کیا پھر بکنے کا وقت آگیا ہے۔۔؟

پنڈت کلہن کی نو شتہ تا ریخ کشمیر تقریباََ آٹھ سو سال پہلے منظر عام پر آئی جس میں پا نچ ہزار سال پہلے کی تا ریخ را جگا ن کشمیر کو علمی اور تحقیقی اسلاب کے تحت قلمبند کیا گیا ۔پنڈت کلہن کی را ج ترنگنی سنسکرت زبا ن میں لکھی جا نے والی دنیا کی قدیم ترین اور مستند تا ریخ ہے جس میں راجگا ن کشمیر کے بائیس خاندا نوں کے عروج وزوال کی وجو ہا ت اور راج گیری کے مسائل کے علا وہ عوام الناس کی معاشی،معاشرتی اور مذہبی حالت پر سیر حا صل بحث کی گئی ہے۔پنڈت کلہن بنیا دی طور پر شا عر تھے اور اسی طبع تسلیم کے تحت واقعات کو گہرا ئی سے دیکھنے اور پر کھنے کی صلا حیت رکھتے ۔تا ریخی حوا لوں اور واقعات کے تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو جس طرح کی رعونت آج کے دور میں کشمیری عوام کے سر پر مسلط ہے اسے کسی بھی صورت قیا دت نہیں کہا جا سکتا۔ابن خلدون کے مطا بق قومو ں کی زندگی تین ادوار پر مشتمل ہو تی ہے۔اول بد وی دور جس میں قبیلے ، برا دریا ں اور گروہ آپس میں جنگ و جدل اور با ہمی چپقلش میں مبتلا ہو تے ہیں۔ بستیا ں اُجڑتی اور بنتی ہیں اور ہر طرف بدامنی ،بے چینی اور بد عملی کی ہوائیں صرصرا تی ہیں۔با ہمی کشت و خون کا سسلہ تب ہی تھمتا ہے جب طا قتور قبا ئل اور کمزور قبا ئل کا خاتمہ کر کے ایک وسیع علا قے پر قابض ہو جا تے ہیں۔

فلسفے اور تا ریخ کے بادشاہ کے مطا بق دوسرا دور غزوی کہلا تا ہے جب قبا ئل قوم کی صو رت میں دیگر علا قوں کو بھی اپنی قلمرو میں شا مل کر کے ریا ست کی بنیا د رکھتے ہیں اور تیسرے دور جیسے خضری دور کہا گیا ہے میں دا خل ہو کر ایک آئین اور قا نون کے تحت نظا م ریا ست چلا تے ہیں ۔ابن خلدون کے مطا بق اقوام کے زوال کی بھی تین ہی وجو ہا ت ہیں ۔اول ضعف اشرا ف ،دوئم سپاہ کا تشدد اور سو ئم عیش پسندی۔

اگرہم پنڈت کلہن کی تاریخ کے حوا لے سے دیکھیں تو قد یم دور جسکا دور انیہ پا نچ ہزار سال بیا ن کیا گیا ہے سے لیکر یو سف شا ہ چک کے زوال تک کشمیر کئی با ر بروی، غزوی اور خضری ادوار سے گزرا مگر کسی بھی دور میں بیرونی تسلط کے زیر نگیں نہ ہوا ۔ان ادوار میں بھی کسی نہ کسی صورت اقتدا ر کشمیری حکمرا نوں اور خا ندا نوں کے ہا تھ رہا جبکہ بیرونی پو رش ویلغار کا مقابلہ سب قبا ئل نے مل کیا اور کبھی بھی ایسی سازش کو پنپنے نہ دیا جو اغیا ر کو عوام پر مسلط ہو نے میں معاون ومد دگا ر بن سکے۔

