جب ہم چھوٹے تھے اور پاکستان کے
دونوں بازو متحد تھے اس وقت ایک ڈرامہ پی ٹی وی سے ٹیلیکاسٹ ہوا جس کا نام
تعلیم بالغاں تھا اور اس میں ماسٹر صاحب سے سوال کیا کہ جمہوریت کیا ہوتی
ہے۔ جس کا جواب ماسٹر صاحب نے دیا کہ اکثرئیت کی رائے کو فوقئیت دے کر
تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اسے جمہوری طریقہ کہا جاتا ہے۔ طالب علم نہ سمجھ سکے
تو ماسٹر صاحب نے مزید واضح کرنے کے لئے اسٹوڈینٹس سے رائے لی اور پوچھا کہ
تمام اسٹوڈینٹس یہ بتائیں کہ بابر ہمایوں کا باپ تھا یا بیٹا۔ جس پر کلاس
میں شور مچ گیا کوئی کہ رہا تھا کہ بابر باپ تھا کسی کا خیال تھا کہ بابر
بیٹا تھا۔ جس پر ماسٹر صاحب نے کہا کہ وہ لوگ جو بابر کو باپ کہ رہے ہیں وہ
ہاتھ کھڑے کریں انہیں گنا گیا تو وہ چار تھے۔ پھر ماسٹر صاحب نے پوچھا کہ
اب وہ لوگ ہاتھ کھڑے کریں جو ہمایوں کو بابر کا باپ کہ رہے ہیں۔ جب وہ ہاتھ
گنے گئے تو وہ پانچ یا چھے کے قریب نکلے ۔
ماسٹر صاحب نے کہا کہ جمہورئیت کے مطابق ہمایوں بابر کا باپ تھا ۔ اسی کو
جمہوریئت کہتے ہیں۔
١٩٦٧میں جمہوریت کی صحیح تشریح ماسٹر صاحب نے بہت اچھے انداز میں کی تھی۔
ایسی جمہورئیت ہم پر مسلط ہے اور اسی جمہورئیت کے ثمرات ہمیں دین و دنیا
دونوں میں برباد کئے دے رہے ہیں۔ سب مل کر ہمایوں کو بابر کا باپ بنائے
رکھے ہیں۔ جالی ڈگریوں والے حلف دے کر اپنے کاغزات کے صحیح ہونے کا دعوے
کرتے ہیں اور اس کے جالی ہونے کا ثبوت مل جانے کے باوجود بھی فوائد اٹھاتے
رہے۔ جب کہ یہ غلط بیانی حلف سے غداری کے زمرے میں آ سکتی ہے۔ اور اسٹیٹ سے
غداری آئین میں بھی شاید درج ہے۔
ملک اس وقت جس کرب اور انتشار کا شکار ہے۔ مشرف ڈکٹیٹر کو برا کہتے کہتے
ڈرون کی بربادیوں پر کسی کروائی سے بھی گریزاں ہیں۔ اداروں نے حلف اٹھایا
ہوا ہے کہ لوگوں کی جان مال عزت و آبرو کی حفاظت کرنے کے پابند ہیں۔ جمہوری
دور میں ٹارگیٹ کلنگ۔ بم دھماکے نسلی تصادم مہنگائی اور بیرونی قوتوں کی
تعبیداری۔ بھی جمہورئت کا حسن ہے۔ کیا ادارے اس حلف سے روگردانی کے مرتکب
تو ہیں ہو رہے۔
جمہوریت کا حسن یہ بھی ہے کہ ماضی کے لٹیرے موجودہ حکمرانوں کو چور چور کا
راگ الاپ کر خود کو پاک صاف قرار دی رہے ہیں۔ کوئی صحیح منصف ایسے چوروں کی
گردنوں پر پھندہ فٹ کرے تو جمہوریئت کی صحیح سمت کا شاید تعئین ہو۔ انقلاب
ایران اس ملک کی بقا کے لئے ضروری ہے جس میں بلا کسی تخصیص کے کاروائی ہوئی
جس کے بعد قوم تمام مخالفتوں کے باوجود اپنے پیروں پر کھڑی ہے۔ کرپٹ جالی
الیکشن سے کانی جمہورئت ہی ملے گی جیسی روح ویسے فرشتے۔ |