بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید
جس کے مسلمان ہونے پر بعض پاکستانی بغلیں بجا رہے تھے کہ شاید اب پاک بھارت
تعلقات میں حقیقی بہتری اور تنازعات کا عملی حل سامنے آ جائے مگر چور مچائے
شور کے مترادف پاک فوج پر حملہ آور بھارتی فوج کے واقعہ پر بھارتی بلیم گیم
وار گیم کا حصہ لگتی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے پوری ڈھٹائی کے
ساتھ الزام لگا دیا ہے کہ کنٹرول لائن پر کشیدگی کا ذمہ دار پاکستان ہے اور
کنٹرول لائن کے واقعہ پر پاکستان کو سخت پیغام دیدیا ہے۔ حالانکہ درہ حاجی
پیر سیکٹر میں پاکستانی چیک پوسٹ پر بھارتی فوج کا حملہ ایک افسوسناک واقعہ
ہے جس سے بڑھتے ہوئے پاک بھارت تعلقات کو دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ آئی ایس پی
آر کے مطابق بھارتی فوج نے کنٹرول لائن عبور کرکے پاکستانی چوکی پر فائرنگ
کی جس کے نتیجے میں ایک پاکستانی فوجی شہید اور ایک شدید زخمی ہوگیا۔
پاکستان نے اپنی حدود میں اس بلاجواز دراندازی پر بھارت سے شدید احتجاج
کیاہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ترجمان نے حملے کی تصدیق کی ہے تاہم الزام
لگایا ہے کہ پاک فوج نے اوڑی سیکٹر میں بھارتی چیک پوسٹوں پر گولے فائر کئے
تھے جس کے جواب میں یہ کارروائی کی گئی۔ جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن پر
2012ءمیں بھارتی فوج نے75سے زائد مرتبہ اپنی حدود سے تجاوز کیا اور پاکستان
کے زیرکنٹرول علاقے میں سول آبادی اور فوجی چیک پوسٹوں کو حملوں کا نشانہ
بنایا۔ اس کے نتیجے میں8افراد شہید ہوگئے۔ کنٹرول لائن کی چھوٹی موٹی خلاف
ورزیاں تو روزمرہ کا معمول ہیں جن کا کم ہی نوٹس لیا جاتا ہے۔ 6 جنوری
2013ءکو ہونے والا حملہ سنگین نوعیت کا ہے۔ بھارتی ترجمان کا یہ دعویٰ
تسلیم بھی کر لیا جائے کہ پہل پاک فوج کی طرف سے ہوئی تھی تو طے شدہ طریق
کار کے مطابق فلیگ میٹنگ میں معاملے کو نمٹا دیا جاتا مگر بھارتی فوج کے
طرز عمل نے کوئی اچھا پیغام نہیں پہنچایا۔ مبصرین کے یہ خدشے بے وزن نہیں
ہیں کہ ایٹمی طاقت کے حامل دو ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی بڑھ کر برصغیر میں
پائیدار امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرسکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان
کشیدگی اور کئی جنگوں کی بنیادی وجہ تنازع جموں و کشمیر ہے جو ابھی طے نہیں
ہوا ۔ پاکستان کے عوام اس مسئلے پر بہت حساس ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں
ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور اقوام متحدہ کی واضح قراردادوں
کے باوجود اس مسئلے کے پُرامن حل سے بھارت کا لیت و لعل پہلے ہی انہیں
رنجیدہ کئے ہوئے ہے لیکن انہیں امید ہے کہ عقل سلیم بالآخر نفرت اور عناد
کے منفی جذبوں پر غالب آئےگی ۔ پاکستان نے اس حوالے سے بہت اقدامات کئے ہیں
اور بہت کچھ کرنے کے لئے تیار ہے جس کا اعتراف بھارتی وزیر خارجہ سلمان
خورشید نے بھی نئی دہلی میں سیفما کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے انداز
میں کیا ہے۔ انہوں نے ویزا پالیسی میں نرمی سمیت گزشتہ سال پاک بھارت
تعلقات میں ہونے والی پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ دونوں ملکوں
میں مذاکرات کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر صحیح سمت میں جاری رہے گا تاہم انہوں
نے ممبئی میں دہشت گردی کے واقعے کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات پر عدم
اطمینان کا اظہار کیا اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے میں سست روی
کی شکایت کی، جہاں تک ممبئی حملوں کا تعلق ہے پاکستان نے بھارت سے بھرپور
تعاون کیا ہے پھر بھی اس پر بے بنیاد الزام تراشی کی جا رہی ہے جو اچھے
باہمی تعلقات کی روح کے منافی ہے۔ رہا بھارت کو پسندیدہ تجارتی ملک قرار
دینے کا سوال تو اس معاملے میں اصولی فیصلہ کیا جا چکا ہے تاہم تجارتی
برادری سمیت بعض حلقوںکے کچھ تحفظات بھی ہیں جنہیں بھارت نے دور کرنا ہے۔
بھارت کو بھی اسی جذبے سے پاکستانی اقدامات کا مثبت جواب دینا چاہئے۔ اس
سلسلے میں دوسرے معاملات کے علاوہ کشمیر پر بامقصد مذاکرات کرنا ہوں گے اور
کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں روکنا ہوں گی۔ |