آثار قیامت اور پاکستان

پاکستان جو مکمل طور پر خالصتاً نیک نیتی ، پر خلوص جذبات، سچی جام شہادت کی قربانیوں سے معروض وجود میں آیا تھا ،اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ریاست قائم ہونا کیونکر دشمنان پاکستان کو گوارا تھا اور ہے اسی لیئے وہ چودہ اگست انیس سو سینتالیس سے ہی اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے پر مختلف انداز سے سرگرم رہے ، ابتدائی دور میں اُن (عوام )لوگوں کی تعداد زیادہ تھی جنھوں نے تحریک پاکستان میں بلواسطہ یا بلاواسطہ حصہ لیا تھا اور انھوں نے اپنے نسلوں میں اس وطن عزیز کی اہمیت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھیں لیکن وقت کے بیتنے کے ساتھ ساتھ وہ بزرگ نیک ہستیاں اس دار فانی سے کوچ کرتی چلی گئیں ۔ ان کے جانے کے بعد مخالفین پاکستان کو اپنے مقاصد پورے کرنے کیلئے ہموار راستہ محسوس ہوا تب سے یہ گروہ مختلف انداز، مختلف اشکال، مختلف رو سے عوام الناس کو بہکاتے ہوئے ان کی آستینوں میں آبیٹھا ہے ۔ اس وطن عزیز اور قوم کو اُس دھارے پر لے آئیں ہیں کہ نگل بھی نہیں سکتے اور تھوک بھی نہیں سکتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو اپنا خود احتساب کرنا پڑیگا اور ہر شخص جب خود اس وطن عزیز پاکستان کی بقاءو سلامتی کیلئے قانون کی پاسداری، معاملات میں درستگی، خدمات و تجارت کے فرائض میں ایمانداری، اعتدال پسندی، نرم گوشہ، درد دل، انسانیت کا احترام اور خوف خدا کو مضبوطی سے عمل میں لائے گا تو انشاءاللہ اس قوم کو کوئی بھی زرہ برابر نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے ، لیکن جب خود کو بدلنا نہ چاہے تو رب بھی ایسے بندوں پر توجہ نہیں کرتا اور رحمت کے فرشتہ منہ موڑ لیتے ہیں ۔ پاکستان مخالفین اسلام کیلئے سب سے بڑا کانٹا ہے اسی لیئے وہ سرزمین پاکستان میں قطعی طور پر حقیقی دین اسلام رائج ہونے نہیں دیگا کیونکہ حقیقی دین اسلام نے انسانیت کا احترام ، مذاہب کے حقوق کا حکم رکھا ہے ۔آج جو کچھ بھی اسلام ، دین، اور سیاست کے نام پر عمل دیکھنے میں آرہا ہے اس کا نہ تو دین اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ اخلاقیات سے!!ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم پندرہیوں صدی سے گزر رہے ہیں جبکہ نبی پاکس ﷺ نے چودہویں صدی کے لوگوں کی برائیوں کے متعلق بتا دیا تھا ظاہر ہے اب برائیوں میں اضافہ ممکن ہے اور نیکو کاروں کی تعداد گھٹ رہی ہے اسی لیئے کسی سے بھی امید لگانا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں امید کی ذات اللہ اور اس کی حبیب ﷺ کی ہے جو عالمین کیلئے رحمت، برکت اور مغفرت ہے۔ پاکستان کے حالات بھی آثار قیامت سے خالی نہیں کیونکہ اس ریاست میں دین سے دوری کا عمل بڑھایا جارہا ہے اور دشمنان پاکستان اس قوم کو دنیاوی عیش و عشرت دیکر دین سے دور رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس کی تحقیق کے زاویہ کو جب دیکھتے ہیں تو ہم سب سے پہلے قرآن کے فرمان کو دیکھیں گے ۔قرآن مجید میں قبل از قیامت کی جو واحد پیش گوئی کی گئی ہے اور جس کا ذکر دیگر الہامی صحیفوں میں بھی ہے یعنی یاجوج ماجوج کا دنیا پر غلبہ، وہ مکمل طور پر پوری ہو چکی ہے۔ یاجوج ماجوج حضرت نوح کے تیسرے بیٹے یافث کی نسل کے لوگ ہیں۔ یافث کے سات بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام ماجوج تھا۔ جبکہ یاجوج اسی کی نسل میں ایک بادشاہ کا نام تھا۔ بعد ازاں انہی دونوں کے نام پر یافث کی تمام اولاد مشہور ہوگئی اور اسی حیثیت میں انجیل میں قرب قیامت کی پیش گوئی کرتے ہوئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ الہامی صحیفوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابتدائً یہ لوگ شمال میں آباد تھے اور پھر وہیں سے رفتہ رفتہ دنیا کے تمام کونوں میں پھیل گئے۔ قرآن مجید نے بھی قیامت سے قبل یاجوج ماجوج کے کھولے جانے اور دنیا پر ان کے غلبے کی پیشگوئی کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”یہاں تک کہ وہ وقت آجائے ، جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں اور وہ ہر بلندی سے پل پڑ یں ، اور قیامت کا شدنی وعدہ قریب آپہنچے تو ناگہاں دیکھیں کہ اِن منکروں کی نگاہیں ٹنگی رہ گئی ہیں۔ ا ±س وقت کہیں گے ” ہم اِس سے غفلت میں پڑ ے رہے ، بلکہ ہم نے تو اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا تھا۔“ (سورة الانبیائ21 آیت 97۔ 96) جو لوگ تاریخ عالم پر نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ حامی (افریقی) سامی (عربی اور عبرانی) نسل کے بعد اب دنیا کا اقتدار یافث کی اولاد کے ہاتھ میں آ چکا ہے اس نسل کی تمام اہم شاخیں یعنی ترک، یورپی، روسی، امریکی اور چینی اقوام دنیا کے اقتدار کے مزے لے چکی ہیں یا لے رہی ہیں۔ قرآن کریم میں بیان کردہ یاجوج ماجوج کا خروج شروع ہو چکا ہے اور بتدریج اپنے عروج کی طرف بڑ ھ رہا ہے۔اسی طرح حدیث جبریل جو ذخیرہ حدیث میں غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے اور جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت جبریل لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے انسانی صورت میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، اس میں بھی قرب قیامت کی جو پیش گوئی کی گئی ہے (’تم (عرب کے ) اِن ننگے پاو ¿ں ، ننگے بدن پھرنے والے کنگال چروا ہوں کو بڑ ی بڑ ی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے دیکھو گے۔(مسلم، رقم93)وہ مکمل طور پر پوری ہو چکی ہے۔ عرب میں پٹرول نکلنے کے بعد یہ سب کچھ ہورہا ہے اور دنیا کی بلند ترین عمارتیں عرب ہی میں بن رہی ہیں۔ بعض دوسری پیش گوئیاں بھی احادیث میں بیان ہوئی ہیں ، جن کا ظہور ابھی باقی ہے ، لیکن مذکورہ بالا پیش گوئیوں کی تکمیل کے بعد صاف لگتا ہے کہ قیامت کا معاملہ اب سر پر آ گیا ہے یہ تو مسلمانوں کا پس منظر ہے جس میں کسی شخص کو قیامت کی بات زیادہ دور نہیں لگتی، یہود و نصاریٰ کے ہاں قرب قیامت کی جو پیش گوئیاں ہیں وہ حضرت مسیح کی آمد کے ار دگرد گھومتی ہیں، بنی اسرائیل کے ہاں دو عظیم رسولوں کی آمد کی خوشخبری موجود تھی، ایک حضرت عیسیٰ جو مسیح کے لقب سے سرفراز ہوئے اور دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ حضرت عیسیٰ جس وقت تشریف لائے اس زمانے میں بنی اسرائیل بدترین اخلاقی بحران کا شکار تھے۔ ان کے اندر سے دینداری کی اصل روح ختم ہو چکی تھی اور سارا زور چند ظاہری اعمال پر تھابنی اسرائیل کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا واضح قانون جو تورات اور قرآن دونوں میں بیان ہوا ہے یہ تھا کہ وہ ایمان و اخلاق کے تقاضوں کو پورا کریں گے تو ان کو زمین میں سیاسی اقتدار بھی دے دیا جائے گا اس کے برعکس کرنے کی صورت میں ان پر سزا اور مغلوبیت نافذ ہو گی حضرت عیسیٰ کی آمد کے وقت بنی اسرائیل مغلوبیت کی اسی سزا کا شکار تھے اور ایمان و اخلاق میں پستی کی بنا پر رومیوں کے غلبے اور غلامی میں مبتلا تھے تاہم