پاکستان میںجا گیر داری اور
سرمایہ داری کی خون آشام،بے رحم اور سفاک زنجیروں نے پاکستا نی عوام کو
اپنے آہنی شکنجوں میں اس بری طرح سے جکڑ رکھا ہے جس سے رہائی کی کوئی صورت
بھی نظر نہیںرہی۔ یہ تسلط اور جکڑ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز اس
دور سے ہو گیا تھاجب پاکستان کا قیام ایک حقیقت کی صورت میں شہود پذیر ہو
نے والا تھا ۔ برِ صغیر کی تما م ریاستوں میں جاگیرداروں اور نوابوں کا راج
تھا اور وہ اس بے رحم راج کا تسلسل چاہتے تھے ۔اس زمانے میں صوبہ پنجاب کے
سارے جاگیر دار یونینسٹ پارٹی کے ممبر تھے جو کہ کانگریس کی مدد سے پنجاب
پر بر سرِ اقتدار تھی ۔1948 کے آغاز میں جب جاگیر داروں نے یہ دیکھا کہ
پاکستان کے قیام میں اب کوئی چیز بھی مانع نہیں رہی تو وہ سارے کے سارے
جاگیردار چھلانگیں لگا کر راتوں رات مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور لہو لگا
کر شہیدوں کا رتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ انھوں نے اپنی وفاﺅں کا
ایسا دلکش سوانگ بھرا کہ وہ جو سالہا سال سے قیامِ پاکستان کی جدو جہد میں
شب و روز اپنے لہو کا نذرانہ دے رہے تھے پچھلی نشسوں پر چلے گئے اور یہ
نووارد پارٹی کے مالک بن بیٹھے ۔ سچ تو یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کی کامیابی
و کامرانی میں ان جاگیر داروں کا کوئی کردار نہیں تھا کیونکہ وہ تو کانگریس
کے حاشیہ بردار تھے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے سخت نا قدین میں شمار
ہو تے تھے ۔ ایک متحدہ ہندوستان ان کا مطمہِ نظر تھا لیکن اس نظریے کو شکست
سے دوچار ہونا پڑ رہا تھالہذا اب ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ
کا نگر یس کا ساتھ دیں کیونکہ ان کا مسکن تو وہ جگہ ہونی تھی جہاں پاکستان
قائم ہونے جا رہا تھا ۔ان بدلتے حالات میں ان کی کوشش یہ تھی کہ وہ کسی طرح
اس کاروان میں شامل ہو جائیں جس کی منزل پاکستان ہے تاکہ عوام کو یہ باور
کروا یا جا سکے کہ وہ دل و جان سے پاکستان کے قیام کے خو اہاں تھے اور قائدِ
اعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے حا لانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس
تھی۔وہ کسی کے بھی دوست نہیں تھے بلکہ وہ ذاتی مفا دات کے اسیر تھے ۔اپنے
اس منصوبے کو وہ کمال ہوشیاری سے رو بعمل لا رہے تھے اور عوام کو یہ تاثر
دینے میں کامیاب رہے تھے کہ وہی ان کے اصلی ہمدرد اور دوست ہیںاور انہی کی
کوششوں سے پاکستان کا قیام ممکن ہو سکا ہے ۔ان کے با اثر ہونے میں تو کوئی
شک نہیں تھا لہذا ان کے مسلم لیگ پر قابض ہونے کو بھی با آسانی سمجھا جا
سکتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان سرداروں، نوابوں اور جاگیر داروں نے مسلم لیگ
پر قبضہ جما کر قائدِ اعظم محمد علی جناح کے قائم کردہ مقاصد کو بالکل الٹ
کر رکھ دیا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رحلت میں بھی وہی عناصر سرگرم تھے
جو پاکستان میں جاگیرداری نظام کی بقا چاہتے تھے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ
قائدِ اعظم محمد علی جناح ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لہذا مسلم
لیگ میں ان کی موجودگی میں جاگیر داری سوچ کا پنپنا ناممکن تھا۔اب منصوبہ
بندی یہ کی گئی تھی کہ وہ شخصیت جو ان کی راہ میں مزاحم ہے اسی شخصیت کو ہی
راہ سے ہٹادیا جائے تا کہ نہ رہے بانس نا بجے بانسری ۔ ایک سازش تیار کی
گئی اور اس پر بھر پور عمل در آ مد کر کے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو
راستے سے ہٹا دیا گیا۔ٹوٹی ہوئی ایمبولینس میں سڑک کے کنارے قائدِ اعظم
محمد علی جناح کی رحلت کیا اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ ان کا دن دھاڑے
قتل کیا گیا تھا؟
ِ پاکستان کے قیام کے بعد سے دسمبر 1970 کے پہلے عام انتخا بات تک انہی
سازشوں کے تانے بانے بنتے جاتے رہے اور عوامی ھاکمیت کا وہ تصور جو قیامِ
پاکستان کی روح تھا اسے مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ۔محلاتی سازشوں نے
عوامی فلاح و بہبود کی جانب کوئی توجہ مرکوز نہ ہونے دی اور عوام کو
محرومیوں کے ایک ایسے لق و دق صحرا میں بالکل برہنہ پا چھوڑ دیا جہاں ان کی
ہلاکت یقینی تھی جبکہ با اثر لوگ خود اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔ جاگیر داری
پسِ منظر رکھنے والے سیاست دانوں کو جب یہ احساس ہو گیا کہ عوام میں اپنی
گرتی ہوئی ساکھ کی بدولت وہ تنِ تنہا اپنے اقتدار کو قائم نہ رکھ سکیں گئے
تو پھر انھوں نے فوجی جنتا سے ساز باز کر کے اپنے اقتدار کی دوامیت کو
یقینی بنا لیا۔پاکستانی سیاست کا یہی وہ طاقتور عنصر ہے جس کا آغاز 1958میں
ہوا تھا اور جو اب بھی پاکستانی سیاست کا سب سے توانا عنصر ہے اور یہی
دونوں گروہ باہمی گٹھ جوڑ سے اب بھی پاکستان پر بالسواسطہ یا بلا واسطہ
حکمر انی سے بہرہ ور ہو رہے ہیں جبکہ عوام کا اقتدار کے ایوانوں سے نہ صرف
کوئی گزر نہیں بلکہ اس کے فوائد سے بھی انھیں کوئی سرو کار نہیں ہے ۔ میں ذ
اتی طو ر پر 1958 کے فوجی شب خون کو ایک ا یسی سازش کے نقطہ آغاز سے تعبیر
کرتا ہوں جس میں فوج نے غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور
جاگیرداروں اور نوابوں کو اپنا حا شیہ بردار بنا کر اپنے غیر آئینی اقتدار
کو مضبو ط بنا لیا۔ عدالتوں نے بھی نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاﺅں کو جائز
قرار دے کر عوام کی زندگی کو مزید اجیرن بنا دیا ۔جنر ل محمد ایوب خان نے
اپنے فوجی شب خون کے بعد جاگیر داروں کے ساتھ ساتھ سرمایہ داروں کا نیا
طبقہ بھی پیدا کر لیا تاکہ اقتدار کا فوجی ہاتھوں سے پھسلنے کا کو ئی امکان
باقی نہ ر ہے۔ بائیس خاندانوں کا غلغلہ اسی زمانے میں عام ہوا تھا جس میں
پاکستان کی ساری دولت انہی چند ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ گئی تھی اور عوام
محرومی اور تنگ دستی کی سولی پر لٹک رہے تھے ۔جاگیرداری اور سرمایہ داری کے
یہ ہاتھ ہر فوجی حکومت کے دست و بازو بنتے رہے اور فوجی جنتا سے اپنا حصہ
وصول کرتے رہے اور یہ سلسلہ کہیں پر بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔اب یہ
ہاتھ اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ انھوں نے پورے جمہوری نظام کو یرغمال بنا
لیا ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ان مخصوص گروہوں نے قومی مفادات کے نام پر فوجی جنتا
کے ہر شب خون میں ان کا ساتھ دیا اور پھر آرام و سکون سے اپنی تجوریاں بھی
بھرتے رہتے۔ یہ اپنے اپنے علاقوں میں فرعون بن کر عوام پر ظلم و ستم کے
پہاڑ توڑتے ہیںاور انسانی جذبوں کا خون کرتے ہیں ۔کسی میں اتنی مجال نہیں
ہوتی کہ وہ انھیں چیلنج کر سکے کیونکہ ان کے پاس سارے انتظامی اختیارات
ہوتے ہیں۔وہ پا رلیمنٹ کے ممبر بھی ہوتے ہیں علاقے کی با اثر شخصیت بھی
ہوتے ہیں ،جاگیردار بھی ہوتے ہیں اور دولت مندبھی ہوتے ہیں لہذا ان کے آہنی
پنجوں سے بچ جانے کی کس میں قوت ہو سکتی ہے؟۔عوام نسل در نسل ان افراد کے
غیر انسانی سلو ک کو برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس سے چھٹکارا حا صل
کرنے کی کوئی راہ انھیں سجھائی نہیں د یتی کیونکہ وہ کمزور ہوتے ہیںاور
کمزور کی ہار یقینی ہوتی ہے۔ ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے کے بعد جب جمہوری حکومتوں
کا قیام عمل پذیر ہوتا ہے تو یہی وڈیرے سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر قومی
مفادت کے نام پر آمروں کے وہ لتے لیتے ہیں کہ دل میں یہ احساس ابھرنا شروع
ہو جا تا ہے کہ ان سے بڑا جمہوریت پسند شخص کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔جو کہ
جھو ٹ اور فریب کے سوا کچھی نہیں ہوتا ۔ہماری سیاسی جماعتوں کی وسعتِ قلبی
کی بھی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ بھی ایسے بے ضمیر عناصر کی خو صلہ افزائی
کرتی ہیں اور انھیں اپنی صفوں میں جگہ دے کر ان کے سارے غیر جمہوری اقدامات
کو سندِ قبولیت عطا کر دیتی ہیں ۔آمرانہ ذہنیت رکھنے والے یہ لوگ چہرے بدل
بدل کر عوام کے پاس آتے رہتے ہیں اور عوامی حقو ق کے پاسبان بن کر اپنا د
کھڑا روتے رہتے ہیں ۔سیاسی جماعتوں میں ایک دوڑ لگی ہوتی ہے کہ فلاں علاقے
کا جاگیر دار اور سرمایہ دار ان کی جماعت میں شامل ہو جا ئے تا کہ اس علاقے
میں اس جماعت کی سیٹ پکی ہوجائے۔اس وقت پاکستام کی ساری قابلِ ذکر جماعتیں
انہی افراد سے بھری پڑی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی خود پر یقین نہیں ہوتا
اس لئے وہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی جانب دیکھتی ہیں اگر سیاسی
جماعتوں کے قا ئد ین کو اپنی صلاحیتوں پر پختہ یقین ہو تو شائد پاکستانی
سیاست کی بھگوڑے نما انسانوں سے جان چھوٹ جائے لیکن ایسا ممکن ہو تا نظر
نہیں آ رہا کیونکہ سیاسی قیادتیں ابھی اتنے بڑے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں
نہیں ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جاگیر دار اور سرمایہ دار ہمارے معاشرے
کے انتہائی با اثر افراد ہو تے ہیں اور ان کے پاس ذرائع آمدنی کی فراوانی
ہوتی ہے اسی لئے ہر جماعت کی کوشش ہو تی ہے کہ وہ ا نہی کی صفوں میں شامل
ہوں تا کہ ان کی شمولیت سے ان کی قوت میں اضافہ ہو جائے اور ان کی جیت کی
راہیں کشادہ ہو سکیں۔ہر جماعت کو یہ بھی خبر ہو تی ہے کہ جاگیر دار اور
سرمایہ دار جوہرِ وفا سے عاری ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی سیاسی
جماعتیں ان پر تکیہ کرنے سے باز نہیں آ تیں کیونکہ ان کی جیت کا یہی راستہ
ہوتا ہے اور اس راہ پر انھیں ہر حال میں چلنا ہو تا ہے ۔مفاد پرستوں کا یہ
گروہ کسی نئی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ اس جماعت کے پروگرام کی کشش کی وجہ
سے نہیں بلکہ اپنے مفادات کی وجہ سے کرتا ہے لیکن اس کے باجود بھی جماعتیں
انکی آﺅ بھگت کرنے سے باز نہیں آ تیں جس سے جمہوری قدروں کو ناقابلِ تلافی
نقصان پہنچ رہا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی وہ سورج
طلوع ہو گا جب عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھنے کی بجائے انھیں بھی شریکِ اقتدار
کیا جائے گا اور حقیقی جمہوریت کی بنیادیں رکھی جا ئیں گی؟ اس وقت بہت سی
آوازیں اس بیمانہ نظام کے خلاف صف آرا ہو چکی ہیں۔ان سب میں متاثر کن،
توانا اور باجرات آواز تحریکِ منہاج القرآن کے چیرمین علامہ ڈاکٹر
طاہرالقادری کی ہے۔کیا پاکستان کے عوام ان کی اس آواز پرلبیک کہہ کر تبدیلی
کے عمل کو ممکن بنا سکیں گئے یا وہی فرسودہ اور پرانا نظام عوام کا مقدر
بنا رہےگا؟کیا کسی علاقے کا چوہدری عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتا رہے گا یا
عوام خود اپنی قسمت کے مالک ہوں گئے ؟اس بات کا فیصلہ ہو جانا انتہائی
ضروری ہے کہ پاکستان پر ایک مخصو ص استحصالی ٹولے نے حکومت کرنی ہے یا عوام
کا بھی اس میں کوئی حصہ ہو گا ؟ یہی وہ اہم سوال ہے جس پر آنے والے دنوں
میں ملکی سیاست کی بنیادیں رکھنی ہوں گی کیونکہ موجودہ جمہوری نظام انتہائی
فرسودہ اور کرپٹ ہو چکا ہے لہذا اس کا خاتمہ بہت ضروری ہے ۔۔۔۔ |