بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت
گردی اور بگڑتے ہوئے حالات طویل عرصہ سے اس بات کے متقاضی رہے ہیں کہ اس
معاملے پر سنجیدگی اپناتے ہوئے متفقہ قومی ایجنڈہ ترتیب دے کر بلوچستان کے
عوام اور حقیقی قیادت کو اعتماد میں لیکر بلوچستان کے مسئلے کا پر امن اور
پائیدار حل نکالا جائے جبکہ وطن عزیز میں جاری دہشت گردی اور قتل و غارت
بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ تمام قومی و علاقائی اور عوامی قوتیں یکجا و
متحد ہوکر اس حوالے سے متفقہ لائحہ عمل بناکر اس پر عملدرآمد کے ذریعے دہشت
گردی کے ناسور کا صفایا کرنے میں اپنا مشترکہ کردار ادا کریں مگر صد افسوس
کہ اس حوالے سے بیان بازی تو ہر جانب سے ہوتی رہی ہے مگر عملاً آگے بڑھ کر
کسی نے بھی پہل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سیاسی و ذاتی مفادات کیلئے دشمن
عناصر سے رابطوں ‘ واسطوں ‘ مدد ‘ معاونت اور حمایت کی روایت برقرار رکھی
جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے حالات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے یہی صورتحال
بلوچستان کے حوالے سے بھی سامنے آئی جب لوگوں کو بسوں سے اتارکر شناختی
کارڈ دیکھ کر قتل کرنے کے پہلے جرم کے بعد ہی مجرموں کی سرکوبی کی بجائے
سیاسی مفاد پرستی کو ترجیح دی گئی تو یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوتا چلا گیا کہ
بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں دہشت گردی عروج پر جاپہنچی اور ہزارہ برادری کے
افراد چن چن کر قتل کئے جانے لگے اور کچھ ایسی ہی صورتحال سے کراچی بھی
دوچار ہے !
چند روز قبل کوئٹہ میں ہونے والے دودھماکوں میں سینکڑوں افرادکی ہلاکت کے
بعد ہلاک شدگان کے لواحقین کے نعشوں سمیت کئی روزہ احتجاج پر حکومتی خاموشی
و نظر اندازی نے ملک بھر میں ان مظاہروں ‘ دھرنوں اور احتجاج کو جنم دیا جس
نے تمام سیاستدانوں اور قیادتوں کو بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے
مطالبے کی حمایت پر مجبور کردیا اور عوامی ووٹوں سے برسرِاقتدار آنے والی
وفاقی حکومت ‘ عوام کی نمائندہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو برطرف کرکے
گورنر راج کے نفاذ پر مجبور ہوگئی ۔
یہ صورتحال یقینا بلوچستان کی صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی کے خلاف عوامی
احتساب اور عوام کے اتحاد و مظلومین کی اخلاقی فتح تو کہلائی جاسکتی ہے مگر
جمہوریت کیلئے اس روایت کا آغاز خطرات کا پیش خیمہ دکھائی دے رہا ہے کیونکہ
حکومت صوبائی ہو یا وفاقی جمہوری تب ہی کہلائی جاتی ہے جب عوام کو تحفظ و
سہولیات اور انصاف کی فراہمی کے ذریعے انہیں مطمئن و آسودہ کرتی ہے مگر جب
حکومت تحفظ میں ناکام ہوجائے ‘ سہولیات ناپید ہوں ‘ انصاف کا کہیں نام و
نشان نہ ملے اور عوام نعشوں کے ہمراہ شدید سردی و برسات میں کئی روز تک
احتجاج کرنے پر مجبور ہوں تو اسے جمہوریت کا شیوہ قرار نہیں دیا جاسکتا‘جب
جمہوریت کمزور ہوتی ہے تو آمریت کا راستہ کھل جاتا ہے اور پھر حالات کو غیر
محسوس انداز سے اس بند راستے کی جانب لے جایا جاتا ہے جہاں آمریت کی آہنی
دیوار ہوتی ہے اور جمہوریت ا س سے سر ٹکرانے اور آزادی حاصل کرنے کیلئے کئی
برس ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہوجاتی ہے!
بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد حالات ایسی ہی بند گلی کی جانب سفر
کا اشارہ دے رہے ہیں کیونکہ کوئٹہ سانحہ میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد
عوام کا اشتعال و احتجاج اوراس کے نتیجے میں بلوچستان میں گورنر راج کا
نفاذ اس خدشے کو جنم دے رہا ہے کہ جمہوریت دشمن اور انقلاب سے خوفزدہ حلقے
جو سیاسی مفادات کیلئے غیرریاستی طاقتوں سے تعلقات کی روایت کا شکار ہیں ان
کی مددو معاونت سے کوئٹہ کے بعد کراچی میں بھی کسی ایسے سانحہ کو جنم دے
سکتے ہیں جس کے نتیجے میں عوامی اشتعال و احتجاج سندھ میں بھی گورنرراج کے
نفاذ کو لازمی قرار دے دے اور یہ حقیقت رہی ہے کہ کراچی سے اٹھنے والے
احتجاج کی بازگشت اور سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد کوئی جمہوری حکومت
اپنی مدت مکمل نہیں کرسکی ہے اور نہ ہی جمہوریت محفوظ رہ پائی ہے ۔ |