یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق

ہندوستان کے مسلمانوں اور مسلم قیادت کا یہ المیہ رہا ہے کہ رہا ہے کہ ان میں کبھی بھی ہم آہنگی نہیں رہی کبھی مسلمان عوام قیادت کا ساتھ نہ دے سکے تو کبھی قیادت عوام کو مطمئن نہ کرسکی۔ عوام اور قیادت کو ایک دوسرے سے دور رکھنے میں ہمیشہ ایک چھوٹا ساگر وہ اپنے مفادات کی تکمیل کی خاطر ہمیشہ اہم لیکن مفسدانہ رول ادا کرتا رہا ہے سرسید سے لیکر اویسی برادران تک یہ فتنہ پروری تسلسل سے جاری ہے۔ سرسید کی تحریک (جو تعلیمی کے علاوہ سماجی اور سیاسی بھی تھی) کی یہ کہہ کر مخالفت کی گئی تھی کہ سرسید مسلمانوں کو انگریزی تعلیم دلاکر بی اے و ایم اے کرواکے برطانوی انتظامیہ کے لیے کلرک اور چھوٹے افسر تیار کروارہے ہیں حالانکہ سرسید نے مسلمانوں کو اپنی ملی شناخت برقرار رکھنے اور سیاسی شعور میں عدم پختگی اور ناتجربہ کاری کے باعث سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ (1880ء)میں قائم شدہ انڈین نیشنل کانگریس نے قوم پرستی کا چکر چلاکر مسلمانوں کے حقوق اور ان کے لیے مراعات وغیرہ کے مسائل کو قابل اعتناء نہیں سمجھتی تھی ۔ سرسید کی تعلیمی تحریک کے خلاف اتنا شور اٹھاکہ جیسے سرسید قوم کو بے دین یا عیسائی بنارہے تھے۔ سرسید کے بعد اپنی قومی و ملی شناخت کو برقرار رکھنے کے مسلمانوں کے جذبے کو ’’دوقومی‘‘ نظریہ کہہ کر مطعون کیا گیا۔ مسلمانوں کے مسائل سے بے اعتنائی کرنے والے قوم پرست کہلانے والے مسلمان قائدین کی وجہ سے ہی مسلم لیگ بنی اور بات مطالبہ پاکستان تک پہنچی ۔ آزادی یا قیام پاکستان کے بعد ہندوستانی علاقوں کے مسلم لیگی قائدین اپنے علاقہ کے مسلمانوں کو چھوڑ کر پاکستان سدھارے اور ہندوستان میں رہ جانانے والے کانگریسی مسلمان قائدین کو نہ پہلے کبھی مسلم مسائل سے دلچسپی تھی نہ آزادی کے بعد رہی اگر رہی بھی تو اس قدر کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ کانگریس کو دلانے کے لئے مسلمانوں کے حق میں زبانی جمع خرچ کرلیا جائے۔

مجلسی قائدین اکبر اویسی کے مبینہ بیانات کا ان دنوں بڑا چرچا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اکبر الدین نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا ہے اس تعلق سے بھی عام طور پر کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمان قائدین اور مسلم اخبارات بھی محض سنی سنائی (خاص طور پر U-Tubeیو ٹیوب) پر اکبر پر اپنے بیانات، مضامین، اداریوں اور کالموں کے ذریعہ اکبر الدین پر تنقید کی بوچھاڑ کررہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اس میڈیا پر انحصار کررہے ہیں جس پر سنگھ پریوار کو کنٹرول ہے اور یہ خاصی حدتک از خو د فرقہ پرست یا اپنے قارئین اور ناظرین میں ہیجان اور سنسنی پیدا کرکے اپنی مقبولیت کا خواہاں ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی خالی از دلچسپی نہیں ہے کہ اس سارے فساد کی جڑ سنگھ پریوار اور حکومت کی تائید سے دستبرداری پر مجلس اتحادالمسلمین (ایم آئی ایم) سے نالاں اور ناراض آندھراپردیش کی حکومت بھی ہے۔ لیکن اکبر کے خلاف اصل کارروائی یا فتنہ پیدا کرنے والا مسلمانوں کا ایک چھوٹا ساگروہ ہے جس کا ایک نکاتی ایجنڈا صرف اور صرف ایم آئی ایم کی مخالفت اور اس کو بدنام کرنے کی مساعی ہے۔ اسی گروہ نے سب سے پہلے اکبر کے خلاف یہ زبردست پروپگنڈہ کیا کہ اکبر الدین کی تقریریں ہندوؤں کے خلاف نفرت پھیلانے والی، فرقہ پرستی کو بڑھانے والی رہی تھیں۔ ہندو بڑے ناراض اور مشتعل اور مسلمان فکر مند ہیں وغیرہ وغیرہ یہ گروہ کسی بھی طرح ایم آئی ایم کا اثر مسلمانوں کی بھاری اکثریت بلکہ سنجیدہ اور سمجھ دار ہندوؤں بلکہ دلتوں پر ختم نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی انتخابی جنگ جیت سکتا ہے۔ اسی لیے اس گروہ نے ایسا طرز عمل اختیار کیا ہے کہ ان کے طرز عمل کو نہ صرف حیدرآباد بلکہ حیدرآباد کے باہر بھی حقارت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اس گروہ کی قیادت اگر کوئی سیاسی لیڈر (از قسم مختار عباس نقوی) کررہا ہوتا تو غم نہ ہوتا ایک باوقار اردو روزنامہ کا ایڈیٹر ’’ماسٹر برین‘‘ بناہوا ہے۔

