اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ دنیا کا سب سے
مشکل کام کیا ہے؟ تو میرا جواب ہوگا “ وزن کم کرنا “- وزن کم کرنے والا شخص
جن کٹھن مراحل سے گزرتا ہے اس کا اندازہ صرف اسی شریف آدمی کو ہوسکتا ہے جس
کے سر پر خود فٹنس اور ڈائٹنگ کا بھوت سوار ہو٬ اسی دلیل کی بنیاد پر آج کل
آپ مجھے بھی شریف آدمی کہہ سکتے ہیں- آج سے تین ہفتے قبل جب میں نے اپنا
وزن کم کرنے کا فیصلہ کیا ( اور یہ فیصلہ سال میں متعدد بار کرتا ہوں ) تو
سب سے پہلے میں نے وہی کام کیا جو اس مرض میں مبتلا اکثر خواتین و حضرات
کرتے ہیں یعنی فوری طور پر بازار سے ایک عدد جوگنگ مشین خرید کر لے آیا-
شروع کے تین دن باقاعدہ اس پر جوگنگ کی اور یہ دیکھ کر خوش ہوتا رہا کہ 45
منٹ کی جوگنگ سے کتنی کیلوریز برن ہوتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ 45 منٹ 30 منٹ
میں تبدیل ہوئے جو بعد میں صرف 15 منٹ رہ گئے- آج کل اس جوگنگ مشین پر گھر
کے کپڑے سکھائے جاتے ہیں-
مجھے فٹنس کی ترغیب دینے میں میرے ایک دوست کا بھی کافی عمل دخل ہے٬ اس کی
جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ اس نے چھ ماہ میں پچاس
پاؤنڈ وزن کم کیا تھا- آج کل اس کا وزن مبلغ دو سو ساٹھ پاؤنڈ ہے: میری
ڈائٹنگ کے اس مرحلہ وار پروگرام میں میرے دوست نے خصوصی طور پر Counselling
کی جس کی وجہ سے میں اسے اپنا “ کونسلر “ کہتا ہوں- میں اپنا ناشتہ٬ کھانا٬
شام کی چائے اور رات کا کھانا غرض سب کچھ کونسلر سے پوچھ کر کھاتا ہوں-
کونسلر کی جانب سے جس مینو کی مجھے اجازت دی گئی ہے٬ وہ کچھ یوں ہے:
ناشتے میں دو براؤن بریڈ کے سلائس٬ “ سکمز “ دودھ کی بغیر چینی کی چائے اور
اگر بہت دل چاہے تو بغیر زردی کا آملیٹ ( جسے کھانا کسی جہاد سے کم نہیں )٬
ناشتے کے دو گھنٹے بعد کوئی ایک فروٹ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ مزید نہ ہو٬
یعنی آم٬ انگور٬ اسٹرابریز کے بجائے بیر٬ پپیتا٬ ناشپاتی وغیرہ کھائی جائے-
دوپہر کے کھانے میں ابلی ہوئی دال٬ جو مونگ یا مسور کی ہوسکتی ہے لیکن چنے
کی نہیں اور ساتھ میں آدھی چپاتی البتہ حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر
مولیوں٬ گاجروں اور کھیروں پر مشتمل سلاد جتنا مرضی کھائیں شام کی چائے (جس
کی تعریف اوپر بیان کر دی گئی ہے) کے ساتھ ایک عدد شامی کباب جو آئل میں
تلا نہ ہو- رات کو 125 گرام ابلا ہوا چکن اور اگر بہت دل کرے تو ساتھ میں
تھوڑے سے ابلے ہوئے چاول٬ اﷲ اﷲ چیر سلہ- کونسلر صاحب کا یہ بھی کہنا تھا
کہ اس ڈائٹ پلان کا مکمل فائدہ تب ہی ہوگا اگر اس کے ساتھ روزانہ دو مرتبہ
45 منٹ “ برسک واک “ کی جائے٬ تیل میں بنی ہوئی چیزوں سے مکمل پرہیز کیا
جائے اور بیکری کی چیزوں کی طرف دیکھنے کو بھی گناہ کبیرہ سمجھا جائے- وزن
کم کرنے کی کوشش میں ظاہر ہے کہ بھوک زیادہ لگتی ہے اور خوامخوہ کچھ کھانے
کو دل کرتا ہے- ڈائٹنگ کرنے والا شخص اگر بالکل فارغ ہو تو یونہی فریج کھول
کر کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ سوچ کر ایک آدھ کولڈ ڈرنگ پی جاتا ہے کہ اس سے
کیا فرق پڑتا ہے؟ نہ جانے کیوں تمام شادیاں٬ دعوتیں٬ سالگرہ کی تقریبات
انہی دنوں میں ہوتی ہیں جن دنوں آپ اپنا وزن گھٹانے کی فکر میں ہوتے ہیں-
البتہ ڈائٹنگ کرنے والے شخص کا سینہ اس وقت ضرور چوڑا ہو جاتا ہے جب کسی
دعوت وغیرہ کے موقع پر وہ یہ کہے کہ “ سوری: میں یہ سب نہیں لے سکتا کیونکہ
اس میں کیلوریز زیادہ ہیں٬ آپ ایسا کریں کہ مجھے سیلیڈ پاس کر دیں اور آدھی
چپاتی دے دیں- اس ریمارک کے بعد آپ نوٹ کیجیے کہ لوگ آپ کو کیسی تحسین بھری
نگاہوں سے دیکھتے ہیں- ایسے موقعوں پر عموماً تین طرح کے ردعمل سامنے آتے
