یہ اجاڑ رستے،
عجیب منظر،
ویران گلیاں ، یہ بند بازار
کہاں کی خوشیاں کہاں کی محفل،
شہر تو میرا لہو لہو ہے۔
وہ روتی مائیں،
بےہوش بہنیں لپٹ کے لاشوں سے کہہ رہی ہیں۔
اے پیارے بھیا ،
سفید کُرتا تھا سرخ کیوں ہے ؟؟؟
یہ حال کوئٹہ کے شہریوں کا ہی نہیں بلکہ سارے پاکستان کا ہے۔ یہ صرف شیعوں
پر بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں پر نوحہ نہیں ہے بلکہ کراچی ،
پشاور،سوات جیسے شہروں میں ہونے والے بم دہماکوں کے اجتماعی شہیدوں کےلئے
گریہ ہے۔انسانی حقوق کی خلاف ورزی صرف ہزارہ برادری کےخلاف نہیں، بلکہ تمام
قومیتیں کےساتھ ہو رہی ہیں۔کوئٹہ میں 86لاشوں کےساتھ دھرنا دئےے گئے ، لیکن
بے حس حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔وزیر اعلی بلوچستان ملک سے باہر عیاشیوں
میں مصروف ہیں ۔بلوچستان حکومت کی بر طرفی کےساتھ ساتھ ، گورنر راج ،
آپریشن اورکوئٹہ فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔دھرنے اور
مظاہرے کوئٹہ سے باہر نکل کر پورے پاکستان پھیل چکے ہیں ،بلاول ہاﺅس کے
سامنے بھی دھرنا دے دیا گیا ۔ ٹرینیں روک دیں گئیں۔طاہری مارچ کےساتھ ساتھ
، فرقہ وارانہ بنیادوں پر پاکستان میں شیعہ برادری ، ٹارگٹڈ آپریشن کا
مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ بلوچستان میں تو پہلے ہی ایف سی موجود ہے ۔اگر
انتظامی طور پر کوئٹہ بد امنی پر فوج کے حوالے کرنے سے امن قائم کرنا ہے تو
پھر پورے ملک کو فوج کے حوالے کرنا ہوگا۔ آج کوئٹہ ، توکل کراچی ، پھر سوات
، پشاور، بونیر ، قبائلی علاقے بھی فوج کے حوالے کرنا ہونگے ۔ کیونکہ یہ
قیامت صغری صرف کوئٹہ میں نہیں مچی بلکہ خیبر پختونخوا کے در ودیوار اور
کراچی کی گلیاں بھی بے گناہوں کے خون سے رنگیں اور حکومت عوام کے تحفظ میں
مکمل ناکام ہوچکی ہے۔سانحہ کوئٹہ پر پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور ایم کیو
ایم نے ہڑتال کی کال دی۔کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی
تعداد حالیہ بم دہماکوں میں جاں بحق ہوئی ہے ۔ 86لاشوں سمیت جمعہ کی دوپہر
سے ورثا دھرنا دئےے بیٹھے ہیں۔وزیراعظم انسانی جذبات کے بجائے آئین و
مفاہمت کی مصلحت میں الجھے ہوئے ہیں۔بلوچستان کے بے حس اراکین اسمبلی ان ہاﺅس
تبدیلی چاہتے ہیں۔حیرانگی ہے کہ اقتدار کی کس قدر ہوس ہے ان حکمرانوں میں
کہ ابھی تک مسند اقتدار سے چپکے بیٹھے ہیں۔جو امرا ء ،وزرا ءمملکت اپنی
عوام کا پرسا تک نہیں کرسکیں انھیں شائد غلط فہمی ہے کہ اللہ کی عدالت میں
جواب دہ نہیں ہونگے۔موجودہ حکومت کو حق حکمرانی کا کوئی حق نہیں۔طاہری
دھرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ تیسری قوت کو شامل اقتدار کیا جائے۔ طاہری
ایجنڈا بھی حکومت کو ناکام قرار دیتا ہے۔ملک کا گوشہ گوشہ دہشت گردی کا
شکار ہے۔طاہری قافلہ اپنے لئے حسینیت اور حکومت کےلئے یزیدیت کےلئے استعارہ
استعمال کر رہا ہے۔اتحادی حکمران جماعتیں تک بلوچستان میں فوج کو دعوت اور
گورنر راج کا نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔کوئٹہ میں بوٹوں کی گونج اسلام
آباد میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔جب ملک کی سیاسی جماعتیں ناکام ہوجائیں تو
عوام کے پاس اپنے مسائل کے حل کےلئے بھی فوج کے سوائے کوئی دوسرا راستہ
نہیں بچتا۔ عدلیہ کے احکامات کی تعمیل کون کرائے گا ؟۔کیا یہ نا اہل اور بے
حس حکومت جس نے سوات ، پشاور،بونیر ، باجوڑ شمالی وزیر ستان ،کراچی ، کوئٹہ
