پاکستان کی موجودہ نوجوان نسل
تیسری نوجوان نسل ہے جو کہ پاکستان کو بدلنے کا خواب آنکھوں میں جگائے اسے
حقیقی تبدیلی کی طرف لے جانے کا ارادہ کیے ہوئے ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ آج
جب ہماری تیسری نسل آچکی ہے اور ہم ان تلخ تجربات سے نہیں نکل سکے جو کہ
پاکستان کے قیام کے وقت سے ہمارے ساتھ ایسے چپکے ہوئے ہیں کہ جیسے ہمیں ان
سے چھٹکارہ پانے کا کوئی طریقہ ہی نہ آتا ہو وہ کیا وجوہا ت ہیں کہ پاکستان
کی نوجوان نسلیں اس کوچاہنے کے باوجود تبدیل نہ کر سکی کیا ہمارے اندر
مضبوط ارادے اور سچے جزبات کی کمی ہے؟ کیا ہم دنیا کی دوسری اقوام سے کم
ہیں؟ کیا ہمارے ہاں علم و ہنر کی کمی ہے ؟یا ہماری لیڈر شب میں وہ سچا جزبہ
نہیں ہے کہ جس کی بدولت ہم باقی اقوام عالم سے اس معاملے میں بہت پیچھے ہیں
دنیاکہ بیشتر ممالک جو ہم سے بعد میں آزاد ہوئے آج سائنس و ٹیکنالوجی میں
ہم سے بہت آگے ہیں ہم نے ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کے بجائے اپنے لئے کام
کیا مگر ان لوگوں نے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے کام کرتے ہوئے اپنے آپ
کو مضبوط و منظم کیا جاپان جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹوٹ کر بکھرنے کے
قریب تا آج دنیا میں اپنے مضبوط معاشی نظام کی وجہ سے مانا اور جاناجاتا ہے
پاکستان کی سرزمین اگر دیگر ممالک سے زیادہ زرخیز نہیں تو کم بھی نہیں ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی آئے جو ہمیں لیڈکرئے جس کا مرنا جینا پاکستان
اور یہاں بسنے والے عوام، کے لیے ہو جو ہمارے وسائل کو منظم انداز سے
استعمال کرتے ہوئے ہمیں ترقی کی طرف لے کر جائے جس کی سوچ میں پاکستان اور
یہاں کے عوام ہوں نہ کے اپنے اثاثے بنانے کی طرف توجہ اس کے لئے جو بھی
اسنقلابی شخصیات پاکستان کے نئے آنے والے الیکشن میں وارد ہونے کے بارے میں
سوچ رہی ہیں ان میں سے بیشتر لوگ وہ ہیں جو پرانے چہروں کے ساتھ نئے وعدے
لیکر عوام میں آ رہے ہیں جن کا ویژن وہی ہے جو یہاں کی تین پشتیں ہمیں دینا
چاہتی تھیں لیکن ان کے نعرے نعرے ہی رہے اور ان کے وعدے کھبی وفا نہ ہو سکے
جو ہر بار ایک نئے پاکستان کی ضرورت پر زور تو دیتی رہی مگر عملی طور پر
انھوں نے ماسوائے مایوسیوں کے کچھ بھی نہیں دیا لیکن ہمیں نئے پاکستان کی
ضرورت ہر گز نہیں ہے ہمیں ضروت ہے قائد اعظم کے پاکستان کی جو ہم نے حاصل
کیا ہوا ہے بس اس کی تعمیر کی ضروت ہے اب کی بار وہ قوتیں پھر عوام میں ہیں
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خوشنماء نعروں سے عوام کو خوش کر رہے ہیں اور کچھ
لوگ ایسے ہیں جنہوں نے وقتی طور پر اپنی عوامی کامیابی کو دیکھتے ہوئے بہت
سے ایسے لوگوں کو اپنی جماعتوں میں شامل کر لیا ہے جو عوام کے آزمائے ہوئے
ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ان سب باتوں اور
اقدامات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اب کی بار کا الیکشن پاکستان کی
تاریخ کا اہم ترین الیکشن ہو گا جس میں تمام سیاسی قوتیں اپنی برتری کو
ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گی اور یہ الیکشن بہت پر خطر نظر
