جمعہ چودہ دسمبر کی صبح ساڑھے نو
بجے کا وقت ہے کنیکٹی کٹ کے قصبے نیوٹاؤن میں سینڈی ہک نامی ایلیمنٹری سکول
میں( پرائمری سکول) معمول کی چہل پہل ہے ابھی کلاسز شروع ہی ہوئی ہیں بچوں
اور استادوں کے کھلے ہوئےچہرے ایک نئی صبح کا آغاز لئے ہوئے ہیں کرسمس کی
آمد آمد ہے اکثر بچے اور استانیاں تفریحا لال سفید پھندنے والی ٹوپی اور
شرٹ پہنی ہوئی ہیں ہر طر ف ایک خوشی و انبساط کی کیفیت ہے آج ہفتے کا آخری
دن ہے اور ویک اینڈ کے لئے سب بیچینی سے منتظر ہیں- بچے اپنے روزمرہ کے کام
میں مصروف ہیں کہ اچانک ایک زور دارفائر نگ کی آواز سب کو چونکا دیتی ہے
اور پھر تھڑ تھڑ گولیاں چلنے کی اورچیخ پکار کی آوازیں ،27 سالہ استانی
وکٹوریا سوٹو اپنی کلاس کے بچوں کو جلدی جلدی الماریوں اور غسل خانے میں
بند کرنے لگتی ہے اسکے پاس بچوں کو بچانے کا یہی ایک راستہ ہے وہ انہیں بند
کرکے آگے ہوئی ہی ہےکہ اتنے میں خونخوار 20 سالہ آدم لینزا اسے اپنی گولیوں
کا نشانہ بناتا ہے جس قاتلانہ رائفل کا وہ استعمال کرتا ہے اسکی ایک گولی
ہی انسان کو ڈھیر کرنے کیلئے کافی ہے- اسنے ابتدا اپنی ماں نینسی لینزا سے
کی تھی اسکی لاش بعد میں اسکے گھر سے ملی- ماں کو مارکر وہ سینڈی ہک اسکول
پوری طرح مسلح ہوکر پہنچا وہ اس اسکول میں چار سال تک طالبعلم بھی رہ چکا
تھا- اب اسے اپنی ماں سے کیا کدورت اور بغض تھا اسکے سارے شواہد اسنے اپنے
اس ناپاک مشن پر آنے سے پہلے قلع قمع کردئے اپنے کمپیوٹر کو اسنے ٹکڑے ٹکڑے
کر ڈالا تاکہ بعد میں تحقیقاتی ادارے ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں اور تعین کرتے
رہیں کہ ایسا کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ اس دوران کچھ لوگ 911 کو فون کر چکے
ہیں 20 بچوں اور 6 اساتذہ کی جان لینے کے بعد آدم نے اپنی جان بھی لے لی-
911 والے آئے تو دیر ہو چکی تھی کچھ زخمی تھے -مرنے والے 20 بچوں کی عمریں
5سے 10 سال کے درمیان تھیں " حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے"
اس المئے پر پورے امریکہ میں اور تمام دنیا میں ایک کہرام مچ گیا -ایک ہفتہ
گزر چکا ہے آج پنسلوانیا میں تین لوگوں کی جان لیکر قاتل نے اپنے آپ کو مار
دیا - اس واردات اور خود کش دھماکوں میں کوئی فرق نہیں ہےمحض یہ کہ وہ اپنے
جسموں پر بم -باندھتے --ہیں اور یہ اسالٹ رائفل لے کر نکلتے ہیں اور پھر
اپنی جان لے لیتے ہیں -
ہم تو امریکہ میں اس طرح کی ہر واردات ہونے کے بعد سب سے پہلے اللہ کا یہ
شکر ادا کرتے ہیں کہ اس برے فعل کا کرنے والا کوئی مسلمان ہر گز نہیں ہے
ورنہ پوری مسلم کمیونٹی اس جرم کی لپیٹ میں آجاتی، جبکہ دوسری صورت میں یہ
ایک انفرادی فعل قرار دیتا ہے- لیکن اس غم میں اس دکھ میں پوری طرح شریک
ہیں اسلئے کہ ہم اب اسی ملک کے باشندے ہیں اور ہمارے بچے بھی یہاں کے درس
گاہوں کا حصہ ہیں-
دہشت گردی اور قتل عام دنیا میں کہیں بھی ہو ایک انتہائی ناپسندیدہ فعل
ہےاللہ تعالی نے انسانی جان کو ایک مقدس ا مانت کہا ہے قرآن میں آللہ تعالی
