بہت سے مخلص دوست مجھے مشورہ
دیتے رہتے ہیں کہ سیاست سے ہٹ کر لکھا کریں ۔اور بھی بہت موضوعات ہیں جن پر
بات کرنے کی ضرورت ۔میرااپنا بھی دل کرتا ہے کہ سیاست سے پرے کی بات کی
جائے ۔میں کوشش بھی کرتا ہوں کہ سیاست کے علاوہ موضوعات پر لکھوں جیسا کہ
میں اکثر خواتین ،بچوں اور پرندوں کی بات کرتا ہوں ۔لیکن جب کوئی دردناک
خبر دیکھتا سنتاہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔جیسا کہ پچھلے تین دن کے
اخبارات میں خبر یں آ رہی ہیں کہ کوئٹہ میں بم ھماکوں کے نتیجے میں جاں بحق
افراد کی تعداد 118ہوگئی ،واقعات کے بعد فضا سوگوار رہی ،خوفناک بم دھماکوں
کے خلاف شہربھر میں ہڑتال کی گئی تجارتی مراکزبند رہے۔ورثانے شدید سردی کے
باوجود86۔شہدا ء کی لاشوں کے ہمراہ علمدار چوک پر دھرنا دیاجن میں بچے
خواتین اور بزرگ افراد بھی شامل ہیں۔دھرنے کے شرکاء نے آرمی چیف جنرل اشفاق
پرویز کیانی پر ملک کی سیکورٹی کی صورتحال کے حوالے سے کڑی تنقید کی اور
سوالات اٹھاے کے انہوں نے اپنے عہدے کی میعاد میں تین سالہ توسیع کے دوران
سیکورٹی کے لیے کیا ،کیا؟عوام کو لاشوں کے سوا کیا دیا ؟احتجاج کرنے والوں
نے کہا کہ لاشیں سڑک پرابھی بھی بکھری پڑی ہیں انہیں اس وقت تک دفن نہیں
کیا جائے گا جب تک کوئٹہ میں فوج نہیں آجاتی۔قارئین محترم میں سمجھتا ہوں
کوئٹہ بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کے سوالات کے جوابات صرف
آرمی چیف یا حکمرانوں کو ہی نہیں بلکہ مجھے اور آپ کو بھی دینے پڑیں گے ۔میں
بچپن سے ہی سمجھتا آیا ہوں کہ پاکستان میرا ہے اور میں پاکستان ہوں یعنی (تو
بھی پاکستان ہے میں بھی پاکستان ہوں)جب اپنے بدن کو زخموں سے چور پاتا ہوں
تو اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنا ممکن نہیں رہتا اور مجبورہوکرحکمرانوں پر
تنقید کرنی پڑتی ہے ۔اپنے ہی اندر سے آواز آتی ہے کہ اگر ظلم کے خلاف قلم
خاموش رہا تو کل روزقیامت تجھ سے سوال کیا جائے گا کہ وہ کون سی وجہ تھی جس
نے تجھے ظالموں کے خلاف آواز بلند کرنے روکے رکھا۔تجھے قلم عطا کیا تھا
تونے کیا حق ادا کیا؟آج صرف میں ہی نہیں میرا قلم بھی رو رہا ہے اور رو ،روکر
عالمی حکمرانوں سے سوال کر رہا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟میرے ملک میں ایک
سیاسی جماعت کی لیڈر بم دھماکے میں جاں بحق ہوئی تو منٹوں میں پورا ملک آگ
کی لپیٹ میں تھا ۔پاکستان نہ کھپے اور کھپے کی نعرے لگے اور اپنی لیڈر کے
جاں بحق ہونے کا صلہ ان کے ورثاکو یہ ملا (یعنی عوام نے دیا) کہ پچھلے پانچ
سال سے وہ ملک پر حکمرانی کررہے ہیں اور ان کی لیڈر کو ہم آج تک شہید کہتے
ہیں جاں بحق نہیں ۔اور118افراد کی جان جانے پر اسی ملک میں کوئی کہرام نہیں
مچا کیا سیاست دان اﷲ کی خاص مخلوق ہیں ؟کیا عوامی جانوں کی کوئی قیمت نہیں
ہے؟کیا حق ہے ایسے لوگوں کوحکمرانی کرنے کا جو اپنی جان بچانے کے لیے عوام
کی کمائی ہوئی دولت تو پانی کی طرح بہاتے ہیں لیکن شدید سرد موسم میں اپنے
پیاروں کی لاشیں لیے حکمرانوں کے چند ہمدردانہ الفاظ کے منتظر سڑک پر بیٹھے
عوام کے لیے کوئی وقت نہیں ہے ان کے پاس۔ہزاروں لوگوں کو اپنی سیکورٹی پر
لگا کرکے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں جو لوگ ان کے پاس کون سی گارنٹی
ہے کہ وہ نہیں مریں گے ؟کس قسم کے حکمران ہیں جو اپنی نا اہلی کو تسلیم
کرنے کے باوجود کرسی اقتدار نہیں چھوڑتے؟ قارئین ذرہ غور کریں گورنر
بلوچستان نے بلوچستان حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ بم
دھماکوں کے بعد ہم حکمرانی کا حق کھوچکے ہیں ملک میں الیکشن ناگزیر ہوگئے
ہیں ،الیکشن ہونگے تو اچھے لوگ سامنے آئیں گے ۔آئینی طور پر صوبے کا سربراہ
ہوں لیکن میرے پاس اختیارات نہیں ہیں ۔میں جناب سے سوال کرتا ہوں کہ جب آپ
کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو پھر آپ کس آئین کے تحت صوبے کے سربراہ ہیں ؟اگر
آپ حکمرانی کا حق کھوچکے ہیں توآخر وہ کون سی مجبوری ہے جس کی وجہ سے آپ اب
تک کرسی اقتدار سے چپکے ہوئے ہیں؟آج صرف بلوچستان ہی نہیں پورا پاکستان
زخموں سے چور ہے اور اگرمیں بھی پاکستان ہوں توبھی پاکستان ہے توپھر کس طرح
میں اورآپ اپنے بہن بھائیوں ،بچوں اور بزرگوں کوسخت سردی میں اپنی ہی لاشوں
کا سڑک پرماتم کرتے چھوڑ کر اپنے نرم و نازک بستر پر سوگئے ؟کیوں مجھے اور
آپ کو اپنے ہی جسم پر لگنے والے زخموں میں اٹھنے والادرد محسوس نہیں
ہوتا؟میں پاکستان ہوں اور میرے جسم کاکوئی حصہ ایسا نہیں جہاں سے لہونہ رِس
رہاہو،کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں زخم نہ لگاہو،کوئی حصہ نہیں جو دہشتگردی سے
محفوظ ہو۔چند لوگوں کے سوا کوئی پاکستانی ایسا نہیں جس کی جان مال اور عزت
محفوظ ہوں،کوئی کہتا ہے مجھے قائداعظم کاپاکستان چاہیے ،کوئی کہتا ہے مجھے
اقبال کا پاکستان چاہیے ،میں کہتاہوں مجھے میرا پاکستان چاہیے ۔کوئی کسی کا
مشن پورا کرنے کی بات کرتا ہے کوئی کسی کا۔کوئی بذریعہ جمہورت انقلاب لانے
کی بات کرتا ہے تو کوئی لانگ مارچ کے ذریعے ۔جمہوریت والے ہوں یا لانگ مارچ
والے سب کہ سب آئین و قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں۔میرا پوری پاکستانی
قوم سے سوال ہے کہ کس قانون کی بات کرتے ہو؟کس آئین کی بات کرتے ہو؟اُس
قانون کی جوچور کے ہاتھ نہیں کاٹتا ،جوقاتل کو سزادے کر مظلوم کوانصاف نہیں
دیتا،جو بہنوں ،بیٹیوں کی عزت کوتحفظ نہیں دیتا،جوگرتے ہوئے لاشوں کودیکھ
کرخاموش رہتا ہے ،مختصر کہ جو امیر کے گھر کی لونڈی ہے اور غیریب کا گلا
کاٹنے کی مشین ہے،جوامیر کوامیرتراور غریب کو غریب تر کرتا ہے ،اور جس کی
سرعام بولی لگتی ہے جوہروقت بکنے کے لیے تیار رہتا ہے،جوحکمران کو
18کروڑعوام کاخون معاف کرتا اور محکوم کو بے گناہ ہونے کے باوجود جیل میں
قید بھی رکھتا ہے اور سولی بھی چڑھاتا ہے۔یہ کون ساآئین ہے یہ کون ساقانون
ہے جوامیر کوتو انسان سمجھتا ہے لیکن غریب کو انسان ہونے کاحق نہیں دیتا؟یہ
کیسا آئین ہے ؟یہ کیسا قانون جس میں عادل بکتا ہے،جس میں وکیل بکتا ہے ،جس
میں انصاف بکتا ہے۔جس میں ماؤں بہنوں کی عزت نیلام ہوتی ہے ۔اس آئین نے
پاکستان کو کیسے حکمران دئیے ہیں آج تک جواپنااقتدار بچانے کے لیے کروڑوں
انسانوں کی جانوں کی پروا نہیں کرتے جب چاہے جتنے چاہے لوگوں کواپنی ہوس
اقتدار پرقربان کردیتے ہیں۔آج نہ سہی ایک دن جواب دیناہوگامجھے بھی اور آپ
کوخالق کائنات کو اپنی مخلوق سے بڑی محبت ہے وہ جواب لے گاوہ حساب لے
گا۔حکمرانوں تمہیں جواب دینا پڑے گاجب اﷲ پوچھے گاکیوں کاٹا میرے بندوں
کو؟کیوں خودکشی کرنے پر مجبور کیا میرے بندوں کو؟اﷲ تعالیٰ پوچھے گامیں (اﷲ
)نے تمہیں عادل بنایاتھاکس حد تک عدل کیا ؟آج تین دن گزر چکے ہیں اور کوئٹہ
میں بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا اپنے جگر کے ٹکڑوں کی لاشیں
سڑک پر رکھے بیٹھے اس امید پر احتجاج کررہے ہیں کہ شاید کوئی انسان دنیا
میں باقی ہے جو ان کی فریاد سنے گا۔کہاں ہیں جمہوری حکمران ؟کہاں ہیں
بلوچستان میں خراب حالات اورموسم کے باوجود بہت بڑا سیاسی شودکھانے والے ؟کہاں
ہیں انسانی حقوق کی آواز اُٹھانے والی تنظمیں ؟اعلیٰ عدلیہ کیوں خاموش ہے
کیوں ابھی تک ازخود نوٹس نہیں لیا گیا اس مسئلے کا؟قارئین محترم نرم اور
گرم بستر میں اپنے بچوں کو سینے سے لگا کرسونا بہت سکون بخش ہے لیکن انھیں
بچوں کی لاشوں کو سڑک پر رکھ کرتین دن سے شدید سردی میں احتجاج کرناکس قدر
تکلیف دے ہے اس بات کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے اگرہم ایک لمحے
کے لیے جاں بحق ہونے والوں کی جگہ پر اپنے بچوں کو تصور کریں تو ہمیں اپنے
ان بہن بھائیوں کی تکلیف کا اندازہ ہوسکتا ہے۔بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے
والوں کے قتل کا حساب تو وہ ہی دیں گے جوکسی نہ کسی طرح اس دہشتگردی کی
کارروائی میں حصہ دار ہیں لیکن جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء جس تکلیف سے
گزر رہے ہیں اُس کا حساب پوری قوم کودینا پڑیگااور وہ دن دور نہیں جب اصل
حاکم و عادل کادربار لگے گا ۔اُس دن دودھ کادودھ اور پانی کاپانی ہوجائے
گا۔راقم اس دکھ کی گھڑی میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہے اور دعا گوہے کہ
اﷲ تعالیٰ انہیں صبر جمیل اور انصاف عطا فرمائے۔بے شک وہ انصاف کرنے
والاہے(آمین) |