چک خا ندان کی بد اعما لیوں اور فرقہ پر ستا نہ روش نے نہ صرف اس خا ندا ن کے اقتدا ر کا خا تمہ کر دیا بلکہ تا ریخ کا رُخ بھی بدل دیا ۔یو سف شا ہ چک کے اقتدا ر کے خا تمے کے سا تھ ہی کشمیر کی غلا می کا آغا ز ہوا جو کچھ صدیا ں گزرنے کے با وجو د اختتا م پذیر نہیں ہو سکا ۔مغلو ں کے بعد افغا ن ، سکھ،ڈوگرے اور پھر نا م نہا د حکمرا نیا ں جنھیں بھا رت اور پا کستا ن نے کسی نہ کسی صورت آذاد اور غلا م کشمیر نا می دو ٹکڑوں پرمسلط کیے رکھا تا کہ آزادی بزنس کے نا م پر ہر دو جا نب کشمیریو ں کو نفسیا تی طو ر پر غلا می کا عا دی اور شخصی لحا ظ سے اقتدا ر کا ایندھن بنا کر ان کی حیثیت کو ختم کر دیا جا ئے۔بھا رتی اور پا کستا نی بیو رو کریسی اور جا گیر دا را نہ سوچ کی حا مل سیا سی جنتا اس عمل میں یکساں کا میا ب رہی اور ہر دو جا نب عوامی سو چوں اور امنگو ں کو زنگ آلو د کرنے کے مشن کو آگے بڑ ھا تی رہی۔

مقبو ضہ کشمیر میں بھا رتی حکمرا ن چا نکیا ئی سیا ست اور فلسفے کو کشمیری مسلما نوں پر مسلط کرنے میں کامیا ب ہو ئے اور ہر دور میں ایک نیا مہرہ سا منے لا کر غلا می کے کھیل جمہو ری اندا ز میں پیش کرتے رہے۔بھا رتی سیا سی دا نشوروں نے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرا ر دیا چونکہ وہ جا نتے تھے کہ مستقبل میں ہما لیہ اور قرا قرم کی چو ٹیو ں سے بہنے والا پا نی ایک ارب سے ذیا دہ بھا رتی با شندوں کے حلق تر کر نے کا واحد وسیلہ بننے گا ۔بھارتی دانشور جا نتے تھے کہ پا نی ہی زندگی اور بقا ہے اور یہ زندگی کشمیر سے بہنے والے دریاؤں کے قطروں میں پنہا ہے۔بھا رت نے ایک جا نب کشمیریو ں کے خون سے ہو لی کے تہوار کو سرخی دی اور دو سری جا نب کبھی شیخ عبداﷲ اور اس کے خا ندا ن اور کبھی بخشی غلا م محمد ،ساگر اور مفتی خا ندانوں کے ذریعے اس ہو لی کو جا ئیز اور جمہو ری کہلوا نے کا اہتما م کیا ۔ایل او سی ) (loc کے دوسری جا نب آذادکشمیر والو ں کو پا کستا نی بیو رو کریٹوں ،نو دو لتیو ں ،جا گیردا روں ،سمگلروں،ڈا کوؤں اور چو ر سیاستدانوں نے قا ئداعظم کا یہ قو ل کہ کشمیر ہما ری شہ رُگ ہے کو بھو ل جا نے پر مجبو ر کئے رکھا اور آزا دی کے بیس کیمپ کو آزادی بزنس کیمپ میں بدلنے کا انمول گر سکھا یا ۔شیخ ،بخشی،ساگراور مفتی خا ندا نوں کی طرح آذادکشمیر والو ں کو بھی کریلدی،تو لی چیڑ اور پھر کچھ دیر بعد کھڑوی خا ندا نوں کی قیا دت مہیا کی گئی تاکہ آذاد کشمیر کے عوام برا دریوں ،قبیلو ں اور مسلکی مصلحتو ں کا شکا ر ہو کر مسلط کردہ خا ندا نوں کی غلا می کو جمہو ریت تصور کر تے ہوئے ان کے گھرا نوں کی چا کری پر فخر کریں۔

مفا دا ت کی سیا ست سے جمہوریت تلا شنا ایسے ہی جیسے ہتھنی کا بکری کا بچہ پیدا کرنا ۔دُنیا میں کہیں اور ہو نہ ہو آذاد کشمیر میں یہ سب ہوتا ہے چونکہ یہا ں ہتھنیا ں افریقہ کے جنگلو ں سے نہیں بلکہ انگلینڈکے سُپر سٹوروں سے امپورٹ کروائی جا تی ہیں۔یہ ہتھنیاں غیرت پروف مٹیریل سے تیا ر ہوتی ہیں اور بلیک لیبل پیتی ہیں۔خصوصیت ان کی یہ ہے کہ جس چیز کا بچہ ان کے پیٹ میں ڈالو اُسے بروقت پیدا کر دیتی ہیں بشرطیکہ اُن کے پیٹ میں لگے ایک پا رٹی فنڈ با کس میں آپ پو نڈوں اور ڈالروں کے بنڈل ڈالنے کا طریقہ جا نتے ہو ں ۔جنا ب طا ہر القادری نے فرما یا ہے۔کہ جمہو ریت حکو مت بدلنے کا نا م نہیں بلکہ حکمرا نوں کا مزاج بدلنے کا نا م ہے۔ڈاکٹر صاحب کے اس فر ما ن پر تبصرہ کرتے ہو ئے ڈا کٹر اجمل نیا زی لکھتے ہیں کہ مزا ج بدلنے کا اس ملک میں رواج نہیں چو نکہ الیکشنو ں سے صرف حکمرا ن خاندا ن بدا لتے ہیں ۔بھٹو،میا ں ،چو ہدری ہمرا ہ الطا ف بھا ئی ،مو لویز اینڈ مو لینا ز کے مزا جوں میں مفا دا ت کے لحاظ سے یکسا نیت ہی نہیں بلکہ وہ اکثر ایک دو سرے کا مزا ج بھی اپنا لیتے ہیں ۔جہا ں تک کشمیر کا تعلق ہے سبھی بیما ر ذہنو ں کو کشمیر ی عوام اور مسئلہ کشمیر سے الرجی ہے اور ملکر اس کی دوا تلا شنے کی جستجو میں ہیں ۔

عمرا ن خا ن سے لیکر مو لا نہ فضل الرحمٰن تک سبھی سیا ست دا نو ں نے بھا رت کی کشمیر پر با لا دستی کو قبو ل کر لیا ہے اور وہ جنا ب زردا ری کی قیا دت اور کشمیر کا جنا زہ پڑ ھنے پر تیا ر ہیں ۔حا لیہ دنو ں میں بیرسٹر سلطا ن محمود چو ہدری کا دورہ مقبو ضہ کشمیر اور بعد میں سردا ر عتیق ،سردار یعقوب اور بیرسٹر سلطان کی سردا ر سکندر حیا ت سے ملا قا ت نے کئی شکو ک کو جنم دیا ہے جنکی کڑیا ں تقسیم کشمیر کے کسی خا موش فا رمو لے پر متفق ہو نے پر ملتی ہیں ۔کھڑوی اور چیڑوی خا ندا نوں کی سیا ست کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر کریلو ں خاندان کا تقسیم کشمیر فا رمو لے پر متفق ہو نا اور اہل کشمیر کو بیک ڈور ڈپلو میسی کے ڈیلروں کے ہا تھو ں بیچنا ایک نیا پن اور آذادی بزنس کا نیا روپ ہے۔جہا ں تک آذاد کشمیر کے عوام کا تعلق ہے تو وہ برا دری ازم کے نشے میں مویشی اور گھا س چو روں کو بھی وزیراعظم یا صدر بنا نے سے گریز نہ کرینگے ۔ابن خلدون کے فلسفہ تا ریخ کے مطا بق کشمیری پچھلے ستر(70)سالو ں سے بدوی دورمیں ہی جی رہے ہیں ۔کشمیر ی قوم کی خاص کر اہلیان آذاد کشمیر کی بد قسمتی کہ سردا ر ابرا ہیم خا ن،چو ہدری غلا م عبا س اور جنا ب کے ایچ خورشید جیسی مدبر،حوصلہ مند اور با شعو ر قیا دت ان کی رہنما ئی نہ کر سکیں اور سردا ر عبدالقیو م اپنے بیٹے کی نفسیات سمھبنے سے عا ری رہے اور اسکی خوا ہشیا ت کے آگے سر تسلیم خم کرلیا ۔اگر سردا ر سکندر نے بھی خفیہ ملا قا تو ں کا سلسلہ جا ری رکھا اور سردا ر عبدالقیو م والی روش اختیا ر کر لی تو ان کے بیٹوں پر سردا ر عتیق ہی نہیں بلکہ کو ئی تیسرے درجے کا ٹن سیا ستدا ن ہی ہا تھ صاف کر لے گا ۔سردا ر سکندر حیا ت کو چا ہیئے کہ وہ ان ملا قا تو ں سے عوام کو با خبر کریں ورنہ یہ تصور کر لیا جا ئے گا کہ کھڑوی اور چیڑوی گھرا نوں کے سا تھ سا تھ کر یلو ں خا ندا ن بھی بیک ڈور ڈیلروں کے ہا تھوں بک چکا ہے اور اہلیا ن کشمیر کو ایک با ر پھر بیچنے کا وقت آگیا ہے۔

ابن خلدون کے بیا ن کردہ اسبا ب زوال اقوام پر نظر ڈا لی جا ئے تو آذادکشمیر کی اشرا فیہ کھٹروی ، چیڑوی اور کریلوں خا ندا نوں کے علا وہ انسانی سمگلروں ، بدعنوا نوں ،بیو پا ریو ں ،ٹھیکیدا روں،لٹیروں ، لکڑاسمگلروں ،منی چینجروں ،منی لا نڈرو ں اور اب پا ؤنڈ اور ڈا لرما فیا پر مشتمل ہے۔جس معا شرے اور ریا ست میں اشرافیہ کا فقدا ن ہو وہا ں زوا ل کیسا ؟یو ں دیکھا جا ئے تو آزاد کشمیر ایک انو کھی ریا ست ہے جو فلسفہ تا ریخ وریا ست کے با با اول ابن خلدون کی سوچ سے بھی با ہر ہے۔آذاد کشمیر میں سپا ہ کی جگہ سیاستدا نو ں کے کزن پٹوا ریو ں اور تھا نیدا روں نے لے رکھی ہے۔ جسکا صدر (انور) پا س کھڑے ہو کر تنقید کرنیوا لے صحا فیو ں پر تشد د کروا تا ہے۔اس ریا ست کے دو سرے حصے یعنی مقبو ضہ کشمیر میں بھارتی سپا ہ نے جنرل انور کا رو پ دھا ر رکھا ہے اور اھلیا ن کشمیر پر مظالم کے پہا ڑ ٹو ٹ رہے ہیں ۔جب کہ امن کی آشا کے گن گانے والے اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے والے حالیہ دنوں میں کرکٹ ڈپلومیسی کے بعد بھارت کی ہٹ دھرمی اور سرحدوں پر ننگی جارحیت کو بھی ملحوظ خاطر لانے کی جسرت کریں گے ؟ مگر نہیں کیوں کہ اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتی جو خود بکنے اور لٹنے کی منتظر ہو ،اور جو خود کو بیوپاریوں کے سپرد کر دے۔ ابن خلدون کی بیا ن کردہ تیسری وجہ عیش پسندی میں تو آذاد کشمیر کے نا م نہا د سیا ستدان اور ٹن اشرا فیہ نے قا بل رشک تر قی کی ہے اور کرپشن کی کما ئی پر عیش پسندی کے نئے اور انو کھے ریکا رڈ قا ئم کئیے ہیں اور اب اس عیا شی کو بحال رکھنے کے لئے اھل کشمیر کو بیچنے کا ایک نیا منصوبہ تیا ر کیا جا رہا ہے۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100645 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.