امن کا تماشا

پاکستان کو امن کی آشا کے نام پر بھارت کے قدموں میں ڈالنے کا تماشا عرصہ سے جاری ہے، ہمارا ایک بڑا میڈیا گروپ ان دنوں ’’دوردرشن‘‘ بنا ہوا ہے، لوگوں کو صبح وشام یہی بتایا جارہا ہے کہ پاکستان اور بھارت تو دو بچھڑے ہوئے بھائی ہیں، مذہبی لوگ ان دونوں بھائیوں کو بغل گیر نہیں ہونے دیتے، سمجھ دار لوگ کہتے ہیں بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے، اس کے ’’رام، رام‘‘ کرنے پر مت جاؤ، بغل میں جو چھری چھپا رکھی ہے اس پر بھی نظر رکھو، مگر بھیا! آج کل عقل کی بات پر کون کان دھرتا ہے، اسی لیے زمینی حقائق کی طرف توجہ دلانے والوں پر ’’امن دشمن‘‘ کا لیبل چسپاں کردیا گیا ہے۔

تین چار روز قبل امن کی آشا کی کوکھ سے جس تماشے نے جنم لیا ہے، اس سے بھارت کے عزائم ایک بار پھر عیاں ہوگئے ہیں، اتوار کے روز بھارتی فوجیوں نے کنٹرول لائن پارکرکے پاکستانی چوکی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں لانس نائیک اسلم شہید جبکہ متعدد اہلکار زخمی ہوگئے۔ پاک فوج کی جوابی کارروائی پر بھارتی فوجی اسلحہ پھینک کر فرار ہوگئے جسے قبضے میں لے لیا گیا، پاکستان نے دراندازی کے اس سنگین واقعہ پر شدید احتجاج کیا۔ بھارت نے اس پر کسی قسم کی معذرت اور تحقیقات کا وعدہ کرنے کی بجائے اگلے روز یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ پاکستان کے فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوکر اس کے ایک فوجی کا سرقلم اور دوسرے کو بھی موت کے گھاٹ اتاردیا ہے، بات صرف الزام تراشی تک محدود نہیں رہی بلکہ بھارتی قیادت حسب معمول گیدڑ بھبکیوں پر اتر آئی ہے، وزیر خارجہ کہتے ہیں 2 فوجیوں کے قتل کا مناسب جواب دیں گے، وزیردفاع نے بھی خوب انگارے اگلے ہیں، وہاں کی سیاسی جماعتیں بھی پاکستان کو سبق سکھانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ مبصرین نے سرحدی خلاف ورزی کے اس تازہ واقعہ پر بھارتی موقف کو ’’الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مترادف قراردیا ہے۔ پاکستانی حکومت اور فوج دوٹوک الفاظ میں بھارتی الزامات کو مسترد کرچکی ہے، بلکہ پاکستان نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے واقعہ کی اقوام متحدہ کے مبصرین سے تحقیقات کرانے کی بھی پیشکش کی ہے، مگر بھارت کوئی معقول بات کرنے کی بجائے دھمکی دیتا چلا آرہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے سنجیدہ حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ امن دونوں ملکوں کی ضرورت ہے، دونوں ملک بہت سے اندرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، اگر سرحدوں پر صورت حال پرسکون ہوجائے تو عوامی مسائل حل کرنے پر پوری توجہ دی جاسکے گی، امن سے ہی دونوں طرف ترقی کی راہیں کھلیں گی، سول سوسائٹی اور ’’امن کے داعی‘‘ پاکستان کی حکومت اورعوام کو لیکچر دیتے ہیں کہ بھارت پڑوسی ملک ہے اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہیے، یہ سو فی صد درست بات ہے کہ ہمیں پڑوسی کا خیال رکھنا اور پنگے بازی سے گریز کرنا چاہیے، کتنا اچھا ہو اگر امن کی آشا کے نام سے مہم چلانے والے بھارت سے بھی یہ ’’عرض‘‘ کردیں کہ وہ بھی پاکستان کو اپنا پڑوسی سمجھا کرے، تالی تو دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا کہ بھارت ایک کے بعد دوسرا وار کرتا جائے اور پاکستان اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے۔ ہرجھوٹے سچے واقعہ کے بعد مارنے مرنے کی دھمکیاں وہی لوگ دے سکتے ہیں جنہیں اپنے ملک اور عوام کی کوئی فکر نہ ہو۔ نہ جانے کیوں بھارتی قیادت یہ بات سمجھ نہیں پاتی کہ دھمکیوں سے مسائل حل نہیں مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے آخر کسی واقعہ کے بعد بھارتی قیادت کا ذہنی توازن کیوں ڈسٹرب ہوجاتا ہے؟ وہ بہکی بہکی باتیں کیوں کرنے لگتے ہیں؟ دراصل اس کے پیچھے پاکستان دشمنی کا وہ نظریہ ہے جسے بھارت نے روزاول سے اپنایا ہوا ہے، کسی کو یہ بات بری لگے یا اچھی مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت نے کبھی بھی دل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا، وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، بھارت نے پاکستان پر کئی جنگیں مسلط کیں، بنگلہ دیش کے قیام کی پاکستانی قیادت مجرم ہے مگر اس میں بھارتی کردار سے سیاست کا ہر طالب علم پوری طرح واقف ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ اور پیسا کون دے رہا ہے، یہ بھی ایک کھلا راز ہے، بھارت دریاؤں پر غیرقانونی ڈیم بناکر پاکستان کو ریگستان بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ کتنے ہی ایسے لوگ پکڑے گئے ہیں جنہوں نے بھارت کے کہنے پر پاکستان میں بدامنی پھیلانے کا اعتراف کیا ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کو سیاسی، معاشی، سماجی اور نظریاتی طور پر کمزور کرنا بھارت کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ بنا ہوا ہے، اور بھارت گزشتہ 65برسوں سے اس پالیسی پر پورے ’’خلوص دل‘‘ سے عمل پیرا ہے۔

بھارت کی پاکستان دوستی ہمارے سامنے ہے، وہ ہمیں پڑوسی تک ماننے پر تیار نہیں ہے، اس کے باوجود ہمارے ہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں۔ ایک گروہ تو وہ ہے جس کا کام پاکستان کو گالیاں اور بھارت کی واہ واہ کرنا ہے، ان لوگوں کی بات نہیں کرتے۔ افسوس تو اچھا خاصا ’’شعور‘‘ رکھنے والوں کی باتیں سن کر ہوتا ہے، یہ لوگ بھی اپنی مارکیٹیں بھارت کے لیے کھولنے کی تجاویز دے رہے ہیں۔ پڑوسی ملکوں کے درمیان تجارت کا کون مخالف ہے مگر یہ تو بتائیے یہ تجارت کی کون سی قسم ہے جس میں ایک طرف گولے برسائے جارہے ہوں اور دوسری طرف آلو، پیاز کے ٹرک آرہے ہوں۔ بھارتی جارحیت کا تازہ واقعہ ان کے لیے بھی سوچ وبچار کا کافی سامان لیے ہوئے ہے جو قوم کو مشرقی سرحدوں سے خطرہ کم ہونے کی خوشخبری سنا رہے تھے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بھارت پر چڑھ دوڑا جائے مگر دشمن، وہ بھی ایسا جو آپ کا وجود مٹانے کے درپے ہوں، اس سے نمٹنے کے لیے گھوڑے تیار رکھنے چاہئیں، یہ قرآن کا حکم ہے اور یہ ہی قوم کا مطالبہ ہے۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 111058 views i am a working journalist ,.. View More