ہیں اول یہ کہ “ چھوڑو یار٬ کھاؤ پیو عیش کرو مجھے دیکھو٬ سب کچھ کھا رہا
ہوں اور بالکل فٹ فاٹ ہوں“- دوسرا ردعمل عموماً خواتین کی طرف سے سامنے آتا
ہے اوئی اﷲ جی آپ تو واقعی بہت کم لگ رہے ہیں٬ (اپنی پلیٹ میں آدھ پاؤ کیک
ڈالتے ہوئے) پلیز ہمیں بھی بتائیں نا کیسے وزن کم کیا آپ نے؟“ اور تیسرا
ردعمل کچھ اس قسم کا ہوتا ہے “ یار یہ ڈائٹنگ وغیرہ میں نے بھی کر کے دیکھی
ہے٬ اس کا کوئی فائدہ نہیں الٹا چہرے کی رونق ختم ہوجاتی ہے٬ اس سے تو بہتر
ہے تم دیسی گھی کا استعمال شروع کرو اور پھر اسے ہضم کرنے کے لیے روزانہ دو
سو ڈنڈ بیٹھکیں لگاؤ“- اس قسم کے ردعمل کے بعد میرا دل کرتا ہے کہ ایسے شخص
کے اوپر قورمے کی پلیٹ انڈیل دوں- ڈائٹنگ کرنے والا شخص ہر وقت کھانا کھانے
کے مختلف بہانے تلاش کرتا رہتا ہے٬ مثلاً اب مجھے کالم لکھتے ہوئے تقریباً
دو گھنٹے ہوگئے ہیں اس لیے میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے کچھ کھا لینا چاہیے
ورنہ یہ کالم مکمل نہیں ہو پائے گا اور اگر مکمل ہوگیا تو اچھا نہیں لکھا
جائے گا اور بالفرض محال اگر کسی طرح اچھا لکھا گیا تو پھر اسی خوشی میں
مجھے کچھ کھا لینا چاہیے-
مختلف قسم کی نئی نئی تحقیقات بھی آپ کے “ فٹنس پروگرام “ کو متاثر کرتی
رہتی ہے- کسی ریسرچ میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پانی پینے سے وزن کم ہوتا
ہے اور کسی میں یہ بتایا جاتا ہے کہ دن میں پانچ مرتبہ کھانے سے وزن گھٹتا
ہے- حال ہی میں ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے جس کے مطابق کاربوہائڈریٹ غذا
پر مبنی بھاری بھرکم ناشتہ وزن کم کرنے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے- تحقیق سے
معلوم ہوا ہے کہ وہ خواتین جو سارے دن کی کیلوریز کا نصف صبح کے وقت ناشتے
میں استعمال کرلیتی ہیں٬ انہیں ایسی خواتین کے مقابلے پر وزن گھٹانے میں
زیادہ کامیابی ملتی ہے جو ہلکا ناشتہ کرتی ہیں٬ مزید یہ کہ ان کا وزن
دوبارہ آسانی سے نہیں بڑھتا- تحقیق کے مطابق جب آپ صبح بہت ہلکا ناشتہ کرتے
ہیں تو دن بھر آپ کے نشاستے کی طلب برقرار رہتی ہے جس کی وجہ سے آپ دن بھر
کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں اور اس سے میٹابولزم بھی سست پڑ جاتا ہے- خیال
کیا جارہا ہے کہ نشاستے اور پروٹین پر مبنی ناشتے سے دن میں میٹھی چیزیں
کھانے کو دل نہیں کرتا اور ساتھ ہی ساتھ انسان کا میٹابولزم تیز تر ہوجاتا
ہے- واضح رہے کہ یہ تحقیق وینزویلا میں کی گئی ہے پاکستان میں نہیں ورنہ
نتائج یقیناً مختلف نکلتے- ہمارے یہاں کی خواتین تحقیق کے پہلے حصے پر تو
دل کھول کے عمل کرتیں یعنی “ ٹکا “ کے ناشتہ کرتیں اور باقی کا دن بھی یہ
یہ سوچ کر کھا پی کر گزارتیں کہ ان کا میٹابولزم تیز ہو رہا ہے- آپ نے اکثر
نوٹ کیا ہوگا کہ بعض لوگ دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھاتے اور ویسے بھی ان کی
خوراک کچھ خاص نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود وہ اچھے خاصے موٹے ہوتے ہیں
کیونکہ وہ چائے کے ساتھ بسکٹ بہت کھاتے ہیں- ایسے لوگ دوپہر کا کھانا تو
چھوڑ دیتے ہیں لیکن شام کی چائے کے ساتھ آٹھ دس بسکٹ آرام سے نگل لیتے ہیں-
واضح رہے کہ ایک عام بسکٹ میں اوسطاً 200 کیلوریز ہوتی ہے یعنی دو بسکٹ
کھانے سے بہتر ہے آپ ایک دیسی گھی کا پراٹھا کھا لیں٬ مزا بھی آئے گا اور
ایمان بھی تازہ ہوجائے گا- آج کل یوں بھی ہماری قوم کو اپنا ایمان تازہ
کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جس تیزی سے “ طالبان کا اسلام “ پھیل رہا ہے
وہ دن دور نہیں جب اسلام کے نام پر دوپہر کے کھانے پر بھی پابندی لگ جائے
گی-
|