پاک و ہند سرحد پر امن کی
برقراری کے باہمی عہد اور وعدوں کے باوجود جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جیسے
معمول کی بات ہوکر رہ گئی ہیں۔ گزشتہ کئی روز سے پاکستانی سرحدی علاقوں میں
گھس کر ہندوستانی فوجیوں نے کئی پاکستانیوں اور شاید فوجی بھائیوں کو بھی
شہید کر دیا ہے اور جوابی فائرنگ پر اپنا ہتھیار تک چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے،
یہ واقعہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو ایک بار پھر ابتری کی جانب ڈھکیل سکتا
ہے۔ یہ شکایت بھی زبانِ زدِ عام ہے کہ تقریباً ایک مہینے کے اندر ہندوستانی
فوج نے جنگ بندی کی متعدد بار خلاف ورزیاں کی ہیں، اور جب آوازِ احتجاج
بلند کیا جاتا ہے تو بھارتی ہر مرتبہ اپنا رچایا ہوا سارا ڈرامہ ہمارے
فوجیوں پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے فوجی اُس وقت
تک کوئی کاروائی نہیں کرتے جب تک دوسری جانب سے خلاف ورزی نہ ہو۔ اور یہ
خلاف ورزیاں مسلسل ہو ں تو لازمی سے بات ہے کہ دفاع ناگزیر ہو جاتا ہے۔
ہندوستان ہر مرحلے پر اپنا کیا ہوا حملہ پاکستان پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے
جو سراسر غلط اقدام ہے، سرحد پر اپنے جوانوں کو پابند کرنے کے بجائے اشتعال
انگیز بیانات دیکر دوستی کے پروان چڑھتے رشتے کو معدوم کرنا ان کی پرانی
روایت ہے۔ دونوں جانب سے کشیدگی کو کم کرنے کے سرکاری سطح پر جاری کوششوں
کے درمیان اگر سرحد پر تنازعہ پیدا کیا جاتا ہے تو یہ سرحد کے لئے انتہائی
تشویشناک ہوگا۔ پاکستانی فوج نے ایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ سرحد پار سے
بھارتی فوج گہرے کہر کا فائدہ اُٹھا کر گھنے جنگلات میںآکر ایسے اقدام کرتی
ہے جس سے صورتحال خراب ہو ۔ سرحد پر کشیدگی کو ہوا دینے کا مطلب دونوں
ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو ناکام کرنا ہے۔ اشتعال انگیزی
کے ذریعہ امن کو خطرہ پہنچانے سے دونوں جانب کا ہی نقصان ہے۔ یہ سبھی جانتے
ہیں کہ پاکستان بھی نیو کلیئر طاقت کا حامل ملک ہے اس لئے اقوامِ متحدہ کو
بھی چاہیئے کہ وہ ان اوچھے ہتھکنڈوں کو رکوائے تاکہ دوستی، محبت ، آمد و
رفت کا جو سلسلہ ہند کے ساتھ جُڑا ہوا ہے وہ سلامت رہے۔ ہو سکتا ہے کہ پاک
بھارت سرحد پر کشیدگی پیدا کرکے تمام تر توجہ اُس طرف کو مبذول کراکے دونوں
طرف کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے اگر ایسا ہے تو اس
طرف بھی دونوں ملکوں کو سوچنا چاہیئے کہ پردے کے پیچھے کون ہے؟پاک و ہند کا
پُر امن معاہدہ نافذ العمل ہے تو اس کی خلاف ورزی افسوسناک ہے بلکہ
تشویشناک بھی ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ پُر سکون طریقے سے معاملہ کو نمٹایا ہے مگر ہندوستان کو
اس نرمی کا غلط فائدہ نہیں اُٹھانا چاہیئے۔ ہندوستانی فوج کو بھی یہ سوچنا
چاہیئے کہ پاکستانی فوج پر بھی جوابی کاروائی کے لئے دباﺅ برھ جائے تو سرحد
پر صورتحال تبدیل ہو جانے میں دیر نہیں لگے گی۔ کارگل کی غلطیوں کے بعد
ہندوستانی فوج نے ہوش کے ناخن لئے تھے شاید اب یہ ناخن انہوں نے اپنا منہ
نوچ لینے کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے تو لہو کس کا بہے گا یہ غور طلب امر ہے۔
کچھ گوشے جوابی کاروائی کرنے پر زور دے رہے ہیں تو کچھ گوشے ویزے بند کر
دینے کی تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں نے بڑی مشکلوں سے اپنی تلخیوں
کو دور کرکے دوبارہ دوستی کو مضبوط بنایا ہے۔ حال ہی میں ویزا قواعد میں
نرمی بھی کی گئی ہے۔ اس سے بہتری کے مزید امکانات بڑھ گئے ہیں ایسے میں
سرحدی کشیدگی کو ہوا دی جائے تو یہ دونوں ملکوں کے لئے خطرناک ہوگا۔ دونوں
ملکوں کو دوستی کے معاملے میں تلخیوں کو حائل نہیں ہونے دینا چاہیئے۔
انڈیا کے لئے ویسے بھی ہر دور میں ایک مقولہ مشہور رہا ہے کہ بغل میں چھری
