سیکولر ازم کو لاحق خطرات

ہم اپنے سیکولر ازم پر نازاں ہیں سیکولرازم کی وجہ سے ہمارے ملک کو دنیا بھر میں بڑی عزت حاصل ہے۔ سیکولر مملکت ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک کا وقار بلند ہوا ہے۔ لیکن سیکولرازم کا ہم نے جس قدر پروپگنڈہ کیا ہے اسپر عشر عشیر بھی عمل نہیں ہوا ہے۔ اس کی تازہ مثال گجرات میں سیکولرازم کے دشمن اور ترقی (وکاس) کے نام پر ہندوتوا کے علمبردار ہی نہیں بلکہ گجرات میں ہندوتوا پر بھر پور عمل کے لیے قائم کی گئی تجربہ گاہ (لیباریٹری) کے ناظم اعلیٰ نریندر مودی نے وزیر اعلیٰ گجرات کی حیثیت سے جو کامیاب تجربات کئے ہیں وہ سیکولرازم پر کاری ضرب لگا چکے ہیں اور گجرات میں مسلسل تیسری بار کامیابی کی ’’ہیٹ ٹرکHAT TRICK کا راز نریندر مودی کی کامیابی کا راز ہے۔ اس پر جشن منانے والوں کو مودی سے یہ توقع ہے کہ ملک کے وزیر اعظم بن کر ہندوستان سے سیکولرازم کا جنازہ نکال سکتے ہیں ملک میں سیکولرازم سے زیادہ نرم یا آسان ہندوتوا کو پسند کرنے والے سنگھ پریوار سے تعلق نہیں رکھنے والے نا نہاد دوست سیکولرقائدین بھی اسی لیے مودی کی کامیابی پر خوش ہیں۔

ملک میں کسی اور ریاست میں بی جے پی کی کامیابی بلکہ گجرات مین ہی اگر نریندر مودی کی جگہ بی جے پی کا کوئی اور قائد گجرات میں کامیابی حاصل کرتا تو سیکولرازم کے ملک میں مستقبل کے تعلق سے اتنی فکر و تشویش کااظہار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ہندوتوا کو علی الاعلان یا خفیہ طور پر پسند کرنے والے اس طرح خوش ہوکر مودی کی طرح کسی اور کی قصیدہ گوئی نہ کرتے!

سیکولرازم کے نظریات پر آزادی کے بعد سے ہم زبانی جمع خرچ تو بہت کرتے رہے ہیں ۔ دکھاوے اور نمائشی کام بھی ہم نے بہت کیے مثلاً مسلمان صدر جمہوریہ و نائب صدر جمہوریہ بنائے گئے فضائی افواج میں بھی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر رہے۔ حال ہی میں ایف بی آئی کا سربراہ بھی کسی مسلمان کو بنایا گیا ہے لیکن ان تمام اداروں میں جن کا سربراہ کوئی مسلمان بنایا جاتا ہے وہاں پر مسلم ملازمین کا فیصد نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے بلکہ ملک بھر میں آزادی کے بعد سے کسی بھی ریاست میں کسی بھی ادارے میں بلکہ زندگی کے کسی شعبہ میں مسلمانوں کو ان کا جائزحق نہیں ملا ہے ہاں جیلوں اور دہشت گردی کے جھوٹے اور فرضی مقدمات میں ملزم بنائے جانے والوں میں مسلمانوں کا تناسب ان کی آبادی کے تناسب سے کئی گنا زیادہ ضرور ہوتا ہے۔ ممتاز کرکٹ کھلاڑی غلام احمد مرحوم نے راقم الحروف کو ایک واقعہ سنایا تھا (اسی واقعہ ٔ کو جدہ میں مرحوم کے داماد نے غلام احمد صاحب کے تعزیتی جلسے میں بھی سنایا تھا) جب ہندوستان کی ٹسٹ ٹیم میں اظہر الدین کی شمولیت پر ٹیم کو منتخب کرنے والی کمیٹی ٹال مٹول کررہی تھی تو غلام احمد مرحوم کے اصرار اور مستعفی ہونے کی دھمکی پر کمیٹی کے صدر ممتاز کھلاڑی چندو بورڈے نے غلام احمد مرحوم سے کہا تھا ’’آپ کا ’’ایک‘‘ ہے نا!‘‘ اور یہ ایک سید کرمانی تھے۔

