آہ ۔ یا میرے اللہ رحم

حکومت نام کی کوئی چیز پاکستان میں ہے ہی نہیں کہ ہم عوام ستمگروں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال سکیں۔11جنوری، ایک ایسا قیامت خیز دن رہا ہے کہ جس نے زبانوں کو گنگ اور قلم کی روشنائی خشک کردی ہے ۔آہ ۔۔ !! کوئٹہ میں بے گناہ معصوم انسانی جانوں پر موت کا رقص ۔۔ آہ ، سوات میں تبلغی اجتماع میں فسطائےت کی بالادستی، آہ ۔۔کراچی میں روز گرتی لاشوں کے انبار۔۔اور ان سب پر افسوس کی بدتریں علامت کے بلوچستان میں وزرا ءسمیت نام نہاد عوامی نمائندوں کا ایک سیکنڈ کے لئے انسانیت سے عاری رویہ اور اپنی جان کا خوف ، کراچی میں مفاہمتی اتحادیوں کے سر جڑے ، لیکن عوام کے سروں کو اڑتے دیکھنے کی بھی زحمت ، ان کے ماتھے پر ہلکی سی شکن نمودار نہ کرسکی ہوگی۔پانچ سال جمہوریت کی بدترین ،مثال بن کر دنیا کے سامنے ہے ۔صرف2012ءمیں کراچی میں 2000سے زائد انسانیں جانیں حکومتی بے حسی کو ختم نہیں کرسکیں۔دکھ کا المیہ اب سیاست ، سے بڑھ فرقہ وارنہ تشدد میں داخل ہوتا جارہا ہے جس کی گونج نے سماعتوں کو گہنا دیا ہے۔کراچی تو لسانی ، سیاسی محاذ آرائیوں کی بنا ءپر انسانوں کا مذبح خانہ بن چکا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ بلوچستان میں دہشت گردی نے فرقہ وارانہ رجحان کی اضافوں نے سانسوں کی حرکتیں روک دیں ہیں ۔ پاکستان میں سلامتی کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فارپیس اسٹڈیز نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں 2012کے دوران پاکستان میں امن و مان کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا۔ادارے کے اعدادوشمار کےمطابق سال دو ہزار بارہ میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اٹھاون فیصد دیکھنے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔2012میںچار علاقوں کو فرقہ واریت کے حوالے سے حساس ترین قرار دیا گیا ہے۔گزشتہ برس کراچی میں ننانوے حملوں کےساتھ سر فہرست رہا جبکہ کوئٹہ میں فرقہ وارنہ نوعیت کے باون واقعات،گلگت بلتستان میں بائیس اور کرم ایجنسی میں فرقہ وارنہ تشدد کے نو واقعات رونما ہوئے۔کوئٹہ میں پانچ گھنٹوں میں 93سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 250سے زائدزخمی ہوئے۔سوات میں ایک تبلیغی مرکز میں دہماکے میں 22 افراد جاںبحق اور55زخمی ہوئے ۔29دسمبر2012میں کراچی کینٹ میں ہونےوالے دہماکے کی نوعیت کا تعین ہی نہیں ہوسکا ہے۔دوسری جانب یکایک بھارتی کیجانب سے کنٹرول آف لائن پر بنکر بنانے کے سنگین مسئلے پر بھارتی جارحیت اور بلا اشتعال فائرنگ اور پھر حسب روایت مسخ شدہ لاشوں کو اپنا فوجی قرار دیکر پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے پھر گولہ باری سے پاک فوج کو جانی نقصان پہنچایا گیا ،چین امریکہ اوراقوام متحدہ نے دونوں ممالک کو تحمل کی تلقین اور خطے میں امن کے لئے مثبت کردار ادا کرنے کو کہا ہے ، پاکستان کی اقوام متحدہ کی کو واقعات کی غیر جاندارانہ تحقیقات کی پیش کش کو بھارت کیجانب سے ایک بار پھرروایتی طور پر ٹھکرانا ، الٹا چور کوتوال کوڈانٹے کے مصداق ہے۔افغانستان کیجانب سے شمالی مغربی سرحدوں سے مسلسل پاکستانی سرحدوں اورعلاقوں میں در اندازیاں تسلسل سے جاری ہیں ۔ایک جانب پاکستان بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے لئے کوشاں ہے تو دوسری جانب بھارت ایسے ناکام بنانے میں مصروف عمل ہے ۔ ایک طرف پاکستان امن کے نام پاکستان کے امن تباہ کرنے والوں کو ، مفاہمت کے نام پر رہا کر رہے ہیں اور اپنے ہزاروں نوجوانوں کی قربانیوں کے باوجود ، صرف پاکستان میں امن کے خواہاں ہیں کہ افغانستان میں کسی نہ کسی ایسی حکومت قائم ہوجائے کہ پاکستان بیرونی جنگ سے نکل آئے۔بیرونی خطرات اژدھا بن کر ملکی سا لمیت اور بقا کو نگلنے کے لئے تیار بیٹھا ہے تو دوسری جانب اندرونی خطرات میں انتہا پسندی ،فرقہ پرستی ، لسانی جنگ وجدل نے حکومت کو ناکام رہاست ثابت کردیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اچانک وارد ہوئے تو ایک ایسا سیاسی بھونچال آچکا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے نام پر میڈیا ، بین الاقوامی ادارے ، نوکر شاہی اور عام عوام بھی اس سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔قادری ایجنڈے کو ایم کیوایم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔اس لئے ملکی سیاست میں بڑی ہلچل مچی ہوئی ہے۔اب میں ڈاکٹر طاہری القادری کا چاہیے کتنا مخالف کیوں نہ ہوں لیکن کبھی کھبار یہ بھی تو سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ جب کوئٹہ میں معصوم بے گناہ انسان تڑپ و سسک سسک کر جاں بحق ہو رہے ہوں تو میں ایسے سیاسی اور نام نہاد عوامی نمائندوں کی حمایت کیوں کروں کہ جنھیں انسانیت چھو کر پر نہیں گزری ۔اب اگر یہی لوگ پھر آنےوالے انتخابات میں منتخب ہو کر آتے ہیں تو ذرا سوچئے کہ ان بے حس لوگوں سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپ قائم ہیں اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی تو بھلا میں حکومتی رٹ کو کیا کہوں ۔کراچی میں صرف ایک سال میں ہزاروں لوگ بھینٹ چڑھا دئے جاتے ہوں اور صوبے کا منتظم سب ٹھیک ہے ،سب ٹھیک ہے کا راگ الاپتا رہے تو بھلا میں اس طرز حکومت کو کیا کہوں ۔ایک رکشے پر لکھا دیکھا کہ" بے غیرت سی این جی سے عزت کی ایل پی جی بہتر ہے ۔"تو میں کیا کہوں کہ 160روپے کلو گیس عوام کا بھرکس نکال رہی ہے ، صنعتیں بند ، بیرون ملک منتقل ہو رہی ہوں تو انھیں امن کی ضمانت کون دے ؟۔سرکاری نوکری کےلئے کوئی اہلیت نہیں بلکہ سیاسی پروری قابل قبول ہے ۔ لیکن جب ملک کی اعلٰی شخصیت اپنی اٹھارویں شوگر مل میں بھرتی کر رہی ہو تو ان کی سخت ہدایات ہے کہ ملازمتیں صرف اہل اور قابل افراد کو صرف اور صرف میرٹ پر دیں جائیں ۔ملک کے سیکورٹی اداروں میں، فوج ، ائیرفورس ، نیوی ، رینجرز ، ایف سی میں سب بھرتیاں میرٹ پر اور تربیت اعلی معیار کی ، لیکن جو ادارہ حقیقی معنوں میں عوام کا محافظ ہے وہاں تمام بھرتیاں ، تبدیلیاں ،صرف سفارش ، اقربا پروری اور رشوت کے تحت کیں جاتیں ہیں ۔ عوام ایک ماچیس بھی خریدے تو پہلے ٹیکس ادا کرے ۔ لیکن کروڑوں روپے خرچ اور معاف کرکے جانے والے جب اسمبلی جائیں تو ایک روپیہ بھی واپس ادا کرتے ہوئے موت آتی ہے۔عدلیہ میں انصاف کےلئے نچلی سطح پر رشوت وصولی کی اولیں صف پر آنےوالے ، سستا انصاف عوام کو فراہم کر ہی نہیں سکتے کیونکہ کسی غریب کے پاس لاکھوں روپے وکیل کو دینے کے لئے پیسے ہی نہیں تو کون سا انصاف ، کیسا انصاف۔وکیل بن کر جھوٹ بولنے والا ہی ملزم کو بےگناہ اور بے گناہ کو گناہ گار بنا دینے والے انصاف کی کرسی پر سچ کا منبع بن کر کیا تبدیلی پیداکرسکتا ہے۔پھر تبدیلی کیسے پیدا ہوگی ۔ کس پر یقین کریں ،کس پر یقین نہ کریں ۔ کیونکہ حمام میں تو عوام سمیت سب ننگے ہیں۔۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.