آتے ہیں مگر اب جو فیصلہ الیکشن کمیشن کی طرف سے آیا ہے کہ ان الیکشن میں
فوج کی خدمات خاصل کی جائیں گی وہ عوام کے لئے کافی حوصلہ افزاء ہیں اب کی
بار بہت کچھ سننے کو مل رہا ہے کچھ سیاسی جماعتیں چہرے نہیں نظام بدلو: کچھ
طاقتیں سیاست نہیں ریاست بچاؤ: کچھ طاقتیں روٹی کپڑا مکان: کی بات کر رہی
ہیں کچھ طاقتیں پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے اپنے ااپ کو پیش کر رہی ہیں
جو کہ صرف اور صرف خوشنماء نعروں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ سب وہ
طاقتیں ہیں جنھوں نے پاکستان کی سیاست میں کسی نہ کسی صورت میں وقت گزارا
ہے اور اس وقت جب یہ پاور میں تھی اپنے خوشنماء نعروں کو عملی سیاست میں
مکمل نہیں کر سکیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اب وہ جب ان کے پاس اقتدار نہیں
ہے اس کو پورا کر اسکتی ہیں یہ بات اب عوام خواب اچھی طرح جانتی ہیں اور
عوام کے جاننے کی دو بڑی وجوہات ہیں جن میں پہلی وجہ آزاد میڈیا ہے جس نے
عوام کو اتنا باشعور کر دیا ہے کہ ایک بڑے آدمی سے لیکر چھوٹے ان پڑھ
دیہاتی تک کو پتا ہے کہ پاکستان کی سیاست کہاں جا رہی ہے اور کون سا لیڈر
اس وقت عوام میں کتنا مقبول ہے اور اس کو پاکستانیوں کو ان مسائل سے نکالنے
کی ہمت ہے بھی یا وہ صرف نعروں سے کام چلا رہے ہیں اس لئے اب کی بار الیکشن
کے نتائج بہت سے لوگوں کے لئے غیر متوقع ہوں گے سیاسی میدان میں اس وقت بہت
سے کھلاڑی اپنے اپنے ویژن کے ساتھ میدان عمل میں ہیں جن میں حکمران جماعت
پاکستان پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ (ق)(ن)تحریک انصاف مذہبی جماعتیں جماعت
اسلامی ، جمیعت علمائے اسلام م سنی تحریک ، متحدہ قومی موومنٹ ،اے این پی
اور بعض چھوٹی جماعتیں شامل ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں
اقتدار میں ہونے کے باوجود پاکستان کو تبدیل کرنے کے نعرے لگا رہی ہیں لیکن
عملی طور پر جبکہ وہ پاور میں بھی ہیں ایسا کچھ بھی کرنے سے قا صر ہیں جس
کی وجہ سے عوام ان کی باتوں کو تسلیم نہیں کر رہے کیونکہ گزشتہ پینسٹھ
سالوں سے ان کے ساتھ کیے جانے والے وعدے اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ ہر بار
دھوکہ عوام کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے ا لیکن اب کی بار عوام کو امید ہے کہ وہ
جن لوگوں کو منتخب کریں گے وہ ضرور پاکستان کی تعمیر کریں گئے اس کے لئے
بہت سے رہنماؤں کے نام لیے جا سکتے ہیں مگر ان شخصیات کا زیادہ حق بنتا ہے
جنھوں نے پاکستان کے مشکل اوقات میں اس کے لئے قربانیاں دی ہیں اوراگر تمام
لیڈران کو ایک لیڈنگ کسوٹی پر جانچا جائے تو ڈاکٹر عبدالقدیر سے بہتر شخصیت
نظر نہیں آتی وہ پاکستان کے لئے ہر قربانی دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں اور
اگر ڈاکٹر صاحب ہمارے جیسی ٹوٹی پھوٹی قوم کولیڈ کریں تو یقینا ہم ایک نئے
پاکستان کی نہیں بلکہ قائد اعظم کے پاکستان کی تعمیر نو کر سکتے ہیں جو
اکیسویں صدی کے اصولوں اور اس کے معیار کے عین مطابق ہو گی اس لئے ضرورت اس
امر کی ہے کہ ان لوگوں کو منتخب کیا جائے جن میں پاکستان سے اور عوام سے
محبت کا جزبہ ہو۔ |