نوجوان نے سگریٹ سلگایا اور
فضا میں اس کے دھوئیں کے مرغولے چھوڑتا ہوا میرے ساتھ واک کرنے لگا- پیرس
میں میری اس سے ملاقات صرف تین گھنٹے قبل ہوئی تھی اور ان تین گھنٹوں میں
اس نے مجھے کھڑے کھڑے صرف ان پاکستانیوں کے قصے سنائے تھے٬ جو اپنا مستقبل
بنانے کے لیے یورپ آنا چاہتے تھے- اس نے سگریٹ کا کش لگایا اور مجھے ایسا
ہی ایک اور واقعہ سنانے لگا “ یہ غالباً دو سال پہلے کی بات ہے٬ 22
پاکستانیوں کا ایک گروپ کسی ایجنٹ کے ذریعے سمندر کے راستے ایک اسٹیمر میں
ترکی سے اٹلی کے لیے روانہ ہوا- جب انہیں سفر کرتے ہوئے بارہ گھنٹے گزر گئے
اور زمین کا کنارہ نظر نہیں آیا تو ان کی حالت غیر ہونا شروع ہوگئی٬ اسی
دوران رات ہوگئی اور کھلے سمندر میں ان کا اسٹیمر اچانک خراب ہوگیا- پھر
کیا تھا----- ان میں سے کچھ نے تو موت کو سامنے دیکھ کر باقاعدہ رونا شروع
کردیا٬ جبکہ باقی لوگوں نے اپنے آپ کو سنبھالے رکھنے کی کوشش کی٬ لیکن ان
کی ہمت اس وقت جواب دے گئی جب اسٹیمر میں پانی بھرنا شروع ہوگیا- ان 22
لوگوں کے علاوہ اسٹیمر پر صرف اس کا ڈرائیور تھا اور اسے بھی کچھ پتا نہیں
تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے- تھوڑی دیر تک تو وہ سب مل کر ہتھیلیوں سے پانی
اٹھا اٹھا کر باہر پھینکتے رہے٬ لیکن پھر انہیں اندازہ ہوگیا کہ اس ترکیب
سے وہ شاید موت کو کچھ دیر کے لیے تو ٹال لیں٬ لیکن بالآخر انہیں مرنا ہی
ہے- قریب تھا کہ وہ سب کے سب خوف سے ہی مر جاتے کہ اچانک انہیں فضا میں
ہیلی کاپٹر کی چنگھاڑ سنائی دی- یہ اطالوی سرحدی پولیس کا ایک ہیلی کاپٹر
تھا٬ جو سمندری حدود کی نگرانی کے لیے پرواز کر رہا تھا- تھوڑی دیر بعد اس
ہیلی کاپٹر سے اسٹیمر پر موجود لوگوں کے لیے ایک رسی کی سیڑھی پھینکی گئی٬
جس کے ذریعے دو دو آدمیوں کو باری باری بہ حفاظت اٹلی کی زمین پر اتار لیا
گیا“-
“ کمال ہے “ میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا “ ایسا لگتا ہے٬ جیسے آپ
نے کوئی فلمی سین سنایا ہو“-
نوجوان میری بات سن کر مسکرایا اور بولا “ جناب یہ تو سین کا ڈراؤنا پارٹ
تھا٬ اس کا دلچسپ حصہ تو ابھی باقی ہے“-
“واقعی؟“ میری حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا-
“ جی ---- کیونکہ اس کے بعد اطالوی پولیس ان سب کو پناہ گزینوں کے کیمپ
ٹائپ کسی جگہ لے گئی٬ جہاں انہیں تقریباً پندرہ دن رکھا اور پھر ایک جینز
کی پینٹ اور پچاس پچاس یورو دے کر یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ جدھر سینگ سمائے
نکل جاؤ“-
اس واقعے کی تمام تر سنجیدگی کے باوجود٬ جب میں نے اس کا اختتام سنا تو
اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکا- مجھے ہنستا دیکھ کر نوجوان نے بھی ہنسنا شروع
کردیا٬ لیکن پھر یک بہ یک رنجیدہ ہوتا ہوا بولا “ کہنے کو تو ہم سب لوگ اب
پیرس میں ہیں٬ لیکن ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو یہاں حقیقی معنوں
میں خوش ہو٬ نہ ہمیں یہاں ایفل ٹاور دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی شانزا لیزے-
ہمیں تو صرف یہ پتا ہے کہ آج کل کونسا ایسا فون کارڈ ہے جس سے پاکستان میں
120 منٹ تک بات ہوسکتی ہے“-
مجھے چونکہ ایفل ٹاور بھی نظر آرہا تھا اور شانزا لیزے بھی٬ اس لیے میں اب
مزید ایسی کہانیاں سننے کے موڈ میں نہیں تھا٬ چانچہ میں نے نوجوان سے اجازت
لی اور پیرس کا پیرا لگانے کے لیے نکل کھڑا ہوا٬ جہاں یہ میرا پہلا دن تھا-
ظاہر ہے کہ شروعات ایفل ٹاور سے کی- ایفل ٹاور کو بلاشبہ تعمیر کا ایک
شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے- دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بنانے والے٬ گوستو
ایفل٬ نے اس کے علاوہ بھی کئی اعلیٰ تعمیرات کیں٬ جن میں سب سے زیادہ مشہور
Statue Of Liberty ہے- ایفل ٹاور کی Renovation کی خاطر ہر سات سال بعد اس
پر پچاس سے ساٹھ ٹن پینٹ کیا جاتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پینٹ تین
مختلف شیڈز میں کیا جاتا ہے تاکہ دیکھنے والے کو پورے ٹاور کا ایک ہی رنگ
نظر آئے- ایفل ٹاور کے گرد سیاحوں کا ایک ہجوم تھا٬ جو لائن میں لگ کر اس
کا ٹکٹ لے کر اوپر جانا چاہتے تھے- میں نے بھی تقریباً ایک گھنٹہ لائن میں
لگ کر ٹکٹ لیا اور ٹاور کے اوپر پہنچا٬ جہاں سے پورے پیرس کا نظارہ کیا
جاسکتا تھا- ایفل ٹاور کے اندر مختلف کیفے بھی ہیں٬ جہاں سے آپ کافی وغیرہ
لے سکتے ہیں٬ لیکن اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ باہر سے دیکھنے والے کو قطعی
اندازہ نہیں ہو پاتا کہ ٹاور کے اندر کیفے کی تعمیر کے بعد کسی قسم کی کوئی
تبدیلی بھی آئی ہے-
ایفل ٹاور سے نکل کر میں دریائے سین کی طرف آ گیا٬ جو پیرس شہر کے بیچ سے
گزرتا ہے- دریائے سین اور ایفل ٹاور کے درمیان وہ مشہور زمانہ Tunnel بھی
ہے٬ جہاں لیڈی ڈیانا کی گاڑی کا حادثہ ہوا تھا- دریائے سین کی سیر کرنے کے
لیے آپ کو Cruise کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے٬ جو آپ کو ایک گھنٹے میں دریا میں ہی
پورے پیرس کا چکر لگوا دیتا ہے- دریائے سین کے ارد گرد بے شمار تاریخی
عمارات ہیں٬ جن کے بارے میں Cruise میں آپ کو ایک رننگ کمنٹری سنائی جاتی
ہے- مجھے اس وقت چونکہ شدید نیند آ رہی تھی٬ اس لیے میں Cruise میں ہی سو
گیا٬ جب میری آنکھ کھلی تو ہمارا سفر ختم ہو چکا تھا-
شام ہوچکی تھی٬ لیکن شانزا لیزے کی زیارت ابھی باقی تھی- یہ دنیا کی مشہور
ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے اور یہاں بھی ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے-
یہاں دنیا کی معروف ترین Branded Shops ہیں٬ جہاں لیموزین سے لے کر جوتوں
تک ہر چیز دستیاب ہے- تاہم٬ لیموزین کا شوروم دیکھ کر مجھے خاصی مایوسی
ہوئی کیونکہ اس شوروم کی اکثر گاڑیوں پر گرد جمی ہوئی تھی اور ایسا لگتا
تھا٬ جیسے کافی عرصے سے ان کے پاس کوئی سیریس قسم کا گاہک نہیں آیا تھا-
شانزا لیزے٬ ایفل ٹاور٬ چرچ آف ناٹرو ڈیم٬ دریائے سین٬ لے حال شاپنگ سینٹر
