی قابل تقلید ہے کہ وہ لوگ عوامی اجتماعات
یا جلسے عام پبلک مقامات کی بجائے یونیورسٹیوں اور میڈیا کے مراکز میں
منعقد کرتے ہیں تاکہ سامعین اور شرکاءسنجیدگی سے قومی مسائل پر غوروفکر
کریں اور اپنا فیڈ بیک دیں۔ اسکے برعکس ہمارے ہاں لاہور کا موچی گیٹ ہو یا
مینار پاکستان، راولپنڈی کا لیاقت باغ ہو یا مری روڈ، کراچی کا نشتر پارک
ہو یا مزار قائد، ملتان کا قلعہ ہو یا فیصل آباد کا دھوبی گھاٹ یہ مقامات
ایسے موقعوں پر ہلے گلے اور دھینگا مشتی کے مراکز نظر آتے ہیں۔ عوامی
اجتماعات میں ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ایسے کی جاتی ہے جیسے پوری دنیا
کی برائیاں سمٹ کر فریق مخالف میں جمع ہوگئی ہیں۔ اس خطیبانہ جنگ میں یہ
بھی نہیں دیکھا جاتا کہ کل یہی دشمن ہمارا سیاسی حلیف بھی بن سکتا ہے جبکہ
اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا ہے۔ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو ہمیشہ
سیکیورٹی رسک قرار دیا مگر جب دونوں کو مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کا سامنا کرنا
پڑا تو مجبوراً دونوں کو اکٹھے ہوکر میثاق جمہوریت جاری کرنا پڑا۔ اسی طرح
زرداری نے جس جماعت کو قاتل لیگ قرار دیا آج وہی نہ صرف اقتدار کے دستر
خوان پر انکے ساتھ شریک ہے بلکہ آئندہ الیکشن متحد ہوکر لڑنے کی تیاریاں
مکمل ہوچکی ہیں۔
امریکی الیکشن مہم کی تیسری اور اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ انکے لیڈر اپنے
ذاتی اور جماعتی مفادات سے اوپر اٹھ کر قومی اور عوامی مفادات کے تحفظ کی
بات کرتے ہیں۔ انکے تمام تر دلائل اس ایک نقطے کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں کہ
وہ کس طرح امریکی قوم کو تحفظ اور خوشی دے سکتا ہے۔ اسکے برعکس یہ ایک کھلی
حقیقت ہے کہ ہمارے تمام سیاسی و مذہبی قائدین پہلے تو ذاتی مفادات کے چنگل
سے آزاد نہیں ہوتے، ان کی سیاست و قیادت کی ساری قابلیت اسلئے ہوتی ہے کہ
وہ کس طرح اپنی ذاتی اور اپنے دوست احباب کی تجوریاں بھرتے ہیں۔ قومی
مفادات محض زبانی دعوے ہوتے ہیں چنانچہ ملک کی خارجہ پالیسی، تعلیمی
پالیسی، اقتصادی پالیسی اور اسی طرح کی بنیادی ضروری چیزیں ہمارے سیاسی
قائدین کے دائرہ فکر و شعور سے باہر رہتی ہیں۔ اسکے برعکس یورپ اور امریکہ
میں قیادت کو اپنا مکمل پروگرام اور اس پر عمل درآمد کے اسباب کو قوم کے
سامنے پیش کرنا پڑتا ہے۔ اس پر اوپن بحث مباحثے اور اعتراضات ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو بھی فراموش کردیا جاتا ہے۔
مہنگائی، کرپشن، ناانصافی، جہالت اور توانائی کے بحران جیسے اہم مسائل پر
بھی ہمارے قائدین کوئی واضح لائحہ عمل نہیں رکھتے۔ پھر بھی عوام دھڑے
بازیوں میں ملوث خود غرض اور جاہل ”سیاستدانوں“ کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں
لے آتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے کیا قانون سازی کرنی ہے اور قوم کی تقدیر بدلنے
کےلئے کیا اقدامات کرنے ہیں؟
امریکہ کے الیکشن چند بنیادی مسائل پر ہوئے اور دونوں صدارتی امیدواروں نے
معیشت، ٹیکس، ایران، افغانستان، اسقاط حمل، قومی سلامتی ، صحت عامہ اور
تارکین وطن پر اپنا موقف قوم کے سامنے مباحثوں کے ذریعے پیش کیا -
اوباما نے امریکن ریکوری اور ری انویسٹمنٹ یعنی معیشت کی بحالی اور دوبارہ
سرمایہ کاری کے بل پر دستخط کیے جسے سٹملس بھی کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے
تحت سات سو اڑسٹھ ارب ڈالر کی ٹیکسوں میس چھوٹ اور تعلیم، بنیادی ڈھانچے،
توانائی، صحت اور دوسرے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اوباما نے
امریکی آٹو انڈسٹری یعنی گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی مالی مدد کے منصوبے
کی منظوری دی۔ کولمبیا پانامہ اور جنوبی کوریا کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر
دستخط کیے۔۔مٹ رومنی کا منصوبہ ٹیکس کی کٹوتیوں پر منحصر ہے، یہ اوباما کے
دو ہزار دس کے قوانین کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں انہوں نے وال
سٹریٹ اور بنکوں کے قوانین میں ترامیم کیں تھیں۔ ایران پر دونوں رہنماوئں
کا موقف بھی مختلف تھا،اوباما نے تہیہ کیا تھا کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار
تیار کرنے سے ہر صورت روکیں گے۔ اسی طرح اوباما اسرائیل یا امریکہ کی جانب
سے ایران کی جوہری تنصیبات پر مستقبل قریب میں حملے کے مخالف ہیں۔ اوباما
اس معاملے کے سفارتی حل پر زور دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کا یہ کہنا ہے کہ
’اس حل کے لیے وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘ اور کچھ بھی خارج از امکان نہیں ہے۔
انہوں نے ایران کے خلاف نئی پابندیوں پر دستخط کیے ہیں جن میں ایران کے
مرکزی بنک، تیل کی آمد اور مالیاتی نظام کے خلاف پابندیاں شامل ہیں۔
رومنی کا کہنا ہے کہ ایران کا جوہری ہتھیار حاصل کرنا بالکل قابل قبول نہیں
ہے۔ ان کا بھی فوجی اقدام کے بارے میں کہنا ہے کہ ’یہ راستہ موجود رہے گا‘۔
قومی سلامتی اور جنگ کے حوالے سے اوباما کا دعوی تھا کہ انہوں نے اسامہ بن
لادن سمیت القاعدہ کے تقریباً تمام رہنماؤں کو قتل کرنے کروایا، عراق سے
امریکی افواج کے انخلا کو مکمل کیا اور کانگرس میں موجود ریپبلکنز کے ساتھ
دفاعی شعبے کے اخراجات میں اگلے دس سال کے دوران اڑتالیس کروڑ ستر لاکھ
ڈالر کی کمی پر اتفاق کیا۔ جبکہ مٹ رومنی قومی سلامتی اور جنگ کے بارے میں
نظریہ رکھتے تھے کہ
فوجی سازوسامان اور مزائل دفاعی نظام پر بہت زیادہ خرچ کریں گے اور
پینٹاگان یا امریکی وزارت دفاع کے بجٹ میں ایک کھرب ڈالر کا اضافہ کریں گے
جبکہ دفاعی شعبے کے سویلین حکام پر اخراجات کم کریں گے۔افغانستان کے بارے
میں اوباما نے اقدار میں آنے کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد
میں اضافہ کیا لیکن اب بتدریج کمی کے ساتھ انہوں نے دو ہزار چودہ میں مکمل
انخلا کا اعلان کر رکھا ہے۔
رومنی کا یہ کہنا ہے کہ ان کا ہدف دو ہزار چودہ تک افغان حکام کو سکیورٹی
کی منتقلی ہے لیکن وہ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ دو ہزار چودہ میں انخلا کے
منصوبوں کا جائزہ لیں گے اور ان کی بنیاد فوجی سربراہوں کے تخمینوں پر
رکھیں گے۔صحت عامہ کے بارے میں دو ہزار دس میں صحت عامہ کے قانون میں
نمایاں تبدیلوں پر مبنی ایک قانون منظور کیا جس کی رو سے فرد واحد کو بیمہ
کروانے کا کہا گیا اگر اس کے پاس پہلے ہی سے صحت کا بیمہ نہیں ہے۔ اس کے
ساتھ ساتھ اس قانون میں بیمہ کمپنیوں پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ کسی شخص
کو پہلے سے موجود بیماری کی وجہ سے بیمہ دینے سے انکار نہیں کر سکتیں۔ یہ
قانون ریاستوں کو پہلے سے موجود میڈی کیڈ نامی عوامی بیمہ پروگرام میں
امداد دینے کی بھی بات کرتا ہے۔
رومنی اوباما کہ صحت عامہ کے قانون کو ختم کر دیں گے اگرچہ یہ قانون انہی
کے میساچوسٹس میں منظور ردہ ایک ایک قانون پر مبنی ہے اور ریاستوں کو بہت
ساری صحت کی پالیسیاں واپس کر دیں گے۔ ڈاکٹروں کی غلط کاریوں پر کیے جانے
والے مقدمات پر حد لگائیں گے اور فرد واحد کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ
بیمہ غیر سرکاری منڈی میں یا دوسری ریاستوں میں خرید سکیں جہاں اس کے دائرہ
اثر میں کمی ہو اس پر اٹھنے والے اخراجات بھی کم ہوں۔غیر قانونی تارکین وطن
پراوباما نے آئین کے تحت مفوضہ اعلیٰ انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے
اور کانگریس میں موجود ریپبلکنز کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض نوجوان تارکین
وطن کو قانونی حیثیت دینے کی اجازت دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے غیر
قانونی تارکینِ وطن کو امریکہ بدرکرنے میں بہت تیزی آئی ہے۔ رومنی نے
اوباما کے نوجوان تارکین وطن کو قانونی حقوق دینے کے مخالفت کی لیکن یہ
نہیں کہا کہ اسے واپس لیں گے یا نہیں۔ اوباما اسقاط حمل کے حقوق کی حمایت
کرتے ہیں اور انہوں نے سپریم کورٹ میں دو ایسے ججوں کو تعینات کیا ہے جو
اسقاط حمل کے حامی ہیں۔
ان کا کہنا ہے ’میری صدارت زندگی کے حق میں ہو گی‘ اوباما نئی قسم کی
توانائی کے منصوبوں کے حق میں ہیں جیسا کہ ہوائی چکیاں اور کاروں کے لیے
جدید بیٹریاں، اسی طرح انہوں نے کاروں کے ایندھن کے استعمال میں بہتری اور
آلودگی کے اخراج پر قوانیں سخت کیے ہیں۔ انہوں نے کی سٹون تیل کی پائپ لائن
بنانے کی مخالفت کی جس کے تحت خام تیل کینیڈا سے خلیج میکسیکو میں منتقل
کیا جانا تھا۔ اس بارے میں ان کا یہ کہنا تھا کہ امریکہ کے پاس اتنا وقت
نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ اس پائپ لائن کے ماحول پر کیا اثرات مرتب
ہوں گے۔رومنی کا کہنا تھا کہ وہ ایسے قوانین میں آسانی پیدا کریں گے جن سے
کوئلہ پر چلنے والے بجلی گھروں، تیل کی تلاش اور جوہری بجلی گھروں کے قیام
میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس بار الیکشن کا مرکز محور سوشل میڈیا پر ریکارڈ
توڑ امریکی انتخابی مہم چلی۔امریکا میں صدارت کے دونوں امیدواروں کے درمیان
ٹیلی وڑن پر پہلے مباحثے کے بعد ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر ویب سائٹ ٹوئٹر پر
دس ملین سے زیادہ پیغامات بھیجے گئے تھے۔ بلاشبہ سوشل میڈیا کے اعتبار سے
یہ انتخابی مہم ریکارڈ توڑ رہی۔
چار سال پہلے باراک اوباما کو ا ±ن کی سوشل میڈیا مہم کی وجہ سے پہلے
’انٹرنیٹ صدر‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ اس بار ا ±ن کے ری پبلکن حریف مِٹ
رومنی بھی اپنی مہم کے دوران سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کو نظر انداز نہیں
کر سکتے تھے کیونکہ چار سال پہلے کے مقابلے میں فیس بک یوزرز کی تعداد میں
دس گنا اور ٹوئٹر کے صارفین کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ نصف
امریکی آبادی فیس بک کی رکن ہے۔ اس بار ہونے والے الیکشن میں انٹرنیٹ کا
کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا، جسے اوباما اور ان کے حریف رومنی کی جانب سے اپنی
اپنی تشہیر کے لیے استعمال نہ کیا گیا ہو۔ میڈیا منیجروں نے ٹوئیٹر اور فیس
بک کو خوب استعمال کیا -
سوشل بیکرز نامی فرم کے مائیک جسونڈی کہتے ہیں کہ ’ٹیلی وڑن پر لوگ آرام سے
چینل بدل دیتے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا مارکیٹنگ ٹی وی پر تشہیر کے مقابلے
میں کہیں زیادہ موثر ہے۔ ایک ٹی وی اشتہار نہ صرف بہت زیادہ مہنگا ہوتا ہے
بلکہ جاتا بھی صرف ایک ہی سمت میں ہے۔ اس کے مقابلے میں فیس بک یا ٹوئٹر پر
پوسٹ کیے جانے والے پیغامات بحث کی تحریک دیتے ہیں اور ان کا بعد میں تجزیہ
بھی کیا جا سکتا ہے‘۔برلن میں جان ایف کینیڈی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ امریکی
امور کے ماہر کروڈ کنپفر کہتے ہیں کہ ان پیغامات کے اتنی بڑی تعداد میں ایک
سے دوسری جگہ بھیجے جانے میں امیدواروں کی انتخابی مہم کے رضاکاروں کا اپنا
بھی بہت زیادہ ہاتھ ہوتا ہے۔
سوال لیکن یہ ہے کہ کیا یہ پیغامات انتخابی نتائج پر درحقیقت اثر انداز بھی
ہوتے ہیں؟ SAP نامی فرم کے ایک سافٹ ویئر پروگرام کی مدد سے پتہ چلایا گیا
ہے کہ دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان آخری مباحثے کے دوران انٹرنیٹ پر
فضا اوباما کے لیے زیادہ سازگار رہی جبکہ رومنی کے بیانات پر زیادہ تر غصے
کا اظہار کیا گیا۔ مطلب یہ کہ اگر انتخابات صرف اور صرف سوشل میڈیا پر
منعقد ہوتے تو موجودہ صدر باراک اوباما کی پانچوں انگلیاں گھی میں
ہوتیں۔انتخابی مہم کے دوران مِٹ رومنی کے بیانات کو بھی سوشل نیٹ ورکنگ ویب
سائٹس پر بھریور طریقے سے ’فالو‘ کیا جاتا رہا تمام تر تجزیوں اور رپورٹوں
کے باوجود یہ کہنا مشکل تھا کہ آج کے صدارتی انتخابات کے نتائج کیا رہیں گے
اور انتخابی مہم کے دوران کس امیدوار کی حکمت عملی بالآخر کامیاب ٹھہرے
گی۔رومنی کے مقابلے میں فیس بک پر اوباما کے پرستاروں کی تعداد تین گنا اور
ٹوئٹر پر دَس گنا زیادہ تھی تاہم رائے عامہ کے جائزوں کی روشنی میں دیکھا
جائے تو دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ تھا ۔
سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر پیغامات کے تبادلے کے نتیجے میں اپنا حق رائے
دہی استعمال کرنے والے امریکی شہریوں کی تعداد میں بھی خا صا اضاافہ ہوا ،
ابتدا میں اس تعداد کے بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔ شوشل نیٹ ورک
کو ووٹروں کو متحرک کرنے سے انتخابی نتائج پر کس قدر اثر انداز ہوا جا سکتا
ہے، اس کا اندازہ سن 2000ء کے انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے۔ تب ریاست
فلوریڈا میں ڈالے جانے والے 0.01 فیصد سے بھی کم ووٹوں نے پورے ملک کے
انتخابات کا فیصلہ کر ڈالا تھا ۔
امریکی صدارتی انتخابات میں باراک اوباما کی جیت کے حوالے سے پاکستانی
ذرائع ابلاغ نے بھی خوب تبصرے اور جائزے پیش کئے پاکستان کے تقریبا تمام ٹی
وی چینلوں نے امریکی الیکشن کو مرکزی حیثیت دی ۔ پاکستان کے ایک سینئر
صحافی اور روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر عبداللہ طارق سہیل کا کہنا ہے کہ
”پاکستان کی قوم صدر اوباما کی امن کی خواہش کو ایسی امید سمجھتی ہے، جو
اگر مکمل طور پر پوری نہ بھی ہو سکے توپھر بھی اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ
امریکی بڑی حد تک اس خطے سے نکل جائیں گے۔ اس طرح شاید حالات میں کچھ بہتری
آسکے گی۔ افغانستان کے بعد یہ پاکستان ہی ہے، جو دہشت گردی کے خلاف جاری
امریکی جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے“۔ حامد میر نے اوبا ما کی جیت پر
اپنے کالم میں کہا کہ باراک اوباما کی جیت کی خبر ایک ایسے موقع پر موصول
ہوئی، جب پاکستانیوں کے دل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپیل کے مسترد ہونے پر
دکھی تھے۔انگریزی روزنامہ ڈیلی نیشن نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکا کی نئی
ڈیموکریٹک حکومت پاکستان میں جمہوری عمل کی حمایت کرے گی تا ہم اخبار کے
بقول اوباما انتظامیہ کا بھارت کی طرف داری کا رجحان، جاری رہنے کا امکان
ہے۔روز نامہ نوائے وقت کی رائے میں اوباما کی پالیسیاں امریکی مفادات کے
تابع رہیں گی اور اس انتخابی نتائج پر کسی پاکستانی کو خوش فہمی میں مبتلا
نہیں ہونا چاہیے۔ اخبار نے حکومت پاکستان کو ملکی مفادات سامنے رکھ کے پاک
امریکا تعلقات سے متعلق نئی پالیسی بنانے کا مشورہ دیا ہے۔انگریزی اخبار
ڈان نے اوباما اور پاکستان کے موضوع پر لکھے گئے اپنے اداریے میں کہا ہے کہ
دیکھنا یہ ہے کہ اوباما کی نئی ٹیم اپنی خارجہ پالیسی کے متنازعہ پہلوو ¿ں
پر نظرثانی کرتی ہے یا نہیں۔ اخبار کے مطابق تاریخ میں پہلی پر نچلی ترین
سطح پر پہنچے ہوئے پاک امریکا تعلقات کو بہتر بنانا، پاکستان اور امریکا کی
حکومتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔مسلم ممالک سے امریکا کے تعلقات کے
حوالے سے اخبار ڈان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں باراک اوباما کو اپنی قاہرہ
میں کی جانے والی تقریر دوبارہ پڑھنی چاہیے۔اردو اخبار روزنامہ ایکسپریس نے
اپنے اداریے ”صدر اوباما کی جیت،ٹارزن کی واپسی“ میں امریکی سیاست دانوں کی
تعریف کرتے ہوئے پاکستانی سیاست دانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی ملکی
انتخابات میں اپنے منشور پر ووٹ مانگنے کی روایت کو فروغ دیں۔ یہ سب کچھ
اپنی جگہ پر لیکن کیا ہم پاکستانی امریکہ سے کچھ سیکھ سکتے ہیں، کچھ نہیں
تو اس ملک کے عوام کو ایک پر امن الیکشن کا تحفہ ہی دے دیا جائے ۔ جس میں
کسی کی زندگی کا چراغ گل نہ ہو۔
"'ٹوئٹر' کی ترجمان رشیل ہاروٹز کے مطابق صدارتی انتخاب کی رات ان کی ویب
سائٹ پر امریکہ کی سیاسی تاریخ کا سب سے زیادہ ذکر کیا جانے والا واقعہ بن
گئی ہے۔ ان کے مطابق منگل کی شب ٹوئٹر پر امریکی انتخاب سے متعلق تین کروڑ
10 لاکھ پیغامات 'ٹوئٹ' کیے گئے۔ترجمان کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کی فتح کے
اعلان کے فوری بعدٹوئٹر پر ایک منٹ میں تین لاکھ 27 ہزار پیغامات درج کیے
گئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ جب کہ انتخاب کے حوالے سے سارا دن فی منٹ اوسطاً 11
ہزار ٹوئٹ کیے جاتے رہے۔انتخاب میں فتح کے اعلان کے بعد صدر براک اوباما کے
ٹوئٹر اکاﺅنٹ سے "مزید چار سال۔۔ " کے پیغام کے ساتھ ان کی ایک تصویر بھی
جار ی کی گئی جس میں وہ اپنی اہلیہ مشیل اوباما کو گلے لگارہے ہیں۔ ڈیجیٹل
نیوز ویب سائٹ 'بز فیڈ' کے مطابق یہ تصویر اور پیغام ویب سائٹ کی تاریخ میں
سب سے زیادہ بار 'ری ٹوئٹ' کیا جانے والے پیغام بن گیا ہے۔صدر اوباما کی
یہی تصویر سماجی رابطوں کی ایک اور مقبول ویب سائٹ 'فیس بک' پربھی جاری کی
گئی ہے جو 'فیس بک' انتظامیہ کے مطابق ویب سائٹ کی تاریخ کی سب سے زیادہ
'لائک' کی جانے والی تصویر بن گئی ہے جسے اب تک 32 لاکھ سے زائد افراد پسند
کرچکے ہیں۔صدارتی انتخاب کے تناظر میں 'فیس بک' پر صدر اوباما کے بارے میں
گفتگو کرنے والوں کی تعداد 20 لاکھ رہی جب کہ مٹ رومنی کے بارے میں ساڑھے
نو لاکھ افراد نے پوسٹس کیں۔لگ بھگ 83 لاکھ افراد نے 'فیس بک' پر اپنے ووٹ
ڈالنے کا اعلان کیا۔'فیس بک' کے مطابق لگ بھگ 83 لاکھ افراد نے ویب سائٹ پر
اپنے ووٹ ڈالنے کا اعلان کیا یا اس سے متعلق تجربات شیئر کیے۔صدارتی انتخاب
کے دن 'فیس بک' کی ملکیتی تصاویر کے تبادلے کی ویب سائٹ 'انسٹا گرام' پر
امریکی شہریوں نے 'ووٹ' کے عنوان کے تحت پونے آٹھ لاکھ سے زائد تصاویر شیئر
کیں جب کہ ویب سائٹ پر 'الیکشن' اور اس سے ملتے جلتے عنوانات کے تحت مزید
ڈھائی لاکھ سے زائد تصاویر پوسٹ کی گئیں۔پاکستان میں بھی امریکہ کا صدارتی
انتخاب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے صارفین کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا۔
تاہم پاکستانیوں کی اکثریت کی جانب سے صدر اوباما کی فتح پر کوئی خاص پرجوش
ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔صدر اوباما کی فتح پر 'فیس بک' اور 'ٹوئٹر' پر
پاکستانیوں کی جانب سے شیئر کیے جانے والے پیغامات میں سے بیشتر میں ڈرون
حملوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
کئی افراد نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا صدر اوباما دوبارہ انتخاب کے بعد بھی
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے جاری رکھیں گے یا اپنی ماضی کی
پالیسی پر نظرِ ثانی کریں گے جب کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان خدشات کا
اظہار کیا کہ صدر اوباما کے دوبارہ انتخاب کے بعد پاکستان کے بارے میں ان
کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب کہ ڈرون حملوں میں بھی اضافہ
ہوگا۔ |