سیکولرازم کو اپنا کر ہم نے بدنام زمانہ ’’دو قومی نظریہ‘‘ مسترد کیا تھا۔ محمد علی جناح اور مسلم لیگ کو دو قومی نظریہ اپنانے پر ہمیشہ معتوب کیا لیکن خود ہم اسی پر اس شدومد سے عمل کیا کہ ہمارا سیکولرازم ہوا میں تحلیل ہوگیا مثلاً چندوبوڑڈے کی یہ سوچ تھی کہ ٹیم میں ایک مسلمان سید کرمانی شامل ہے تو دوسرے مسلمان کی کیا ضرورت؟۔ کانگریس نے مولانا آزاد جیسے قدر آور قائد اور اپنے وقت کے سب سے بڑے قوم پرست جنہوں نے خود کو بھی مسلمانوں کا قائد یا نمائندہ نہیں کہا، انتخابات میں ہمیشہ مسلم اکثریتی حلقے (مثلاً رام پور) سے کھڑے کیے جاتے تھے۔ اس طرح دو قومی نظریہ کے تحت ہی مسلمان امیدوار مسلم اکثریتی حلقے سے کھڑے کیے جاتے ہیں۔ کہاں گیا سوشلزم؟کوئی ہندو دلت بودھ یا سکھ ہوجائے تو اس کی دلتوں، پسماندہ طبقات کو دی گئیں مراعات برقرار ہتی ہیں لیکن مسلمان یا عیسائی ہوجائے تو مراعات و تحفظات سب ختم گویا مراعات و تحفظات کا تعلق مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ دوسری طرف مسلمانوں کو خواہ وہ کتنے ہی غریب اور پسماندہ کیوں نہ ہوں مسلمان ہونے یا مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا ہے!۔ فوج میں مسلمانوں کی تعداد کس قدر کم ہے یہ دنیا کو معلوم ہے لیکن فوج کے ملازمین کی فہرست مذہب کی بنیاد پر دئیے جانے سے سچر کمیٹی کو محروم کردیا گیا۔ فسادات میں خواہ اس میں مسلمانوں پر کتنا ہی ظلم کیوں نہ ہوا ہو گرفتاریاں ہمیشہ مسلمانوں کی ہوئیں ۔ دہشت گردی کے بڑے سے بڑے واقعہ میں ہندو دہشت گردوں اور ہندو دہشت گرد تنظیموں کے کارکنوں کی گرفتاری تو دور رہی وہ ملزم بھی نہیں قرار دئیے جاتے ہیں۔ انڈین مجاہدین کا واقعی کوئی وجود ہے یہ آج تک ثابت نہ ہوسکا۔ سیمی پر بغیرکسی ثبوت کے امتناع ہے۔ ابھینوبھارت، ہندو جاگرن منچ اور رام سینا جیسی تنظیموں کا وجود بھی ہے اقرار جرم بھی ہے ان کے خلاف شہادت بھی لیکن انسداد دہشت گردی کے کرتا دھرتا اب بھی صرف مسلمانوں کو دہشت گرد مانتے ہیں۔ کیا یہ سیکولرازم ہے؟ دہشت گردی کے مرتکب یا ملزم صرف مسلمانوں کو قرار دینا نہ سیکولرازم ہے نہ قوم پرستی یہ تو صرف اور صرف دو قومی نظریہ پر عمل درآمد ہے۔

ماضی میں یا آزادی کے بعد اگر سیکولرازم پر صحیح معنی میں عمل ہوتا تو آج ملک میں سنگھ پریوار یا نریندر مودی جیسوں کا گذر ہی نہ ہوتا اورنہ وہ اتنے زیادہ طاقت ور ہوتے۔ نریندر مودی کی طاقت کا راز سیکولرازم کی کمزوری ہے۔ نریندر مودی 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم بن پاتے ہیں یا نہیں؟ یہ سوال گوکہ اہم ہے لیکن اگر این ڈی اے یو پی اے کو شکست دیتی ہے تو مودی کے وزیر اعظم بن جانے کے امکانات خاصے روشن ہیں۔ اگر ہم یہ مان کر چلیں کہ مودی ملک کا وزیر اعظم بن سکتا ہے تو سوچنا یہ چاہئے کہ اس صورت میں ملک کا یا مسلمانوں کا کیا حال ہوگا؟

جس طرح مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا حشر کیا ہے وہ مودی سارے ملک میں کرے گا 2002ء کا قتل عام جگہ جگہ ہوسکتا ہے۔ تباہی و بربادی کے طوفان سے گذار کر جس طرح مسلمانوں کی بحالی، بازآبادکاری اور ان کو دوبارہ معمول کے مطابق زندگی گزارنے کا کوئی موقع نہ دے گا بلکہ ہمارا تو یہ خیال ہے کہ مودی کو بڑی اچھی طرح دوسروں پر اثر انداز ہونے اور ان کو اپنا ہم نوا اور تابع بنانے کا فن آتا ہے وہ اس سے فائدہ بھی خوب اٹھاتے ہیں اسی سے فائدہ اٹھاکر وہ ملک کے دستور کو بدل سکتے ہیں۔ سیکولر ملک کو ہندوراشٹر بھی بناسکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مودی نے 2002ء کے مظالم پر مسلمانوں سے کبھی معذرت خواہی نہ کی اظہار افسوس نہیں کیا پھر بھی ان کی کاسہ لیسی کرنے والے بدبخت اور ضمیر فروش مسلمان مل گئے۔ کرکٹ کھلاڑی (عرفان پٹھان)پہلے بھی مودی کے دربار حاضر ہوچکے تھے اس بار مودی کی انتخابی مودی یا یہ ظاہر کرنے کے لیے مسلمان بھی مودی کے ساتھ ہیں مودی کے حضور پہنچ کر مودی کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا ایک تاجر ظفر سریش والا نے مودی کا ساتھ دیا اور دہلی کے ممتاز صحافی اور سابق رکن پارلیمان کو مودی کا انٹرویو لینے کا موقع دیا اور اب جبکہ مودی نے کامیابی کے بعد بغیر مسلمانوں کا اور ان پر اپنے مظالم کا حوالہ دیے بغیر صرف یہ کہا کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی تو وہ عوام ان کو معاف کردیں یہ معذرت خواہی صرف مسلمانوں سے نہیں ہے مسلمانوں سے ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ہوسکتی ہے لیکن ان کا انٹرویو لینے والے ممتاز صحافی پھر ٹی وی پر پہنچ کر مودی کی تعریف کی اور بھی ایک دو مسلمانوں نے مودی کی یوں تعریف کی کہ جیسے وہ صرف مسلمانوں سے معذرت خواہ ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ روش خواہ وہ کوئی تاجر ہو، عالم یا مولوی ہو، کھلاڑی ہو صحافی مسلمانوں سے غداری کے مترادف ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ فرقہ پرستی یا فاشست ذہنیت کے علمبرداروں کے پرکاٹنے کے لیے قوانین بنائے جائیں۔ ملک میں سیکولرازم کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کی شدید ضرورت ہے ورنہ سیکولرازم کو برقرار نہیں رکھنے کے لیے ہمیں آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ دستور میں ترمیم کا تو سوال نہیں ہے مودی نے ایک بھی مسلمان کو بی جے پی کا ٹکٹ نہیں دیاایک طرح سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ شاہنواز حسین اور مختارعباسی نقوی جیسے بی جے پی کے ’’شوبوائز‘‘ کو تک مودی نے انتخابی مہم میں شامل نہیں کیا %10مسلم آبادی کو کابینہ یا مجلس قانون ساز میں نمائندگی نہ ملنا حق تلفی ہی نہیں جمہوری حقوق کی نفی ہے اس پر قانونی گرفت کی جاسکتی ہے۔ کیمپوں میں کسمپرسی زندگی گزارنے والوں کو بازآبادکاری کے لیے مودی کو مجبور کیا جاسکتا ہے۔ جہاں ریاستیں اپنے عوام کو بنیادی سہولتیں ہی نہیں بلکہ تحفظ و امن سلامتی فراہم نہ کرسکیں تو مرکزی حکومت مداخلت کرسکتی ہے گو کہ کانگریس نے مودی کو دس سال سے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ خاصہ وقت ہی نہیں بلکہ مواقع ضائع ہوچکے ہیں لیکن اب بھی بہت کچھ کرنا ممکن ہے۔ سیکورلازم کو مستحکم کرنے ہی نہیں بلکہ اس کی بقاء کے لیے کچھ کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ سیکولرازم کو لاحق خطرات کا احساس پیداکرنا اس سلسلے کا بنیادی کام ہے۔ اگر ہم نے اب بھی کچھ نہیں کیا تو سیکولرازم کے دشمن کامیاب ہوجائیں گے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.