کا ارشاد ہے" اور جو ایک انسان کی جان بچاتا ہے وہ پوری انسانیت کی جان
بچاتاہے"امریکہ کی محفوظدرسگاہیں اتنی غیر محفوظ کیوں ہیں یہ ایک کافی اہم
سوال ہے- آدم لینزا اور اسکے خاندان کے بارے میں آئے دن تفصیلات آرہی ہیں
اسکے ماں باپ میں طلاق ہوچکی تھی اور باپ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ رہتا ہے -
اسنے ایک سال سے اپنے باپ سے ملنا چھوڑ دیا تھا اسنے باہر نکلنا اور دوستوں
سے ملنا جلنا بھی چھوڑ دیا تھا - اسکی ماں نینسی کو بندوقیں خریدنے کا کافی
شوق تھا اسکے پاس 6 بندوقیں تھیں وہ اپنے بچوں کو لیکر اکثر نشانہ بازی کی
مشق کرتی تھی اور یہ امریکہ میں کوئی انہونی بات نہیں ہے - نشانی بازی کے
شائقین کے لئے ڈرائونگ رینج بنے ہوئے ہین اور دیگر کلبوں کی طرح اس کے ممبر
یہاں نشانہ بازی کا شوق پورا کرتے ہیں- آدم لینزا کے نفسیاتی عوارض اور
شواہد کو کنگالا جارہاہے-شائد آئندہ کے لئے کوئی سدباب ہو جائے؟امریکی عوام
بچے بوڑھے ان مقتولین کی یاد میں سینڈی ہک اسکول کو پھولوں ، موم بتیوں،
کھلونوں اور کارڈوں سے لاد دیا ہے- یہاں پر ڈاک کے ذریعے اس قدر تحائف آرہے
ہیں کہ اضافی انتظامات کر دئے گئے ہیں-- اس قصبے کے علاوہ پورے امریکہ بلکہ
دیگر ممالک حتی کہ پاکستان کے کئی اسکولوں نے بھی اس دکھ کو منایا- جبکہ
پاکستان کے اپنے دکھ اس سے سو گنا ہیں -
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسطرح کے حادثات اور اقدامات کو کیسے روکا
جائے-
امریکہ کے اسکولوں میں ہلاکتوں کا یہ قصہ 1999 سے شروع ہوا جب سے کولوراڈو
کے کولمبائن ھائی اسکول میں ہلاکتیں ہوئیں اسکے بعد سے مختلف اسکولوں میں
258 طلباء ، استاد اور دیگر لوگ مارے گئے ہیں 212 زخمی ہوئے ہیں اور یہ سب
-بندوقوں کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں-
اسوقت امریکہ کی تمام میڈیا ، کانگریس اور سینیٹ میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے
کہ بندوقوں کو کیسے قابو میں کیا جائے؟ - مظاہرے ہو رہے ہیں، کہ بندوقوں کی
کھلی فروخت پر پابندی لگاؤ- نیشنل رائفل ایسوسی ایشن جو این آر اے کے نام
سے مشہور ہے وہ ان تمام الزامات کی تردید کرتی ہے - ظاہر ہے اسلحے اور
ہتھیاروں کی خرید وفروخت مییں یہاں کی موثر لابی کا عمل دخل ہے-امریکہ میں
ھتھیاروں کی خرید فروخت ایک بڑا پسندیدہ مشغلہ ہے - بہت سے پاکستانی اور
ہمارے پٹھان اسلحہ کے شائقین بھی یہاں کا اسلحہ ضرور خرید کر لے جاتے ہیں
اگر چہ ہمارے جیسوں کے پاس باورچی خانہ کے چاقو چھری کے علاوہ کوئی ہتھیار
نہیں ہوتآ، کینیڈا میں چونکہ ہتھیاروں پر پابندی ہے تو وہان پر امریکہ سے
ہتھیار سمگل کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ اسکے لئے کافی چوکس رہتے ہیں لیکن
ہتھیار مجرموں کے پاس پھر بھی کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتے ہیں- جسکے لئے وہ
ہمیشہ امریکہ کو مورد الزام ٹہراتے ہیں لیکن امریکہ کے کان پر جوں نہیں
رینگتی-
این آر اے کا اصرار ہے کہ اسکولوں میں مسلح گارڈ کھڑے کئے جائیں تاکہ وہ
