ملکی حالات جس طرح سمندری موجو
کی مانند ہچکولے کھا رہے ہیں اور اندرونی و بیرونی ماحول میں ایک طوفان سا
برپا کیا ہوا ہے عوام عجیب کشمکش کی صورتحال سے دوچار ہیں سمجھ بوجھ سے
قاصر ذہنی اذیت کا شکار یہ عوام اپنے لیے راحت ِقلب کا ذریعہ ڈھونڈتی اِدھر
اُدھر ،اِس کے پاس اُس کے پاس وہ سچا یہ جھوٹا ،یہ سچا وہ جھوٹا ، یہ عوامی
وہ انقلابی انہی سرابوںمیںڈوبی یہ عوام ہر ایک کو اپنا رہبر و رہنما
گردانتی نظر آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر وہ شخص یا جماعت جو انقلاب کی بات
کرتی ہے تبدیلی کا نعرہ لگاتی ہے بے چاری عوم اس کے پیچھے بھاگتی دوڑ تی
نظر آتی ہے ۔جب سے تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری
نے ایک عوامی جلسہءعام میں 14 جنوری کے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے تب سے
تقریباً تمام بڑے سیاستدانوںپرشاید سکتہ طاری تھا اور سب اپنے اپنے خولوں
میں حیران و پریشان بیٹھے تھے لیکن جیسے ہی میڈیا اور بعض تنقیدی عناصر وں
نے اس ایشو پر پُر ذور تنقید کا سلسلہ شروع کیا اور کسی بھی طرح جھوٹ سچ
بول کر لانگ مارچ کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی تو اسی دن سے کا غذی
شیروںنے ،مفاہمتی سپیروں نے، لوٹوں اور لٹیروں نے اپنی سیاسی حیثیت بحال
رکھنے کے لیے عوام کے سامنے چیخنا چلانا شروع کردیا ہے۔انقلاب کے نام سے
کانپنے والے یہ سیاستدان چودہ جنوری کے انقلابی مارچ کے خلاف زہر اگلتے
نہیں تھک رہے تمام سیاستدانوں نے اپنی تما م تر توجہ علامہ صاحب کے انقلابی
مارچ کو سبوتاژ کرنے میں لگا رکھی ہے عوام کو ہر سطح پر ورغلایا جارہا ہے
بھیکایا جارہا ہے بھٹکایا جارہا ہے یہاں تک کے دھمکایا بھی جارہا ہے ۔انہی
سیاستدانوں سے یہ پوچھا جائے یہ خوف زدہ کس سے ہیں علامہ صاحب سے یا عوامی
مارچ سے ۔۔؟بوکھلاہٹ کا شکار یہ لوگ ایک طرف تو علامہ طاہر القادری کے
پیچھے اسٹیبلشمنٹ کاہاتھ بتاتے ہیں دوسری طرف عوام کو مارچ سے روکنے کے لیے
شازشی حربے استعمال کرتے ہیں۔اس کا مطلب تویہ ہوا عوام آپکے ساتھ نہیں بلکہ
اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہے۔خیر بہر صورت تبدلی کی خواہاں یہ عوام اس سسٹم اور اس
کے ذریعے وقوع پذیر ہونے والے سیاست دانوں سے عاجز آچکے ہیں اور ان سے
چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں اُس کے لیے عوام ہر اس پارٹی ،فرد یا ادارے کو
سپورٹ کرتے نظر آتے ہیں جو اِس کارِخیر میں عوام کی رہنمائی کرے ۔جس کی وجہ
صرف و صرف ہمارے نااہل ناسمجھ مفاد پرست سیاستدان ہیں جوموجودہ سسٹم کو اس
لیے بدلنا نہیں چاہتے کہ اگلے الیکشن میں ان کی کامیابی اسی سسٹم کے مرہونِ
منت ہے تاکہ ایوانِ بالا میں پھر سے یہی چہرے کھِل کھِلاتے رہیںاور بے چارے
غریب عوام اُسی طرح بِلبلاتے رہیں جس طرح آج بلک رہے ہیں سسک رہے ہیں ۔آمریت
کا رونہ رونے والے فردِواحد کا شور مچانے والے آج اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ
کربتائیں کیا آج بھی ملک میں فردِواحد کی حکمرانی نہیں ہے.... ؟کیا جمہویت
اور آمریت کا فرق صرف محیض وردی اور شیروانی کی تبدیلی ہے کیا کپڑوں کی
تبدلی سے نظام کی تبدیلی ممکن ہے...؟۔یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ملک کی تقدیر
کا فیصلہ آج بھی فردِ واحد کے ہاتھ میں ہے کیا ایسے لوگ ایک ناکام نظامِ
سیاست کو جمہوریت کا نام دیکر قوم کو بے و قوف نہیں بنا رہے ۔یاد رکھیں جس
دن موجودہ سسٹم کو ختم کر کے عوامی جمہوریت قائم کر دی گئی خود کو عوامی
نمائندے کہنے والے سیاسی یتیم بن کر رہے جائیںگے آخر کوئی کب تک عوام کے
حقوق کو جھوٹی جمہوریت کی چادر میں ڈھانپے رکھے گا ایسے عناصر حقیقت کو کب
تک تسلیم نہیں کریں گے جس دن بھی سہی معنوں میں پاکستان کے کسی چوک پر بھی
عوامی عدالت لگ گئی وہ دن ظالموں کے احتساب کا دن ہوگا اور جیت ہمیشہ کی
طرح عوام کی ہی ہوگی آج نہیں تو کل انقلاب آکر رہے گا جعلی جمہوریت نہیں
چلے گی۔ |