متحدہ قومی مومنٹ کا فیصلہ

فیصلہ کرنے کا وقت اور حالات کی کروٹ دو ایسی اہم چیزیں ہیں جو فیصلہ ساز کو کبھی لے ڈوبتی ہیں اور کبھی دریاپار کروادیتی ہیں۔

تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ کوئی بھی حملہ آور جب تلک دارلحکومت فتح نہ کرلیتااسوقت تک وہ اپنے فتح کو مکمل نہیں سمجھتاتھا۔ایک طرف ملک کے دارلحکومت کی جانب ایک ایسے انسان کی جانب سے چڑھائی کی جارہی ہے جو غیرملکی شہریت رکھنے کے باوجود ارض وطن میں ہزاروں عقیدت مند رکھتاہے جو ان کی انگلی کے اشارے پر جان نثار کرنے پرتلے ہیں ۔اور دوسری جانب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے دارلحکومت کی زمین کو خون سے نہلایاجارہاہے۔ایسے حالات میں وطن کی بنیادیں ہلانے دینے کے ذمہ دار گہری نیند سورہے ہیں ۔کاش وہ مناسب آئینی ترامیم کے ذریعے کوئی ایساکارآمدقانون بنالیتے جو محرالحرام سے لے کر سال کے اختتام تک کسی بھی فقہ کے مذہبی جذبات کی زبانی وقلمی حفاظت کافریضہ سرانجام دیتا۔

حضرت سلطان باہوفرماتے ہیں”ہر عارف عالم ہوتاہے لیکن ہر عالم عارف نہیں ہوتا“۔ تضنع ‘ بناوٹ ‘ ریاکاری ‘ اقتدارکالالچ یہ سب وہ اشیاءہیں جو عالم میں تو موجود ہوسکتی ہیں لیکن کسی ولی کامل یامرشد کہلانے کے حقدار شخص میں ہرگز نہیں۔پاکستان کے عوام متحدہ مجلس عمل کے اقتدار کے بعد اب مولوی حضرات سے اب کوئی خاص اُمید نہیں رکھتے گوکہ اب بھی کافی افراد کے دل میں ان کے لیئے (اقتدار کی راہداری کے علاوہ) نرم گوش ضرور موجودہے۔تریسٹھ برس سے اس بیچاری سادہ لوح عوام کو کبھی کسی نے معاشی تبدیلی کا لالچ دے کر تو کبھی مذہب کی آڑ میں لوٹا‘بیچااوران کا خون تک پیاہے۔

تاریخ کامطالعہ بتاتاہے کہ انسان یاتو مادی اشیاءکی خاطر بکتاہے یاپھرمذہب کی خاطر۔اور یہی وہ دواشیاءہیں
جہنیں حکمران ہتھیار بناکراقتدار کی راہ ہموارکرتے ہیں ۔اور پھر خوب عیاشی کرتے ہیں اور عوام عرصئہ دراز تک ان کے سحرمیں مبتلارہتے ہیں اور ان کے زبان ‘بیان اور قلم کا جادو اترنے تک ملک کی سرحدیں کمزوراور اندرونی خلفشاراورشورش بڑھ چکی ہوتی ہے۔مگر ہم ایسے بدقسمت لوگ ہیں کہ اب تک جب کہ ایک دن میں کم وبیش ملک کے طول وعرض میں پچاس سے زائد افراد بھی مرجائیں توہم اُسے بریکنگ نیوز بناکر‘بیان دے کر ‘آہ بھر کر یالواحقین کو دوچارروپے دلوا کر پھر خراٹے بھرنے لگتے ہیں۔

اور پھر جب الیکشن آتاہے توکبھی نوکری اور کبھی تھانے کی خاطر اپناضمیر بیچ دیتے ہیں۔ہمیں جو چاہے جب چاہے نعروں کی گونج میں ‘ایڈورٹائزمنٹ چلاکر‘اشتہارلگاکر یاپھر فاسفورس کو ہوامیں جلتادکھاکر اپناگرویدہ کرسکتاہے۔ہم اکسیویں صدی میں بھی طوطے سے فال نکلواکر دفتریاکام کوجاتے ہیں۔ہماری پیٹ اور معدے کی بیماریوں کاتسلی بخش علاج کدو پر آپریشن کرذریعے کیاجاتاہے اور ہم موءدب اور باوضو ہوکراس حکیم نمامرشد سے دست بوسی کا شرف حاصل کرتے ہیں۔پھر بھی ہم متحدہ سے گلہ کرتے ہیں کہ وہ حالات دیکھ کربدل جاتی ہے ۔جناب عالی سیاست دان ہو یا علاقے کا وڈیرہ بٹیرا سب عوام کے ضمیر‘برداشت اور انکااخلاقی معیار جانچ کر فیصلے اور حکومت کرتے ہیں ۔کیاجب عوام بہادر ہوجائے تو روس کے زار‘ فرانس کے بادشاہ‘ہندوستان کے وائسرائے ‘مصرکے حسنی مبارک یا لبیاکے معمر قذافی ان پرحکومت کرسکتے ہیں؟؟؟

یہ تواچھاہوا جو متحدہ نے اپنافیصلہ بدل لیاوگرنہ ممکن تھاکہ لانگ مارچ اسں کے کیرئیر پر کچھ اور سیاہ داغ جڑ دیتاجسے دھونادشوار ہوجاتا۔اور ویسے بھی جب معلوم ہوجائے کہ کوئلے کی سوداگری میں کچھ نہیں ملے گاتو سمجھ دار آدمی کو ایساکاروبار ہی جاری نہیں رکھناچاہیئے ۔

فیصلہ کرنے کا وقت اور حالات کی کروٹ دو ایسی اہم چیزیں ہیں جو فیصلہ ساز کو کبھی لے ڈوبتی ہیں اور کبھی دریاپار کروادیتی ہیں۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188873 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.