ایسے حملہ آوروں کا مقابلہ کرسکیں کیونکہ بقول انکے، حملہ آور جانتے ہیں کہ
اسکولوں میں مدافعت کے لئے کوئی اسلحہ نہیں ہے اسی وجہ سے انکے لئے یہ ایک
آسان نشانہ ہیں- اسطرح مزید بندوقوں کی فروخت ہوگی اور - کاروبار کو مذید
تقویت ملے گی- این آر اے کے مطابق لابی کو پر تشدد فلموں اور ویڈیو گیمز پر
پابندی لگانی چاہئے جبکہ اسکا کاروبار چلانے والے اپنی توضیحات اور ترجیحات
سامنے لے آیئنگے - در حقیقت یہ سب عوامل یقینا ذمہ دار ہیں لیکن سب سے بڑھ
کر ہتھیار ہیں جسکی موجودگی اور استعمال سے انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے
-
کرا چی شہر میں جب تک بچے بچے کے پاس ٹی ٹی اور کلاشنکوف نہیں آیا تھا اس
شہر میں کافی حد تک چین ہی چین تھا -
این آر اے کے وائس پریزیڈنٹ کا یہ جملہ دائیں بازو کے چینلوں سے بار بار
سنایا جاتا ہے کہ ایک برے آدمی کے حملے کو روکنے کیلئے ایک اچھے آدمی کو
بندوق کی سخت ضرورت ہے -اب اس برے آدمی کا تعین کیسے ہوگا ؟یہاں تو یہ حال
ہے کہ سڑک پر کسی نے غلطی کرنے پر ہارن بجا دیا تو دوسرے نے جھٹ سے پستول
نکالا اور اسے گولی ماردی - ایک گولفر کی گیند شیشہ توڑتی ہوئی ایک گھر کے
اندر آئی اور گھر والے نے گولفر کو گولی مار کر خاتمہ کر دیا ڈرائو وے پر
جھگڑا ہوا اور بندوق نکال کر گولی ماردی- اس طرح کےواقعات تو بہت عام ہیں -
کافی اسکولوں نے جنکی عمومی تعداد ہ ہے23300 اپنے طور پر اپنے مسلح گارڈ
پہلے سے کھڑے کئے ہیں اجکل اکثر فوجی جو چٹھیوں پر ہیں ، وردی پہن کر
اسکولوں پر پہرہ دے رہے ہیں- امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق لاکھوں اسلحہ
بیچنے کے سٹور ہیں اور لوگوں کے پاس اسی طرح لاکھوں کروڑوں کے حساب سے
ہتھیار ہیں -
ڈیمو کیٹ پارٹی ہتھیاروں یا بندوقوں پر پابندی لگانے کے حق میں ہے اوبامہ
خود اس کے بارے میں کوئی سنجیدہ قدم اٹھانا چاہتا ہے اس حادثے کے بعد اظہار
خیال کرتے ہوئے اوبامہ بار بار اپنے آنسو پونچھتے رہے- وہ بندوقوں پر
پابندی کے بل پر دستخط کرنیکو بالکل تیار ہے لیکں اسکے ھاتھ اتنی مضبوظ
لابی کے سامنے بندھے ہوئے ہیں بلکہ بے بس ہیں--
کیلیفورنیا سے سینیٹر ڈیان فائنسٹائن اورسینیٹر باربرا بوکسر کہتی ہیں کہ
یہ تشدد اس صورت میں رک سکتا ہے کہ اسلحے پر پابندی لگائی جائے-معصوموں کا
یہ قتل عام بند ہونا چاہئے ہم ہر وہ حملہ جو ہم کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے
نہیں روک سکتے لیکن ہم کچھ ایسے دانشمندانہ اقدام اٹھا سکتےہیں جنسے ہمارا
بچاؤ ہوسکے-
اب تو یہ خبریں آرہی ہیں کہ مختلف صنعت کار بچوں کے لئے بلٹ پروف بستے ،
جیکٹیں اور کپڑے بنارہے ہی جنکو پہن کر بچے اسکول جایا کرینگے تاکہ وہ
گولیوں سے محفوظ رہیں"
اب جو بھی اپکا حسن کرشمہ سازکرے ؟
عنقریب بچوں کے کپڑے بیچنے والے معروف سٹور ز کارٹرز، اوش کوشبگوش، جمبوری
، والمار ٹ اور سئیرز میں گولیوں سے بچاؤ کے لباس تیار ہونگے اور بچے بکتر
بند ہوکر اسکول جایا کرینگے- لیکں این آر آئے اپنی من مانی ضرور کریگا اور
-اس سے اندازہ ہوگا کہ صدر اوباما میں کتنا دم خم ہے- |