سنگھ پریوار نے آج تک کسی بھی انتخاب میں ایم آئی ایم کے خلاف بہت کم کامیاب رہی ہے یوں بھی ہر مسلمان جماعت سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کی ازلی دشمنی ہے اور مجلسی قیادت کی بے باکی اور مسلمانوں پر اثر و رسوخ سے ہمیشہ خائف اور خوف زدہ رہی ہے۔ بی جے پی چارمینار سے متصل چھوٹے مندر کی توسیع کرتے کرتے اسے مسلمانوں کی تاریخی عمارت چارمینار کے اندر داخل کرنا چاہتی ہے اس کا اشارہ اس سے بھی ملتا ہے کہ پروین تو گاڑیہ اور وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ د ل کے لیڈروں نے کھلم کھلا مسلمانوں کی یہ دھمکی دی ہے کہ وہ چارمینار کو ایودھیا بنادیں گے۔ ان کی دھمکیوں پر خاموشی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس ناپاک منصوبے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ مجلس اور اویسی برادارن ہی ہیں۔ اس لیے سنگھ پریوار کا نشانہ یہی رہے ہیں اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ سنگھ پریوار خاص طور پر بی جے پی کی مدد و ہمت افزائی ہی نہیں بلکہ اس کو ترغیب دینے نیز مواد فراہم کرنے کا کام بھی روزنامہ سیاست اور اس کے ایڈیٹر بڑی جانفشانی سے کرتے ہوئے مختار نقوی اور شاہنواز حسین کے ساتھ مخالف مسلم مثلث کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں اور اسد الدین اویسی سے اپنی شکست کا بدلہ رہے ہیں۔

آگے بڑھنے سے قبل ہم کو اعتراف کرنے دیں کہ اکبر الدین اویسی نے بھی بڑی بھاری غلطی کی ہے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ مہاتماگاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے ہی ہندوستان میں ہیں نہ کہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے ہندوستان اور کرن کمارریڈی کے حیدرآباد میں ہیں۔ پنڈت نہرو کے ہندوستان میں بے شک دفعہ (153A) کا بڑا زور تھا لیکن اس دفعہ کے ایسے ملزموں (ملزم کو مجرم ثابت ہی نہ ہوتے تھے) کے خلاف ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے، غداری، مجرمانہ سازش اور دیگر الزامات عائد نہیں کئے جاتے تھے جو اکبر پر عائد کئے گئے ہیں۔

اکبر الدین کی مندرجہ بالا بھول ان کو بڑی مہنگی پڑی ہے چنانچہ اس وقت ملک میں امن و قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی میں نہیں بلکہ عدالتوں میں بھی (خاص طو ر نچلی سطح پر) عدل و انصٓف کے دو معیار ہوگئے ہیں سیاست داں تو پہلے ہی اس دوہرے معیار کے شکار ہیں۔ نریندر مودی کو بہ حیثیت وزیر اعلیٰ کانگریس تقریباً نو (9) سال سے برداشت کررہی ہے۔ مودی کے خلاف منموہن سنگھ کی حکومت کچھ نہیں کرسکتی ہے تو سونیا گاندھی کے ریموٹ کنٹرول کے تابع منموہن سنگھ کرن کمارریڈی کے خلاف بھلا کیا کرسکتے ہیں؟

آج اکبر الدین اویسی جیل میں ہیں ان پر الزامات کی بوچھاڑ نہیں بلکہ بارش ہورہی ہے جبکہ کسی دوسرے شہر میں نہیں بلکہ آصف جاہوں اور قطب شاہوں کے اس شہر میں ہی انتہائی اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے باوجود پروین توگاڑیہ، سوامی کملانند بھارتی کی تقاریر پر پولیس، سیکولرازم کے دعودیدار مسلموں اور غیر مسلموں کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ توگاڑیہ اور کملا نند بھارتی کی تقاریر پر کڑی نظر رکھ کر ان کی تقاریر میں قابل اعتراض نکات نہ صرف نکال کر بلکہ ان کو بڑھا چڑھا کر ان میں نمک مرچ لگاکر بلکہ ان کو یکسر غلط معنی و مطلب کے ساتھ مشتہر کرنے ان تقاریر پر چھوٹے، جعلی، من گھڑت مطالب نکال کر پیش کرنے والا کوئی روزنامہ سیاست نہیں ہے۔ کوئی وزیر اعلیٰ اپنے انتظامیہ کو انتقامی کارروائی کرنے کے لئے کہنے والا کرن کمارریڈی نہیں ہے۔ اکبر اویسی کی بدقسمی ہے کہ ان کی جماعت نے کانگریس کی تائید سے دستبرداری اختیار کی اور اپنے مخالف اخبار کو اس کی بہتان تراشی و فتنہ پروری کی حرکات کا جواب دینے کے لیے اپنی پارٹی کے ترجمان کو استعمال نہیں کیا بلکہ ان کے مخالفوں سے تعلق رکھنے والے ان کے اپنے لوگوں پر نہ شبہ کیا اور نہ ہی کبھی گرفت کی اس طرح اپنی آستینوں میں سانپ پالتے رہے تھے۔ آج وہ اس حال میں ہیں کہ
تیر کھاکے پلٹے جو کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

