کہتے ہیں کہ ختم پڑھنے والے
مولوں صاحبان اپنے گھر میں ختم پڑھانے کے لیے خرچہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے
بلکہ دوسروں کے خرچے پر موجیں کرتے ہیں۔ایک اور مثال مشہور ہے کہ اگرکوئی
غریب آدمی گھر میں ختم شریف کا اہتمام کرکے مولوں صاحب کو بلانے کے لیے کہے
تومولوں پہلے پوچھتے ہیں کہ گھر میں پکا کیا ہے اگر جواب میں دال روٹی کا
کہا جائے تومولوں صاحب فوراکہتے ہیں تمہارا گھر تو بہت دور۔۔۔۔ہے ۔اگر صاحب
حیثیت آدمی کسی گاڑی سے اترتے ہی مولوی صاحب کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھما دے
اور دعا سلام کے بعد کہے کہ فلاں ،فلاں جگہ پر ختم شریف پڑھنا ہے کھانے میں
موسم کے لہاظ سے مختلف ڈشوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ذرہ جلدی آجانا کیونکہ
محفل ختم پاک میں سیاسی و غیر سیاسی نام ور شخصیات کا آنا بھی متوقہ ہے ۔یہ
سن کر مولوی صاحب فورا بولتے ہیں سر میں وقت سے پہلے ہی پہنچ جاؤں گا۔یہ
ساتھ ہی تو آپ کا دولت خانہ ہے ۔یعنی میلوں دورگھرکوبھی قریب ترین کہہ کر
غریب آدمی کی دال روٹی اور امیر آدمی کے سات رنگی کھانوں میں نمایا فرق بنا
دیتے ہیں ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شیخ السلام ڈاکٹر علامہ پروفیسر محمد
طاہرالقادری صاحب کو بھی لاہور سے اسلام آباد یہ ساتھ والا گھر ہی تو نظر
نہیں آرہا؟شیخ السلام پر کئی اعتراض ہو رہے ہیں ۔مثلا میاں محمد نوازشریف
کے خیال میں علامہ صاحب کواپنے نام کے ساتھ شیخ السلام نہیں لکھنا چاہیے ۔کچھ
اور لوگوں کے خیال میں ان کو اپنے نام کے ساتھ پروفیسر بھی نہیں لکھنا
چاہیے کیونکہ وہ صرف لیکچرار ہیں۔یعنی جیسے ایلوپیتھک ڈاکٹرزصاحبان
ہومیوپیتھک ڈاکٹرزصاحبان کو ڈاکٹر نہیں مانتے۔بہرحال اعتراضات کرنے والوں
کو بھی سوچ لینا چاہیے کہ کم از کم علامہ صاحب جعلی ڈگریوں والے سیاست
دانوں کی لسٹ میں تو نہیں آتے؟وزیرداخلہ رحمٰن ملک جن کے پاس وزات نجومیات
کی بھی اضافی ذمہ داریاں ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ14جنوری کے لانگ مارچ میں خودکش
حملوں کا خطرہ ہے لہٰذا لانگ مارچ کی کال ختم کردی جائے تاکہ بہت سی بے
گناہ جانیں ضائع نہ ہو جائیں۔اسلام آباد میں بہت سے سانپوں کی یلغار کا بھی
ڈراوا دیا جارہا ہے ۔لیکن اُدھر مولانہ صاحب ان سانپوں کا مقابلہ کرنے کے
لیے اپنے ساتھ تربیت یافتہ نیولوں کی ٹیم کو بھی اس لانگ مارچ کا حصہ بنانے
کے لیے تیار ہیںْ۔جبکہ وزیر اعطلات و نشریات کے قمرو زمان کائرہ نے کہا ہے
کہ لانگ مارچ کے شرکاء اپنے ساتھ لوٹے ضرور لائیں۔ان کی حکومت میں آج کل
لوٹوں کی گنجائش نہیں ہے ۔قارئین ایک حدیث میں ہے کہ جس نے ایک انسان کی
جان بچائی اس نے پوری انسانیت بچا لی۔اب دیکھا جائے تو ایک طرف علامہ صاحب
بضد ہیں کہ لانگ مارچ ضرور کرنا ہے ۔تودوسری طرف رحٰمن ملک کہتے ہیں کہ
لانگ مارچ میں خودکش حملوں کاخطرہ ہے ۔کاش ۔رحٰمن ملک صاحب شہید جمہوریت
محترمہ بے نظیر بھٹوکولیاقت باغ رولپنڈی میں جلسہ عام کرنے سے روک لیتے
دارحکومت کی پولیس اور مختلف حفاظتی ادارے اس لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے
لیے ڈانگ (لاٹھی) کا بھی استعمال کرسکتے ہیں۔لانگ مارچ کو اسلام آباد سے
دور رکھنے کے لیے خون خار کتے بھی استعمال ہوسکتے ہیں ۔پولیس کو آنسوگیس کے
شیل پھینکنے کے لیے بندوقیں الرٹ رکھنے کی ہدایات بھی کردی گیئں ہیں اسلام
آباد انتظامیہ اور محافظوں کو کیل کانٹوں سے لیس کردیا گیا ہے۔اگر یہ لانگ
مارچ ڈانگ مارچ کی شکل اختیار کرگیااور خُدانخواستہ کوئی خود کش دھماکہ بھی
ہوگیاتو’’جنوری ‘‘کا مارچ‘‘سرد موسم میں سیاسی ٹمپریچربھی بڑھا سکتا ہے۔اور
لاہور میں اربوں روپے کی کثیر رقم ضائع ہوسکتی ہے۔کیونکہ ہمارا ملک ایسے بے
دریغ اخراجات کا متحمل نہیں سکتا۔چلومان لیتے ہی کہ علامہ صاحب کی تمام
باتیں درست ہیں جو انہوں نے موجودہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بارے میں کی
ہیں۔اور پاکستان آنے پر مجبور ہوئے ۔پاکستانیوں کے لیے ان کا دل
تڑپااوراربوں روپے کی تشہیر کرکے مینار پاکستان میں ایک بہت بڑا جلسہ عام
کیا اور حاضرو ناظرین سے حلف بھی لے لیا کہ آپ میرے ساتھ اسلام آباد چلو
گے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ اربوں روپے کا خرچ بے وقت کیا گیا ہے۔اگر علامہ صاحب
.5,4سال پہلے پاکستان میں آجاتے تو شاید آج ملک کی ایسی حالت نہ ہوتی اور
بجلی ،گیس کی بندش سے کاروبار ٹھپ نہ ہوتے جس کی وجہ سے بے روزگاری اور
مہنگائی سے روزانہ فاقہ کشیاں اور خودکشی ہورہی ہیں۔ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ
علامہ طاہرالقادری کے پاس کے ایسا کون سا کاروبار ہے جس سے اتنی بڑی رقم
آئی ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی کے گھر میں ختم شریف پڑنے والی بات
ہو؟اگرایسا ہے توپھر ختم شریف میں دعائیہ کلمات بھی گھر والے (رقم خرچ کرنے
والے)کی مرضی والے ہوں گے اور مولانہ صاحب ختم پڑھ کر پھر اپنے گھر (ملک)واپس
چلے جائیں؟ |