اور منہ میں رام رام ، ویسے تو یہ محاورہ اب گئے وقتوں کی بات ہوچکی اور اب
تو انڈیا سے جو دوستی کے ناطے جُڑے ہیں اُسے نبھانے میں شاید انڈیا ہی کہیں
کوئی کوتاہی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ ہندوستان کے بارے میں کچھ لوگوں کی خوش
فہمیاں اپنی جگہ مگر آج بھی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ہندوستان
ہمارے خلاف سازشوں میں مصروفِ عمل لگتا ہے ۔ ہم نے تو پہلے ہی انڈیا سے
دوستی یہاں تک نبھائی ہے کہ ان کا کلچر ہمارے یہاں پروان چڑھ چکا ہے ، ان
کی فلمیں غالباً ہر چینل سے چلایا جاتا ہے، اکثر و بیشتر ایسے جملے سننے کو
ملتے ہیں کہ دل اور دماغ دونوں ہی حیران ہو جاتا ہے کہ کیا ہم پاکستان میں
ہیں یا انڈیا میں آگئے ہیں۔ ایک شادی ہال میں کوئی خاتون دوسری خاتون سے یہ
کہتے ہوئے پائی گئیں کہ ہال کتنا ”سُندر“ لگ رہا ہے، ویسے بھی یہ بات یقین
سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے یہاں آپا اور باجی کہے جانے کے باوجود اب ”
دیدی“ بھی کہا جانے لگا ہے، پتہ نہیں کب ہمارے یہاں میاں بیوی کو” پتی
پتنی“بولنے کا رواج عام ہو جائے، اس دن سے ڈرتے رہنے کی ضرورت ہے، ہاں! تو
موضوع بھارت سے دوستی کے حوالے سے ہو رہی تھی، تو بھارت اور کیسی دوستی ہم
سے چاہتا ہے کیا اوپر تحریر کئے گئے حالات و واقعات بھارت سے دوستی نبھانے
کے لئے کافی نہیں ہیں۔مطلب یہ کہ اب بھارت کے پاس Do-Moreکہنے کی گنجائش
نہیں ہے بلکہ اب ہم کہہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہند وستان Do-Moreتاکہ
یہ دوستی وجہ تنازعہ نہ بن سکے۔
جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھارت اور ان کے لیڈر اپنا دفاع کرنے پر آتے
ہیں تو ذرہ برابر بھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم پڑوسی ملک کے لوگوں پر جملے بازی
کریں گے تو دوستی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وہاں جو بھی پارٹی اقتدار کا تاج
سر پہ سجاتی ہے تو وہاں یہ نعرہ بھی لگا کر ہی اوپر تک آتی ہے کہ پڑوسی ملک
سے دوستی کا رشتہ مضبوط کیا جائے گا مگر جب تاج سر پر سج جاتا ہے تو پھر سے
وہی نفرت کی بیج بونے کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔ ذرا سچے دل اور
ایمانداری سے سوچیئے تو محسوس ہوگا کہ واقعتا وہاں ایسا ہی جیسا کہ تحریر
کیا گیا ہے۔ ہم نے تو ہر دور میں دوستی کا رشتہ مضبوط کرنا چاہا ہے اس کی
زندہ مثال یہ ہے کہ ہمارے صدر صاحب بظاہر تو درگاہ خواجہ معین الدین چشتی
اجمیری پر گئے تھے مگر دوستی کا بیج بھی انہیں دے آئے اور ان کے سرکاری
مہمان نوازی کو بھی قبول کر لیا، کیا ہمارے صدر صاحب نے انڈیا کے وزیرِاعظم
کو پاکستان آنے کی دعوت نہیں دی، بالکل دی مگر موصوف ابھی تک پاکستان کے
دورے پر نہیں آئے، اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ اوپری دل کے ساتھ دوستی
کرتے ہیں اور اندر سے دشمنی کا تانا بانا بُنتے رہتے ہیں۔ اگر میری بات میں
صداقت نہیں تو آیئے پاکستان کے دورے پر تاکہ دوستی کا رشتہ دونوں جانب سے
مضبوط تصور کیا جا سکے۔
اگر ایک دوسرے کو طاقتوریا کمزور تصور کرنے کا عمل جاری رہا تو دوستی کا
رشتہ مضبوط ہونے کے بجائے اس میں دراڑیں پڑنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے، دنیا
میں ترقی یافتہ کہلانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے خیالات بھی
ترقی یافتہ ہوں۔جو سامنے کہا جائے بعد میں بھی اسی پر قائم و دائم رہا جائے
۔اور دوستی جس جذبے کا نام ہے اس پر مکمل گرفت رکھا جائے تاکہ دراڑیں ڈالنے
والے بھی ایک بار سوچنے پر مجبور ہو جائیں۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے اور
افسوس بھی ہوتا ہے کہ وہاں کا حکمران طبقہ ان اخلاقی اقدار سے شاید ابھی تک
محروم ہیں۔ |