توگاڑیہ نے چارمینار کو ایودھیا بنادینے کی دھمکی سوامی کملا نند بھارتی نے پولیس کی موجودگی میں فرمایا کہ ’’ہندواگر چاہیں تو مسلمانوں کو ہر مقام پر ماسکتے ہیں‘‘۔ ان دونوں کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ اور انٹر پول سے تک رجوع ہونے کی بات تو دور ہی پولیس نے اپنی طرف سے مقدمہ تک درج نہیں کیا۔

اکبر الدین اویسی کو پہلے صرف153A(فرقہ وارانہ منافرت) کے حوالے سے گرفتار کیا جانے والا تھا اور ان کی گرفتاری میں جس عجلت کا مظاہر ہ کیا گیا ہے اور جو بھونڈا طریقہ کار استعمال کیا گیا اس پر صرف دودفعات کے عائد کرنے سے پولیس کے بارے میں غلط اشارے جائیں گے اس لیے اس حقیقت کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اکبر نے اپنی تقاریر میں کچھ ایسی باتیں کہی ہیں جو ان کو کسی بھی حیثیت سے نہیں کہنا چاہئے تھا مثلاً شری رام کی پیدائش کا ذکر لیکن اس میں تحقیر، توہین جذبات کو ٹھیس پہنچانے فرقہ وارانہ نفرت بھڑکانے والے معنی نہیں نکالے جاسکتے ہیں۔ اس کو ناشائستہ طرز بیان کہا جاسکتا ہے اس کو گستاخی یا عدم احترام بھی نہیں کیا جاسکتا ہے تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ رام کے احترام کو انہوں نے خاطر خواہ طور پر ملحوظ نہیں رکھا سوال یہ ہے کہ پھر اس قدر ہنگامہ کیوں ہوا؟ اس کی وجوہات کچھ یوں ہیں۔
.1حکومت کی تائید سے دستبرداری پر سرکاری ردعمل اور سرکاری انتقام۔
.2اکبر الدین سے دشمنی نکالنے کے لیے ایک مقامی اردو روزنامہ کا اکبر کے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ اور ماحول کو اکبر کے خلاف بنانے کی مساعی کا اہتمام بلکہ مخالفوں کو مواد کی فراہمی یا Feed Backکرنا نیز ملک کے کئی اردو اخبارت نے بھی حقائق کا خاطر خواہ طور پر علم حاصل کئے بغیر خود کو پروپگنڈے کی رو میں آکر اکبر کو ملزم نہیں مجرم سمجھ لیا ہے۔
.3سنگھ پریوار کے حامی میڈیا کا مخالف اکبر پروپگنڈہ یہ بھی ممکن ہے کہ عوامی بے چینی دور کرنے کے لئے توجہ ہٹانے کے لیے حکومت نے ہی میڈیا کو استعمال کیا ہے ورنہ قومی سطح پر اہمیت دینے والی باتیں اکبر کی تقاریر تھی ہی نہیں نہ ہی وہ باتیں جوان سے غلط طور پر منسوب کی گئیں ہیں وہ اتنی اہم ہیں۔
.4پروین توگاڑیہ بابوبجرنگی اشوک سنگھل، ونے کٹیار ، ورون گاندھی ، بال ٹھاکرے راج ٹھاکرے کملانند بھارتی کی زہر افشانی کا تو عشر عشیر اکبر کے پاس نہیں ہے ۔ ان سب کا بال بیکانہ کرنا اور اکبر پر سختیوں اور مظالم کے پہاڑ توڑا جانا حکومت کے رویہ کی مظہر ہیں جس سے ملک کا سیکولرازم ، عدل انصاف، مساوات، آزادی تقریر کی باتیں مذاق من کر رہ گئی ہیں۔
.5ملک کی انتظامیہ اور پالیسی سازوں پر ’’ہندوتوا‘‘ کا اثر و رسوخ۔
.6عدلیہ کی گھٹتی ہوئی غیر جانبداری اور دباؤ کا اثر۔
.7 2014ء کے انتخابات کی قربت کے پیش نظر ہندوووٹ بینک پر اثر انداز ہونے کے حربوں میں مسلم قائدین، صحافیوں اور دانشوروں کی گرفتاری بھی شامل ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.