اور پیرس کے لا تعداد تاریخی محلات٬ فیشن اور ثقافت کا گڑھ ہونے کے ناتے
یہاں ہر سال ریکارڈ تقریباً تین کروڑ سیاح آتے ہیں- حیرت کی بات یہ ہے کہ
پیرس شہر کی آبادی فقط بارہ لاکھ ہے٬ جب کہ یہاں سیاحوں کی وجہ سے روزانہ
تقریباً چوالیس لاکھ لوگ میٹرو میں سفر کرتے ہیں٬ جو ماسکو کے بعد یورپ کی
مصروف ترین میٹرو ہے-
پیرس میں کالوں کی بھی کثیر تعداد ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کی پولیس
ان سے کچھ دبتی ہوئی نظر آتی ہے- کالے یہاں ویسی ہی حرکتیں کرتے ہیں٬ جیسی
وہ دنیا کے دیگر ملکوں میں کرتے ہیں٬ مثلاً بغیر ٹکٹ سفر کرنا٬ Branded Stores کے باہر جعلی مال بیچنا٬ راہ چلتے لوگوں سے “پنگے“ لینا وغیرہ وغیرہ-
تاہم٬ حیرت انگیز طور پر مجھے کم از کم پیرس میں کوئی کالا بھکاری نظر نہیں
آیا٬ البتہ گورے اور مکس نسل کے بھکاری بے شمار نظر آئے- کچھ کا تو مانگنے
کا انداز بھی کافی مزے کا تھا- مثلاً میٹرو میں سفر کرتے کرتے اچانک کوئی
صاحب اٹھتے اور اپنا ہارمونیم نما باجا نکال کر بجانا شروع کر دیتے٬ اس
اثنا میں ان کی ساتھی خاتون٬ جو اکثر اوقات اچھی خاصی شخصیت کی مالک ہوتی٬
اپنا رومال پھیلا کر فرداً فرداً ڈبے میں موجود ہر شخص سے فرانسیسی میں کچھ
کہہ کر خیرات مانگتی٬ جس کا غالباً اردو میں ترجمہ کچھ یوں ہوگا کہ “ جو دے
اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا “-
یوں تو پیرس میں جا بجا تاریخی مقامت ہیں٬ لیکن جس جگہ نے مجھے سب سے زیادہ
دلچسپی لینے پر مجبور کیا وہ بستی (Bastile) تھا٬ جہاں انقلاب کے وقت فرانس
کے بادشاہ لوئی XVI کو پھانسی دی گئی تھی- کہا جاتا ہے کہ جب بادشاہ کو
پھانسی دی گئی تو کئی لوگوں نے اس کے خون سے اپنے رومال سرخ کیے- یہ وہی
بادشاہ تھا جس کی ملکہ میری اینٹائینیٹ نے وہ جملہ کہا جو تاریخ کا حصہ بن
گیا کہ “ اگر لوگوں کو روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟ “
انقلاب کے وقت اس ملکہ کو بستی کے قریب ہی اسی بادشاہ کے محلات کے تہہ خانے
میں قید کر دیا گیا تھا اور بعد میں گلیٹائن کے ذریعے اس کا سر بھی تن سے
جدا کر دیا گیا تھا٬ تاہم فرانیسیسیوں نے اب اس جگہ سے انقلاب کی تقریباً
تمام نشانیاں ختم کردی ہیں اور بستی میں کوئی ایسی یادگار بھی نہیں جس سے
یہ پتہ چل سکے کہ یہاں بادشاہ کو پھانسی دی گئی تھی-
تین دن پیرس میں گزارنے کے بعد بھی مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے ابھی
فقط پیرس کا ٹریلر ہی دیکھا ہے اور پوری فلم دیکھنے کے لیے خاصا وقت چاہیے٬
لیکن اب میرے پاس وقت نہیں تھا٬ کیوں کہ مجھے واپس لاہور جانا تھا٬ وہی
لاہور جسے پیرس جانے کا دعویٰ ہم برسوں سے کرتے آ رہے ہیں- لاہور٬ پیرس تو
نہیں بن سکا٬ لیکن کیا کریں ------ اپنا گھر اگر گارے مٹی کا بھی ہو تو کسی
ایسے محل کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا جس میں سے باہر آنے کا کوئی دروازہ نہ
ہو- |