عجب رسم چلی ہے اس ملک میں۔ ہر
کوئی انقلاب کا دعویدار ہے۔ تحریر اسکوائر بنانے کی آرزو لے کر سادہ دل اور
محب وطن عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ میں ڈی چوک میں تحریر اسکوائر
بنتے دیکھنے چلا گیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔
فرمارہے تھے کہ اگر آپ کے پاس گولی ہے تو میرا سینہ حاضر ہے، اگر تلوار ہے
تو میرا سر حاضر ہے، میں امام حسین کے راستے پر چلا ہوں آج یہاں کربلا ہے۔
تبدیلی لائے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے۔ میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ
سکا اور ڈی چوک کو تحریر اسکوائر بنانے میں کردار ادا کرنے کی نیت سے سٹیج
کی طرف بڑھتا گیا۔ لیکن مجھے اس وقت شدید مایوسی ہوئی جب میں نے انقلاب کے
دعویداراور سینے پر گولی کھانے کا اعلان کرنے والے قائدکو بلٹ پروف شیشے
والے کنٹینر کے اندرسے خطاب کرتے دیکھا۔ میرے اندر کا سارا انقلاب، اضطراب
میں بدل گیا۔ اور واپس چلا آیا۔
انقلاب کے دعویدار سیاستدان شاید اس حقیقت سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں کہ کسی
بھی انقلاب اور بڑی تبدیلی کو برپا کرنے کے لئے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہے۔
مایوسیوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر میدان
عمل میں اتر کراپنا سب کچھ داؤ پرلگانا پڑتا ہے۔قوم کے سامنے اپنے قول اور
فعل کے ذریعے قابل تقلید مثال بننا پڑتا ہے۔ دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد
ہے کہ کوئی بھی انقلاب یا بڑی تبدیلی اتنی آسانی سے نہیں آتی۔انقلاب اور
تبدیلی ملکی نظام اور ملکی زمین پر نظر آنے سے پہلے ذہنوں میں جنم لیتی ہے۔
اور جب ایک بار قوم کے ذہن میں انقلاب اور تبدیلی بیدار ہوتی ہے تو پھر
ملکی نظام میں تبدیلی کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوا کرتا۔ اور دنیا کی
کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ پاکستان کے قیام سے پہلے جب دو قومی
نظر یہ اور الگ مملکت کی ضرور ت کی بنیادپر لوگوں کی ذہن سازی کی گئی۔تو
انگریز اپنی تمام تر طاقت او ہندو اپنی تمام ترعیاری کے باوجودتبدیلی کا
راستہ نہ روک سکی۔ ایران کے انقلاب کے لئے جب لوگ ذہنی طور پر تیار کئے گئے
تو پھرانقلاب کو نہ تو شاہ ایران کی فوج روک سکی اور نہ ہی امریکی سازشیں۔
اس ملک میں تو آج تک جتنے سیاستدان انقلاب لانے کے لئے نکلے ہیں۔ انہیں
اچانک انقلاب لانے کا خیال آتاہے۔اور یہ نکل پڑتے ہیں۔اور الٹھے سیدھے کام
کر کے پورے نظام کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ اور آخر میں پتہ چلتا ہے کہ
انقلاب کا یہ خواب ان صاحب نے خود نہیں دیکھا تھا۔ بلکہ اسٹبلشمنٹ نے
دکھایا تھا، جو کہ پہلے دن سے اس ملک کے اکلوتے حکمران ہیں۔ فوجی آمریت،
عدلیہ، خودغرض اور بے اصول سیاستدانوں، بیوروکریسی اور جاگیرداروں کا گٹھ
جوڑ جس میں کچھ خود غرض مولانا حضرات اور گدی نشین بھی شامل ہیں ہمیشہ
جمہوریت کی بسات لپیٹنے میں کردار ادا کرتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے
کر عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری تک سب انقلاب اور تبدیلی کی بات کرتے
ہیں۔ لیکن وہ وژن، مقاصدکا واضح تعین، عوام کا درد، ملکی مفاد کی حفاظت،
مقاصد کے حصول میں سنجیدگی، وقار،عزم اور کردارناپید ہے جو ایک انقلابی
لیڈر کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔ |