جھوٹے خوابوں کے سوداگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 پا شکستہ سر بریدہ خواب،خواب لے لو،خواب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ن،م راشد نے کہا تھا،خواب لے لو،خواب۔۔۔۔۔صبح ہوتے ہی چوک میں جاکر لگاتا ہوں صدا۔۔۔۔۔خواب لے لو،خواب۔۔۔۔۔خواب اصلی ہیں کہ نقلی۔۔۔۔۔خواب لے لو خواب۔۔۔۔۔66سال سے ہمارے حکمران اور سیاسی قائدین قوم کو خواب ہی تو دکھا رہے ہیں،جان،مال اور آبروکے تحفظ کے خواب،روٹی، کپڑے،مکان کے خواب،بیمار کیلئے دوا اور علاج و معالجہ کے خواب،پاکستان کے سنہری مستقبل کے خواب،حصول انصاف کے خواب، کرپشن، رشوت،چور بازاری،سینہ زوری کے خاتمے کے خواب،تعلیم یافتہ پاکستان کے خواب،ملک میں ایک ہی تعلیمی نظام کے نفاذ کے خواب،فرقہ واریت تشد د اور نفرتوں کے خاتمے کے خواب،بے گھروں کو گھر بناکر دینے کے خواب،غریب کی بیٹیوں کی شادی کے خواب، سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے جبر مسلسل کے خاتمے کے خواب،بے زمین کسانوں کو زمین دینے کے خواب،مذہبی طبقے کی نفرتوں کے خاتمے کے خواب،پولیس اور طاقت ور ایجنسیوں کے ظلم کے خاتمے کے خواب،بچھڑ ے ہوؤں کو ملانے کے خواب،جنگ تشد د بم دھماکے، قتل و غارتگری کے رک جانے کے خواب،امن وسکون سلامتی کے خواب،ہر سطح پر میرٹ کی بالا دستی کے خواب،علم و شرافت کو عزت ملنے کے خواب،معاشرے میں عزت کے پیمانے بدلنے کے خواب،سکون کی نیند سونے کے خواب،ڈیموں کے بننے کے خواب،انڈسٹری کے پھلنے پھولنے کے خواب،زراعت کی خوشحالی کے خواب،لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے خواب اور بجلی، پانی،گیس اورسستے آٹے کے دستیاب ہونے کے خواب۔۔۔۔۔خواب۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔بس خواب ۔

ہمارے ہر آنے والے حکمران نے اِن خوابوں کو اپنی حکومت کا مرکزی نقطہ قرار دیا،ہر سیاسی جماعت نے اِن خوابوں کو اپنی الیکشن مہم کا منشور بناکر عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا،مگر برسراقتدار آنے کے بعد وہ سارے وعدے بھول گئے،یوں آج تک یہ خواب اپنی عملی تعبیر سے محروم رہے،حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اِسے صرف ایوان اقتدار تک پہنچنے ذریعہ بنایا،اب جبکہ الیکشن قریب ہیں حکمران اور سیاسی جماعتیں ایک بار پھراِن خوابوں کو بڑھاوا دے رہی ہیں،نئی امیدیں،نئے سپنوں کی جوت جگارہی ہیں،چاہتی ہیں کہ عوام ایک بار پھر اُن پر اعتماد کرکے انہیں ایوان اقتدار تک پہنچائیں،چنانچہ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں،روز نت نئے نعرے وجود میں آرہے ہیں،کوئی سیاست نہیں ریاست بچانے کی بات کررہا ہے،تو کوئی کرپٹ اور بدعنوان سیاستدانوں کو ایوان اقتدار سے اٹھاکر باہر پھینکنے جارہا ہے،دعووں اور وعدوں کو جمعہ بازار لگا ہوا ہے،بس کسی نہ کسی طرح عوام کی ہمدردی حاصل ہوجائے اور کام بن جائے،دوسری طرف اپنی آئینی مدت پوری کرتی حکمران جماعت بھی یہی خواہش ہے کہ اُسے ایک موقع اور دیا جائے،صدر صاحب پر اُمید ہیں کہ آئندہ بھی برسر اقتدار آکر عوام کی ترقی اور ملک کی خدمت کا سفر جاری رکھیں گے ۔

مگرموجودہ حکمرانوں کے پورے عرصہ اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو اُس کے کھاتے میں عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق ایسا کوئی کریڈٹ نظر نہیں آتاجس کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں اُس کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی راہ_ ہموار ہو سکتی ہو،حکمران جماعت نے عوام کے مسائل کے حل کے معاملہ میں صرف بے نیازی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا بلکہ اپنی من مانیوں،اللے تللوں،اقربا پروری،میرٹ کے قتل عام،کرپشن کلچر کے فروغ، آئین و قانون سے سرکشی اور اپنی بیڈ گورنس سے عوام کو منتخب جمہوری نظام سے بھی متنفر کردیا ہے،دوسری طرف عوام کا حال یہ ہے کہ ایک عام آدمی کیلئے دو وقت کی آبرو مندانہ روٹی کا حصول بھی مشکل تر ہو گیا ہے،اشیائے خورونوش کے نرخوں میں اضافے کے روز افزوں رجحان کے باعث عام شہری کیلئے زندگی جبر مسلسل بن چکی ہے،امن وسکون،راحت وآسودگی کے سارے خواب بکھر چکے ہیں اور ساری خوش گمانیاں کافور ہوچکی ہے ،آج حال یہ ہے آٹا جیسی بنیادی ضرورت کی چیز بھی 5 سے 8 روپے اضافے کے ساتھ 38 سے 40 روپئے کلو بک رہی ہے،روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کیلئے آٹا خریدنا بھی مشکل تر بنا دیا ہے،عوام صرف بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے ہی نہیں گزر رہے بلکہ جان لیوا مہنگائی سے مرتب ہونیوالے منفی اثرات بھی بھگت رہے ہیں،جبکہ توانائی کے بحران سے کارخانے اور فیکٹریاں بند ہونے سے بے روزگاری کا سیلاب امڈ آیا ہے،دوسری طرف ملک میں موجود بدامنی کی وجہ سے جان و مال کا تحفظ شہریوں کیلئے پہلے ہی پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ساز گار جمہوری فضا کے باوجود ارباب اقتدار نے عوام کے روزمرہ مسائل کے حل کی جانب کوئی توجہ نہیں دی،اگر اِس منظر نامے کو سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ریاست نہ تو شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی آئینی ذمہ داری پوری کرسکی،نہ ہی وہ عوام کو جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دے سکی،یوں لگتا ہے کہ حکمرانوں نے عوام کو ہاتھ پاؤں باندھ کر زورآور استحصالی طبقات کے آگے پھینک دیا گیا ہے،جبکہ مہذب معاشروں میں ارباب اقتدار کی اوّلین ترجیح عوام کی زندگی کو مطمئن اور آسودہ بنانا ہوتی ہے،مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے،ارباب اقتدار کو اِس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کس حال میں ہیں،اُن پر کیا بیت رہی ہے،انہیں تو بس اپنی عیش وعشرت کی پڑی ہے،اِس سے زیادہ لاپروائی،بے حسی اور سنگدلی اور کیا ہوگی کہ عوام بھوک،غربت،مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب میں مبتلا ہیں، مگر وزیر اعظم صاحب جن کا عرصہ اقتدار 15 مارچ کو ختم ہورہا ہے کیلئے پرتعیش بلٹ پروف گاڑیاں( اسپورٹس یوٹیلٹی وہیکل ،ایس یو وی) خریدی جا رہی ہیں جن کی قیمت صرف سوا دس کروڑ ہے،حیرت ہے جس ملک کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہو،جہاں کے عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں،اُن کے چولہے بجھ رہے ہوں،بے روزگاری اور تنگدستی انہیں خودکشی پر مجبور کررہی ہو،اُس ملک کے حکمران کروڑوں روپئے کی گاڑیاں خریدتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہے،ظاہر ہے جب ارباب اقتدار کے اِس قسم کے معاملات ہونگے تو باہر سے آئے ہوئے مداریوں کو اپنی دکان چمکانے اورمجمع لگانے کا موقع توملے گا ۔

ارباب اقتدار کی انہی شاہ خرچیوں اور عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پاکستان اکانومی واچ نے انتباہ کیا ہے کہ اگر موجودہ حکمران پھر جیت کر آگئے تو ملک میں توانائی نام کی کوئی چیز نہیں رہے گی، عوام کو سفر کیلئے صرف سائیکل میسر ہوگی اور بار برداری کے لیے گدھا گاڑیوں سے کام لیا جائے گا،اکانومی واچ کے مطابق ہڈیوں کے ڈاکٹرجیسے مشیروں کی موجودگی پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیل دے گی اور تمام شہر آثار قدیمہ کا منظر پیش کریں گے،اگرخدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر یہاں قانون کی حکمرانی کا نہیں،ظلم وجبر اور وحشت و بربریت کا راج ہوگا،پاکستان اکانومی واچ کا یہ تجزیہ ایسا نوشتہ دیوار ہے جو عوام کی آنکھیں کھولنے اور انہیں خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں سے باہر نکالنے کیلئے کافی ہے،اَمر واقعہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں آنے والی ہر حکومت نے عوام کو صرف خواب ہی دکھائے،خوابوں سے ہی انہیں بہلایا اور پھر خواب ہی خواب میں خود قصہ پارینہ ہوگئے،مگر عوام کے مسائل جوں کے توں ہی رہے،آج پھر سیاسی بازی گری عروج پر ہے،جھوٹے خوابوں کے سوداگر اپنی سیاسی پٹاریوں سے عوام کو دھوکہ دینے کیلئے لایعنی دعووں اور وعدوں کے لولی پاپ نکل رہے ہیں،دیکھنا یہ ہے کہ عوام ایک بار وہی غلطی دہراتی ہے یا مزید دھوکہ نہ کھانے کا عہد کرکے اپنی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کرتی ہے ۔

اسیر وسوسہ کیوں ہو۔۔۔۔وطن کے روز و شب سے۔۔۔۔کس لیے بیزار ہوا تنے۔۔۔۔تمہاری آنکھ میں کیوں۔۔۔۔بے یقینی رقص کرتی ہے۔۔۔۔

رگوں میں آخرش۔۔۔۔کیوں خوف کا عالم ہے اِس درجہ۔۔۔۔ابھی تو اپنی مٹی میں۔۔۔۔نمو کا وصف زندہ ہے۔۔۔۔ابھی دریا میں پانی ہے۔۔۔۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357650 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More