وہ اس امید میں جی رہے تھے کہ آنے والا مسیح دراصل ایک فوجی اور سیاسی لیڈر ہو گا جو ان کو اس مغلوبیت سے نجات دے گاان کی امیدوں کے برعکس حضرت عیسیٰ آئے تو نھوں نے کسی قسم کی جنگی اور سیاسی جدوجہد کرنے کے بجائے یہود کی اخلاقی پستی پر سخت تنقید کی یہ تنقید ان لوگوں کے لیے ناقابل قبول تھی وہ تو اس زعم میں تھے کہ آنے والامسیح آئے گا اور انھیں عروج و اقتدار دلادے گا بلاشبہ یہی ہوتا اگر یہود مسیح کی بات مان لیتے ، مگر اس کاراستہ جنگ و جدل نہیں بلکہ ایمان کی تجدید اور اخلاقی اصلاح کی شکل میں تھا یہود یہ کرنے کے لیے تیار نہ تھے اس لیے انہوں نے اپنے مسیح موعود کی تکذیب کر دی اور ان کے قتل کے درپے ہوگئے ،اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو ان کے شر سے بچاکر اپنے پاس اٹھالیا اور رسول کے کفر کی پاداش میں یہود پر وہ عذاب مسلط ہو گیا جس کی پیش گوئی حضرت عیسیٰ نے اپنے اٹھائے جانے سے چند ایام پہلے کی تھی، (متی1:24) اس کی شکل یہ ہوئی کہ یہود کے لیے حضرت مسیح کی تکذیب کے بعد رومیوں کی غلامی سے نکلنے کا واحد راستہ ’تلوار‘ تھا چنانچہ انھوں نے اپنے وقت کی سول سپر پاور کے خلاف بغاوت کر دی مگر یہی ان پر عذاب الٰہی کا کوڑ ا برسنے کا سبب بن گیا خدا کی مدد کے بغیر وہ رومیوں کے لیے تر نوالہ تھے چنانچہ مسیح کے چند برس بعد مشہور رومی حکمران نیرو کے دور میں ہونے والی یہود کی اس بغاوت کو کچلنے ٹائٹس رومی آیا۔ حضرت عیسیٰ کی پیش گوئی کے عین مطابق یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی لاکھوں یہود مارے گئے اور باقی جلا وطن کر دیے گئے۔ ہیکل سلیمانی تباہ و برباد کر دیا گیا سوائے اس ایک دیوار کے جس کے سامنے کھڑ ے ہوئے یہود آج تک روتے رہتے ہیں اور اسی بنا پر اسے دیوار گریہ کہا جاتا ہے یہود کو پھر بھی عقل نہ آئی اور انہوں نے مسیح کے بعد اپنے عروج کے دوسرے ممکنہ راستے یعنی رسالت محمدی پر ایمان لانے کے بجائے رسول عربی کا بھی انکار کر دیا اس کے بجائے انہوں نے اپنی امیدیں اس ’مسیح‘ کی آمد سے وابستہ کیے رکھیں جو پہلے ہی آ چکا تھا، مگر انھوں نے اس کا انکار کر دیا تھا۔ ٹائٹس رومی نے یہود کو یروشلم سے جلاوطن کر دیا تھااس جلاوطنی کے تقریباً دو ہزار سالہ دور میں ان کی مذہبی قیادت نے ان کی امیدوں کو زندہ رکھنے کے لیے مسیح کی آمد کے تصور کو برقرار رکھا اور ان کو یہ یقین دلایا کہ وہ یہود کو دوبارہ یروشلم میں آباد کرے گاتاہم یہود کا غیر مذہبی طبقہ جو ان پیش گوئیوں میں نہیں جی رہا تھا اس نے سیاسی، سماجی، معاشی اور علمی میدانوں میں مسلسل جدوجہد کی اور آخر کار مسلمانوں کی کمزوریوں اور حماقتوں کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل کی مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس واقعہ سے یہود کے مذہبی لوگوں کو ایک نئی زندگی مل گئی اور اب یہود کی فکری قیادت سیکولر یہود کے بجائے ان مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں میں منتقل ہورہی ہے جو اپنے آنے والے مسیح کا انتظار کر رہے ہیں ، جس کی آمد کے ساتھ وہ ایک زبردست جنگ کے بعد غیر عبرانیوں کو فلسطین سے نکال کر اس پورے علاقے میں اپنی مملکت قائم کرنے اور ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کے خواہشمند ہیں یہ سارے واقعات ان کے نزدیک قرب قیامت کی علامت ہیں جس کا آغاز یہود کی فلسطین واپسی سے ہو گیا ہے۔مسیحیوں کو ایک دوسرے پہلو سے زبردست غلط فہمی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یہود نے اپنے مسیح کو نہیں مانا اور ابھی تک اس کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ انجیل میں ایک دوسری پیش گوئی کی گئی تھی اس پیش گوئی کے کئی اجزا تھے یعنی رومیوں کی یروشلم پر چڑ ھائی اور ان کے ہاتھوں اس مقدس شہر کی تباہی، رومی بت پرستوں کے مسیح کے نام لیواو ¿ں پر ظلم و ستم، خود عیسائیوں کے اندر گمراہیوں کا پھیل جانا اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ عالمی سطح پر توحید کی دعوت اور اتمام حجت، (متی 1-14:24) مگر بدقسمتی سے مسیحیوں نےحضرت عیسیٰ کی اس پیش گوئی کو کچھ تو سمجھنے میں غلطی کی اور کچھ تحریف کر کے رسول اللہ کی آمد کو مسیح کی آمدِ ثانی سے بدل دیا چنانچہ جس طرح یہود نے اپنے حقیقی نجات دہندہ مسیح کو نہیں مانا اور ابھی تک مسیح کی آمد کے منتظر ہیں ، ٹھیک اسی طرح عیسائیوں نے رسول اللہ کو نہیں مانا اور نبی عربی کے بارے میں انجیل کی تمام پیش گوئیوں کو مسیح سے منسو ب کر دیا اس لیے وہ بھی آج تک مسیح کی آمد ثانی کے منتظر ہیںمسیحی حضرات نے کس طرح دھوکا کھایا اس کی ایک نمایاں مثال حضرت عیسیٰ کا و ہ خواب ہے جو انجیل میں مکاشفے کے نام سے موجود ہے، اس خواب میں آخری زمانے کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں وہ سب پوری ہو چکی ہیں، مکاشفے کے باب 19 کی آیت 11 سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیش گوئی شروع ہوتی ہے پھر تمثیلی اسلوب میں صحاب کرام کے مڈل ایسٹ پر غلبے اور مسیحیت میں پیدا ہونے والے شرک کی گمراہی کے واضح ہوجانے کا بیان ہے ساتھ ہی یہ وضاحت ہے کہ اس کے بعد شیطان کو ہزار برس کے لیے قید کر دیاجائے گا یہ دراصل توحید پر مبنی مسلمانوں کے عالمی اقتدر کی ایک تعبیر ہے رسول اللہ اور صحابہ کے ہاتھوں برپا ہونے والے سزا و جزا کے ان واقعات کو مکاشفے میں پہلی قیامت کہا گیا ہے پھر یہ پیش گوئی ہے کہ ہزار سال بعد شیطان کوکھول دیا جائے گا اور وہ یاجوج ماجوج کو گمراہ کرے گا جو زمین میں جنگ و فساد برپا کر دیں گے ، (مکاشفہ 7-8:20) یہ دراصل یورپ میں آنے والے اس فکری انقلاب کی تعبیر ہے جسے احیائے علوم کہا جاتا ہے اور جس نے زندگی کے تمام شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں، یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھیک ہزار برس بعد یعنی سولہویں صدی میں پیش آیا اس فکری انقلاب کے نتیجے میں ایک طرف صنعتی انقلاب آیا اور دوسری طرف خدا اور آخرت کا انکار کر دیا گیا انہی چیزوں کو لے کر یورپی اقوام اپنے وطن سے نکلیں اور دنیا بھر میں جنگ و فساد برپا کر دیا جس کا نقطہ عروج دو عظیم جنگوں کی شکل میں سامنے آیا۔یہ وہ واقعات ہیں جنھیں مکاشفے میں ہزار سال بعد شیطان کے آزاد ہوجانے ، یاجوج ماجوج کو گمراہ کر کے لڑ ائی کی آگ پھیلانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ کے اس خواب کا ایک ایک جز اپنی پوری تعبیر پا چکا ہے تاہم جب عیسائیوں نے حضور ہی کو نہیں مانا اور اس پیش گوئی میں رسول اللہ کے نام کو ہٹا کر اس کی جگہ مسیح کی آمد ثانی کو مراد لے لیا تو ان کے لحاظ سے یہ سارے واقعات ابھی پیش ہی نہیں آئے اور وہ ابھی تک مسیح کی آمد کے منتظر ہیں البتہ ہزار سال کے ذکر سے ان کا ذہن اس طرف چلا جاتا ہے کہ عیسوی کیلنڈر میں ہزار سال ہونے پر مسیح کی آمد ثانی ہو گی اور پھر ہزار برس تک مسیح کا دور باقی رہے گا جسے وہ لوگ آسمانی بادشاہی کہتے ہیں چنانچہ پہلے ہزار سال پورے ہونے پر عیسائیوں نے صلیبی جنگیں برپا کر دی تھیں تاکہ یروشلم پر قبضہ کر کے وہاں مسیح کا استقبال کریں جب کہ دوسرے ہزار سال پورے ہونے پر ایک دفعہ پھر وہ مسیح کی آمد، اس کے بعد یاجوج ماجوج کے ساتھ ہونے والی عظیم جنگ کے منتظر ہیں، یہود کے لیے ان کی مملکت کا قیام اگر آخری زمانے کی نشانی تھی تو نصاریٰ کے لیے دوسرے ہزار برس کا آغاز آخری زمانے کی ایک علامت ہے۔