بلوچستان کوسوائے بد امنی اور لاشوں کے سوا کچھ نہیں دیا ۔کوئٹہ میں گورنر
راج یا صرف فوج کے حوالگی سے فرق نہیں پڑے گا ، معاملہ،جھنگ ،کراچی ، کرم
ایجنسی ،بنوں کوہاٹ ، چترال اور گلگت بھی جائے گا۔معاملہ صرف شیعہ ، سنی کا
نہیں رہے گا بلکہ مسالک سے بڑھ کر نسلی اور پھر لسانی بنیادوں تک حقوق کی
فراہمی کےلئے دھرنے مظاہروں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔غیر جمہوری عمل
کےلئے ایک دروازہ کھول دیا تو پھر پورا گھر غیر محفوظ ہوجائے گا۔اگر فرقہ
وارنہ ، نسلی اور لسانی گروہ بندیوں کا سدباب نہیں کیا گیا تو مشرقی سرحدیں
تو آگ اگل ہی رہی ہیں ۔ مغربی و شمالی سرحدوں کا کیا کرو گے ؟۔ پاکستان میں
انوکھے انقلاب کے تجارب ہورہے ہیں ، عوام میں عدم تحفظ کا احساس دوچند کرنے
کےلئے وزیرداخلہ عبدالرحمن ملک کی اشتعال انگیزبیان بازیاں ، سقوط ڈھاکہ
کےلئے دوالفقار علی بھٹو کی یاددلا رہے ہیں۔مسالک کے نام پر پہلے ہی مزارات
، مساجد ، امام بارگاہوں ، فرقوں کی بنیادپر ، اعزادری و میلاد النبی ﷺ کے
جلوسوں ، سیاسی بنیادوں پر جلسہ گاہوں اور رہنماﺅں کو نشانہ بنایا گیا۔عوام
میں عدم تحفظ کے احساس کو گہرا کرنے کے لئے مسلح افواج کے بیس کیمپوں اور
ہیڈ کواٹرز کو دہشت گردی سے نقصان پہنچایا گیا ۔ بلوچستان ، شمالی مغربی
علاقوں میں بد امنی کی سر پرستی کے طور پر بھارت کو مورد الزام قرار دیا
جاتا رہا ہے ۔ اندرونی گوریلا جنگ جاری ہے ، سرحدوں پر ایک بار پھر کشمیر
پر عسکری طاقتیں چھیڑ چھاڑ کر رہی ہیں ۔ ماضی کی تمام پاک ، بھارت جنگیں
کشمیر کے معاملے پر ہی لڑی جا چکی ہیں۔بھارتی میڈیا اپنی عوام میں اشتعال
پیدا کرنے کےلئے بھیانک اشتعال انگیز کردار ادا کر رہا ہے۔سیاسی جماعتوں کے
پاس کسی بھی مسئلے کا سیاسی حل نہیں ہے۔ عوام میں ان کے منشور پر اعتماد
ختم ہوچکا ہے۔دہشت گردوں سے حکومت اتنی خائف ہے کہ ایسے موبائل فون بند
کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں سوجھتا۔عوام کو سیاسی جماعتوں پر
اعتماد نہیں رہا اس لئے تو طاہری قافلے اسلام آباد کا گھیراﺅ کرنے کےلئے
موجود ہیں۔عوام کرے تو کیا کرے ؟ ۔ کس پر اعتماد کرے تو کس پر عدم اعتماد ۔
پہلے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبات گونجتے تھے ، پھر ایک ویڈیو پر
سوات کو فوج کے حوالے کردیا گیا۔اب 86جنازوں کے سڑکوں پر رکھے جانے پر
کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جانے کا مطالبہ ہے تو پھر طاہری ایجنڈا ، غیر
سیاسی اداروں کو نگراں سیٹ اپ میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے تو پھر
اعتراض کیوں ؟۔اگر آئین میں نہیں لکھا تو لکھنے میں وقت ہی کتنا لگتا
ہے؟نائب وزیراعظم کا عہدہ جب ایک رات میں پیدا ہوسکتا ہے تو پھر انتظامی
طور پر دو مزید اداروں کو حکومت کا حصہ کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟۔ہم خود
ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جس سے غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کرنے کا موقع
ملے۔جب ہم خودموقع دےتے ہیں تو پھر کیوں غیر سیاسی قوتوں کےخلاف بے گناہ
عوام کو بھینٹ چڑھاتے ہیں؟ الیکڑونک میڈیا اپنے موجودہ کردار کا مثبت جائزہ
لے تو بہت بہتر ہوگا، ہیجان خیزی کی ریٹنگ میں دانستہ یا غیر دانستہ آپ بھی
"ویلکم ٹو مارشل لا ئ" کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ |