اکبر اویسی کی گرفتاری ---- پس منظر

ہمارا میڈیا (اس میں بھی زیادہ تر ٹی وی چینلز) بات کا بتنگڑ بنانے میں شائد ساری دنیا سے آگے ہیں آج کل ٹی وی کے تمام چینلز دہلی میں لڑکی عصمت دری کے معاملے کو سب سے زیادہ اہمیت دینے میں سرگرم عمل ہیں اور اب اکبر الدین اویسی رکن اسمبلی کا معاملہ بے حد اہمیت کا حامل بنایا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کی تاریخ میں اکبر الدین اویسی سے زیادہ خطرناک ، بھڑکاؤ اشتعال انگیز بیان جیسے کسی نے دیا ہی نہ ہو۔ کسی کے بیان پر اتنا غیر ضروری ہنگامہ شائد ہی کبھی ہوا ہے۔ ان کی گرفتاری سے صورت حال بے حد سنگین ہوگئی ہے۔

میڈیا کا ان معاملات میں رویہ بادی النظر ہی میں مصنوعی اور غیر حقیقی نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی مرضی یہی ہے کہ پیالی میں طوفان اٹھایا جائے تاکہ عوامی مسائل کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹائی جائے تاکہ عوام اپنے دکھ اور مسائل کو بھول کر ان غیر اہم باتوں میں الجھے رہے ہیں۔

آندھراپردیش اس وقت ملک کی شائد سب سے زیادہ مسائلی ریاست ہے ایک طرف بجلی و پانی کے مسائل ہیں گرانی و ہنگامی سے ملک کی ساری ریاستوں کی طرح آندھراپردیش بھی پریشان ہے دوسری طرف سیاسی طور پر بھی ریاست کی صورت حال اضطراب و انتشار سے دوچار ہے اور حکمران کانگریس ہی سب سے زیادہ مسائل و پریشانیوں کا شکار ہے۔ مسئلہ تلنگانہ کانگریس کے لیے ایک ایسی ہڈی بن گیا ہے جس کو وہ نہ نگل سکتی ہے اور نہ ہی اگل سکتی ہے۔ اگر وہ تلنگانہ کے قیام سے اکار کرتی ہے تو علاقہ تلنگانہ میں اس کو آنے والے انتخابی معرکے میں عبرت ناک انجام کے لئے تیار رہنا ہوگا اگر وہ قیام تلنگانہ کا مطالبہ تسلیم کرلیتی ہے تو علاقہ آندھرا میں اس کا انجام عبرت ناک ہوگا۔ تمام ریاستوں کی طرح مخالف حکومت رجحان آندھراپردیش میں بھی ہے علاوہ ازیں کانگریس کی سب سے بڑی پریشانی وائی ایس آر کانگریس ہے۔ وائی ایس آر کی تمام آندھراپردیش میں بڑھتی ہوئی مقبولیت سے ریاستی و مرکزی کانگریس بوکھلا گئی ہے گوکہ علاحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام کی وائی ایس آر کانگریس نے تائید نہیں کی ہے پھر بھی تلنگانہ میں وائی ایس آر کانگریس کی مقبولیت حیرت انگیز ہے۔ تلگودیشم کے قائد چندرا بابو نائیڈو بھی بڑی سرگرمی دکھا رہے ہیں۔ تاہم وہ اپنی مساعی میں کس حدتک کامیاب ہوں گے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں شائد ہی مل سکے کیونکہ وائی ایس آر کانگریس کی سونامی کے آگے بابو بھی شائد ہی کچھ کرسکیں۔

ریاستی حکومت ان مسائل سے اس قدر پریشان ہے کہ صورت حال اس سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہے مرکزی قیادت کی ایک مجبوری یہ ہے کہ علاحدہ تلنگانہ کے مطالبے کے تناظر میں وہ آندھرا کے علاقہ کے کسی قائد کو وزیر اعلیٰ بناتی ہے تو تلنگانہ کے علاقہ میں عوام کے جذبات اور بھی شدید ہوجائیں گے۔ برخلاف اس کے تلنگانہ کے کسی قائد کو وزارت اعلیٰ سونپی جاتی ہے تو حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے۔ ان حالات میں وہ اپنی نا اہلی کے باعث بہ حیثیت وزیر اعلیٰ ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ بد نظمی سے دوچار ہے امن و قانون کی صورت حال بگڑ چکی ہے لیکن مجبوری کا نام کرن ریڈی بن گیا ہے۔

علاحدہ تلنگانہ کے قیام کی مجلس اتحاد المسلمین 1964ء سے ہی خلاف رہی ہے گوکہ مجلس کا یہ کہنا ہے کہ علاحدہ تلنگانہ میں بی جے پی کا زور بڑھ جائے گا۔ مسلمانوں میں عام طور پر مجلس کے اس ادعا کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے ۔ دہلی میں حال ہی میں ہوئی کل جماعتی کانفرنس میں نئی دہلی میں مجلس نے پہلے تو ریاست کی تقسیم کی مخالفت کی ہے لیکن اگر ریاست کی تقسیم کو ناگزیر تصور کیا جاتا ہے تو صرف تلنگانہ پر مشتمل ریاست کی جگہ تلنگانہ و آندھرا پر مشتمل ایک ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے اس تجویز پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ رائل تلنگانہ میں مسلم آبادی کا فیصد آندھراپردیش کی موجودہ مسلم آبادی (9.17) % سے زیادہ یوں ہوگی کہ تلنگانہ میں مسلم آبادی (12.51)%اور رائلسیما میں مسلم آبادی (12.45)%سے نیز رائلسیما ’’اردو زبان و تہذیب کے علاقے ہیں اس طرح ان دونوں علاقوں پر مشتمل ریاست میں اردو بولنے والے مسلمان یکجا رہیں گے جس کی وجہ سے ان کی سیاسی قوت بڑھ جائے گی ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست کو متحد رکھنے پر اصرار کی جگہ وائی ایس آر کانگریس کے ساتھ مل کر رائل تلنگانہ کے قیام پر زور دے۔ یوں بھی آندھراپریش میں مسلمانوں کو ہوئے فوائد اور نقصانات پر از سر نوغور کرنا چاہئے کیونکہ آندھراپردیش میں بھی مسلمانوں پر خاصے مظالم ہوتے رہے ہیں حال ہی میں چارمینار سے متصل غیرقانونی طور پر تعمیر شدہ ’’بھاگیہ لکشمی مندر‘‘ کا معاملہ ہویا کوئی اور اس کا رویہ بی جے پی کی حکومتوں سے مختلف نہیں رہا ہے اس لیے متحدہ ریاست میں مسلمانوں کو جب کچھ نہیں ملا ہے تو ہم متحدہ ریاست کی تائید کیوں کریں؟ متحدہ ریاست میں تلگودیشم بڑی قوت بن کر ابھری تھی اور اس بڑی قوت کی مدد سے ہی ملک پر این ڈی اے کی زیرقیادت بی جے پی حکومت مسلط ہوئی تھی۔ متحدہ آندھراپردیش میں ہی بابری مسجد کے مجرم نمبر ایک نرسمہا راؤ کو بڑی عزت ملی ان کے نام پر شاندار فلائی اوور کو موسوم کیا گیا ہے۔

علاحدہ تلنگانہ کے قیام کی تحریک کی بدقسمتی یہ رہی ہے کی اس کو نااہل اور ’’قابل فروخت‘‘ قیادت ملی چناریڈی نے اترپردیش کی گورنری کی خاطر تلنگانہ تحریک کو لکھنؤ کے راج بھون میں دفن کردیا تھا اور اب کے سی آر اتنی بڑی تحریک کی قیادت کی صلاحیت سے محروم ہیں اسی وجہ سے نہ تحریک کامیاب ہوسکی اور نہ ہی اس کی تائید میں اضافہ ہوا۔ الٹا یہ ہوا کہ انہوں نے قیادت پر گرفت مضبوط نہ رکھی اور بی جے پی کا عنصر قیادت پر حاوی آگیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوگیا اور مسلمانوں کی وہ تائید حاصل نہ ہوسکی جس کی توقع تھی۔

وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی میں اس تدبر اور فراست کی کمی ہے جس کی بناء پر وہ تمام مشکلات پر قابو پاسکتے ۔ کانگریس میں نرم ہندتوا کے علم برداروں نے ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کے لیے غلط فیصلوں پر آمادہ کرلیا۔ انہوں نے پہلے بھاگیہ لکشمی مندر کے معاملے میں اپنی حکمت عملی فرقہ پرستی کے اصولوں اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر ترتیب دی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بھاگیہ لکشمی مندر کے معاملے میں دھاندلیاں کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے یہ نہ سوچاکہ وہ خود کو پکاحیدرآبادی کہتے ہیں جبکہ ہر حیدرآباد جانتا ہے کہ بھاگیہ لکشمی مندر کا وجود 45تا50سال پہلے تک نہ تھا۔ ان کی بے اصولی اور بی جے پی نوازی نے ان کو مجلس سے دور کردیا مجلس سے دوری سے مجلس کو نقصان کم اور کانگریس کو زیادہ ہوا۔

انتقامی سیاست کا نشانہ بنانے کے لیے کرن کمار ریڈی نے اصولوں، وضع داری کو خیرباد کہہ دیا۔ حکومت کی ایم آئی ایم سے دشمنی بڑھانے میں حیدرآباد کے ممتا ز اردو روزنامہ کا رول انتہائی مذموم رہا ہے۔ مجلس کی مخالفت ہم بھی بعض معاملوں میں کرتے ہیں لیکن ایم آئی ایم کی مخالفت میں ملت کا مفاد بالائے طاق رکھنا غداری ہے۔ ایم آئی ایم کے ووٹرس یا پرانے شہر کے مسلمانوں کو ’’جاہل illiterate‘‘ کہہ کر ان کو ووٹ نہ دینے والوں کو نشانہ بنانے کی کوشش میں خود ہی ان میں شامل ہوگئے کیونکہ موصوف کی رہائش پرانے شہر میں ہی ہے اور موصوف کو بھی ان ہی جاہلوں میں سے زائد ازایک لاکھ ووٹرس نے ووٹ دیا تھا۔ ایسی باتوں سے نہ روزنامہ کو فائدہ ہے اور نہ ہی ایم آئی ایم کو نقصان ہوگا۔

لیکن روزنامہ کی ساکھ ضرور متاثر ہوئی اور اخبار اور اس کے گروپ نے ایم آئی ایم کے خلاف پروپگنڈہ کرکے اپنا ہی نقصان کیا اور خود کو’’تفرقہ بین المسلمین‘‘ کا علمبردار بنالیا۔

حکومت نے اکبر الدین اویسی کے خلاف جس انداز میں اور جس طرح کارروائی کی وہ اس بات کی مظہر ہے کہ حکومت نے سیکولر ازم ہی نہیں بلکہ آزادی و مساوات کے اصولوں کی ہی دھجیاں اڑائی ہیں بلکہ دنیا پر ظاہر کردیا ہے کہ مسلمانوں کو حکومت کے مزاج نازک پر گراں گذرنے والی بات کہنے کی تک آزادی نہیں ہے جبکہ توگاڑیہ کو چارمینار کو ایودھیا بنادینے کی دھمکی دینے کا حق حاصل ہے۔ ’’ہندورکھشاسمتی کے سوامی کملانند بھارتی مسلمانوں کو جارحانہ انداز و زبان میں انتہائی سنگین اور نفرت انگیز دھمکیاں دے سکتے ہیں۔

بال ٹھاکرے، راج ٹھاکرے، اشوک سنگھل، توگاڑیہ،ونے کٹیار، اومابھارتی، نریندر مودی کو مسلمانوں کے خلاف پولنے کی نفرت پھیلانے کی آزادی حاصل ہے اور بعض مسلمانوں نے اس معاملے میں جس مرعوبیت اور خوف زدگی ہی نہیں بلکہ منافقت کا ثبوت دیا ہے اس کو مورخ کبھی معاف نہیں کرے گا اور سوال اٹھائے گا خدا پر بھروسہ کرنے والی قوم کا یہ حال کیسے؟ کیونکر؟ اور کس طرح؟ ہوگیا؟
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.