دین محمدی کے اس دور کو یہ تمام اقوام آخری زمانہ سمجھتی ہیں۔ میرے نزدیک اس ضمن کی اہم ترین بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب انسانیت کے لحاظ سے یہ تھا کہ آپ دنیا بھر کے لیے نذیر و بشیر ہیں ، ( سورةفرقان آیت1:25، سورة سبا آیت 28:34) یعنی آپ ﷺدنیا کو قیامت کے بارے میں متنبہ کرنے آئے ہیں۔ خوش قسمتی سے آج جب دنیا بھر میں زمانے کے اختتام کی باتیں ہورہی ہیں ، اقوام عالم قیامت کی بات کو سننے کے لیے ہمیشہ سے زیادہ تیار ہیں، آج مسلمانوں کے لیے کرنے کا سب سے بڑ ا کام یہ ہے کہ وہ ختم نبوت کے بعد آپ کے اس مشن کو پورا کرنا اپنا مقصد بنالیں یعنی قیامت اور آخرت کے بارے میں لوگوں کو متوجہ کریں ، جب تمام انسان ایک اللہ کے حضور پیش ہوکر اپنے اعمال کا جواب دیں گے اس روز نیک بندے جنت کی ابدی نعمتوں میں رہیں گے اور خدا کے نافرمان و سرکش جہنم کے گھڑ ے میں جاگریں گے یہی اس وقت مسلمانوں کے کرنے کا سب سے بڑ ا کام ہے۔مسلمانوں کے لیے عظیم موقع ہے ان کے پاس دین کامل موجود ہے وہ آخری کتاب، آخری شریعت اور دین حق کے امین ہیںرسالت محمدی کے پیغام کو اب کوئی تبدیل نہیں کرسکتا آپ نے سرزمین عرب میں اللہ کے حکم سے جو سزا و جزا برپا کی تھی وہ آپ کی سچائی اور قیامت کا سب سے بڑ ا ثبوت ہے مسلمانوں کو اس انفارمیشن ایج کا فائدہ اٹھا کر نبوت و رسالت کی اس بے مثال داستان محمدی کو دنیا بھر تک پہنچادینا ہے یہی ان کے لیے کرنے کا اصل کام ہے اسی میں ان کے ہر عروج اور کامیابی کا راستہ پوشیدہ ہے۔ مگر افسوس صد افسوس پاکستان جو تمام اسلامی ریاستوں میں اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے اسے یہود و عیسائی اور دیگر غیر مسلم مستحکم ہونے نہیں دیتے وہ نام نہاد سیاستدان، علماءو دین کے ٹھیکداران کو خرید کر بہت بڑے مقاصد کیلئے استعمال کرتے چلے آرہے ہیںکچھ بے ضمیر، بے دین ، منافق ان کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ پاکستان کے نظام کو جب تک مکمل خالصتاً اسلامی نظام کے تحت نہیں رائج کیا جائیگا اُس وقت تک اسے کوئی نہ کوئی برباد کرنے کیلئے مختلف چہروں، لباسوں، زبانوں، اداﺅں کا استعمال کرتا رہے گا اور پاکستان ہی کے نامور لوگوں کو خرید کر اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے نت نئے اشو بنائے جائیں گے اور مختلف ڈراموں ، جھوٹ و افلاس کے ساتھ اس قوم کو دھوکے دیکر مستقلاً بربادی کے عوامل کیئے جائیں گے اپنے حواریوں کو مکمل شیٹل دیکر طاقتور بناکر آزادانہ ظلم و تشدد کرواتا رہے گا اور دوسری جانب ہر حملوں کی ذمہ داری قبول کرواتا رہا گا گو کہ پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ اب صرف عوام کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے اور اپنے اندراتفاق، امن ،یقین اور محکم اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنا ہوگا ورنہ یہ دشمنان اسلام اس قوم کو دین سے دور کرکے ان کا ایمان کھا جائیں گے ۔۔۔۔۔!!
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 248289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.