پیغام ملا تھا جو حسین ابن علی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
خوش ہوں وہی پیغام قضاءمیرے لئے ہے
فرصت کسے خوشامد شمر و یزید سے
اب ادعائے پیروی پنجتن کہاں
کہتے ہیں لوگ ہے رہ ظلمات پرخطر
کچھ دشت کربلا سے سوا ہو تو جانیئے
جب تک کہ دل سے محو نہ ہو کربلا کی یاد
ہم سے نہ ہوسکے گی اطاعت یزید کی
بنیاد جبر و قہر اشارے میں ہل گئی
ہوجائے کاش پھر وہی ایمائے کربلا
روز ازل سے ہے یہی اک مقصد حیات
جائے گا سر کے ساتھ ہی سودائے کربلا
اب بھی چمک رہا ہے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ و علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا
نام
اور خاک اڑ رہی ہے یزید و زیاد کی
میرے تمام دوست جانتے ہیں کہ میں پاکستان کے بڑے سیٹلائٹ نجی ٹیلیوژن سے
شعبہ نیوز سے وابسطہ ہوں پاکستان کے ان پانچ سالہ جمہوری حکومت میں جس قدر
عوام الناس کے ساتھ دھوکے ہوئے شائد اس کی مثال کبھی ملے، تمام سیاسی
جماعتوں نے پس پردہ یکجا ہوکر لوٹ مار، جھوٹ، منافقت، دھوکہ دہی ، خیانت،
بد عنوانیاں، ظلم و ستم، تشدد، بے روزگاری، بے حسی، پیداوار کی بربادی،
وسائل کا ضیاع، نااہلیت کو فروغ، میرٹ کی موت، عدم انصاف جیسے موذی امراض
میں مبتلا ہیں اور دشمنان پاکستان کی غلامی ان کا وطیرہ بن چکاہے۔ پاکستان
پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون نے ثابت کردیا کہ یہ دونوں جماعتیں
جو کہ خود نمائی سے بڑے انہماک سے کہتے ہیں کہ یہ عوامی مینڈیٹ کے بادشاہ
ہیں درحقیقت جسے وہ عوامی مینڈیٹ کہتے ہیں وہ صرف اوصرف بوگس اور جعلی
ووٹوں کی بدولت حاصل ہوئی ہیں، کیوں خوف ہے سچائی اور صحیح و درست طریقہ
کار کو اپنانے کا!! ان دونوں پارٹیوں نے وطن عزیز پاکستان کو زر خرید
جائیداد سمجھ لیا ہے اور باپ کی جاگیر سمجھتے ہوئے اولاد در اولاد کو سیات
کا تاج پہنایا جارہا ہے جبکہ بحیثیت مسلم اور آئین کے تحت پاکستان میں
مورثی سیاست کا کوئی قانون نہی، پھر کیوں تیس، چالیس سالوں سے مورثی سیاست
کو مستقلاً فروغ دیا جاتا رہا ہے اگر یہ دونوں واقعی مخلص ہیں تو جو آئین
کہتا ہے اس میں بد دیانتی کا عمل کیوں لاتے ہیں ؟؟ ڈاکٹر طاہر القادری اگر
صحیح اور درست بات کررہے ہیں تو کیوں ان کی راہ میں رکاوٹ کے پہاڑ کھڑے
کیلئے جارہے ہیں ،جمہوری حکومت میں حق رائے کا مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے یہ
کیسی جمہوری حکومت ہے جس میں حق رائے دینا آمری حکومت سے بھی زیادہ برا
سمجھا جاتا ہے ۔ چند دنوں پہلے کوئٹہ میںباچا خان چوک اور علمدار روڈ پر پے
در پے خود کش دھماکے ہوئے اور حکومتی مشنری جیسے لاعلم ہوں کوئی پرسانے حال
نہیں رہا تین روز گزرنے کے بعد عوامی سطح پر جب نعشوں کے ساتھ مسلسل سخت
سردی میں عوارتوں، بچوں، بچیوں، بوڑھوں اور جوانوں نے دھرنے جاری رکھے تب
کہیں جاکر مسلسل میڈیا کی جانب سے مذمت جاری رہنے پر وزیر اعظم نے حالات کو
جانا جبکہ صوبائی وزیر اعلیٰ ملک سے باہر ہی رہے۔چالیس سال پہلے یہی
پاکستان تھا جہاں ہر فرقہ کے لوگ اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق آزادانہ تہوار
مناتے تھے لیکن وقت کے بیتنے کے ساتھ ساتھ دشمنان پاکستان کے غلاموں کی
تعداد سیاست و وزارت میں بڑھتی چلی گئی اور اب ہر پاکستانی جانتا ہے کہ
قانون اور تحفظ صرف وزراءو اعلیٰ ترین شخصیات کیلئے ہیں اور ان پر پاکستان
کا قانون کا کوئی بھی شق عائد نہیں ہوتا۔ قانون کے محافظ ان کے در کے غلام
ہیں ان کے خلاف نہ وارنٹ جاری ہوسکتے ہیں اور نہ کوئی انتظامیہ کا سرکاری
فرد باز پرس کرسکتا ہے ۔ یہ کیسا ملک ہوتا جارہا ہے ؟؟ میڈیا میں بھی کچھ
ایسے لوگ داخل ہوگئے جنہیں نہ میڈیا کی طاقت کا احساس ہے اور نہ صحافتی
امور کا خیال ہاں اگر کچھ یاد ہے تو وہ اپنے اور مالکان کے مقاصد ہیں۔ سابق
صدر پرویز مشرف نے میڈیا کو آزادی اس لیئے دی تھی کہ وہ اپنے فرائض کو بہتر
انداز میں استعمال کرسکیں مگر چند ایک گندے لوگوں کی بناءپر میڈیا بھی
بدنامی سے نہ بچ سکا۔ میرے ذاتی مشاہدے میں چند ایک ایسے بھی چینلز آئے جن
کے مالکان کا اصل مقصد ہی بلیک دولت کو وائٹ دولت بنانا مقصود تھا گو کہ اب
وہ چینلز ان مالکان نے کرائے پر ایک سے دوسرے کو دیئے ۔دوسری جانب میڈیا
میں ابھی بھی کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے فرائض منصبی کو انتہائی
خوش اسلوبی ، ایمانداری و سچائی سے سر انجام دے رہے ہیں یہاں میرا عنوان
میڈیا نہیں بلکہ وہ حالات ہیں جو اس وقت ہمارا ملک مشکل ترین مراحل سے
دوچار ہے جس میں جہاں میںانتہائی بد عنوانی اور کرپشن ہے وہیں گندی سیاسی
کا راج چل رہا ہے جوسیاسی بادشاہت کا عمل پیش کررہا ہے ۔ بحرحال اس وقت رات
کے بارہ سے زائد وقت ہوگیا ہے اور چودہ جنوری بھی شروع ہوچلی ہے دو خبریں
مجھ تک پہچی ہیں ایک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کی سبکدوشی دوسرا اسلام آباد
میں ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسہ کی جگہ تبدیل۔ ایک خبر اچھی ملی کہ احتجاج
کرنے والوں کا مطالبہ قبول کرلیا گیا مگر دوسری خبر نے تشویش میں ڈال ڈیا۔
انقلاب لانے والے اپنی سمت کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں کرتے تو ڈی چوک سے
سعودی سفارت خانہ کے قریب کی جگہ کیوں قبول کی۔عزم و انقلاب لانے والے ایک
انچ بھی پیچھے نہیں ہٹتے ہیں یہ پوری قوم اس وقت ڈاکٹر طاہر القادری کو
نجاہدہ اور مسیحا سمجھتی ہے اب کسی طور یہ قوم دھوکہ برداشت نہیں کرسکتی
مجھے ڈر ہے کہ اگر اس قوم کے ساتھ عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری نے
مذاکرات اور مصلحت کے تحت جھکاﺅ رکھا تو پھر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار
نہیں کہ یہ قوم پاکستان ہی غلط راہ پر چل رہی ہے اور اسی خود ہی اپنے آپ کو
درست کرنا ہوگا ۔ اللہ اور اس کے حبیب کے احکامات پر مکمل عمل کرنا ہوگا اس
قوم کو اپنے اندر کی تمام روحانی بیماریوں کا خود ہی علاج کرنا ہوگا اس کا
علاج سنت رسول اور احکام خداوندی کی پیروی ہے۔ جب قوم کا ہر شہری ناپ تول
کا صحیح استعمال کریگا، جب سچ کو اپنائیگا، جب ووٹ کی اہمیت کو سمجھے گا،
جب انتخابات میں سچے اور ایماندار کو منتخب کریگا، جب ذاتیات سے بالاتر
ہوکر ملکی مفادات کو فوقیت دیگا،جب اپنے وسائل کو صحیح خطوط پر استوار
کریگا، جب اپنی صنعتوں کو پروان چڑھائے گا، جب اپنے درمیان بسنے والے ملک و
قوم کے دشمنوں کو پناہ نہ دیگا، جب خیانت سے باز آجائیگا، جب دیانتدار
ہوجائیگا، جب انسانیت کا احترام کریگا، جب قول و فعل میں تضاد نہ رکھے گا،
جب ذخیرہ اندوزی ختم کردیگا، جب دولت کی ہوس چھوڑ کر علاج سستا کریگا، جب
اجناس کو مناسب دام میں فروخت کریگا، جب لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا
بند کردیگا، جب حقوق العباد پر عمل پیرا ہوگا، جب قانون کی پاسداری کریگا،
جب علم و فنون کو حقیقی معنوں میں اہلیت سے قبول کریگا، جب ادب و احترام
کریگا، جب احساس ذمہ داری محسوس کریگا، جب فرقوں اور تعصب کے زہر سے باہر
نکلے گا، حب الوطنی پیدا کریگا، جب خوف خدا اور رسول مقبول ﷺ سے والہانہ
محبت رکھے گا تب اس قوم کو کسی لیڈر یا رہنما کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی اور
سب یکجا ہوکر ملت اسلام کیلئے نہ صرف سود مند ثابت ہونگے بلکہ دنیا بھر میں
عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔ تو جان لیجئے ہم سب کو اپنے آپ
بدلنا ہوگا اپنے مستقبل کیلئے اور اپنے حال کیلئے۔۔۔!! |