حکومت اورعلامہ طاہر القادری کااسلام آباد آبروبچاوُ اعلامیہ

ایک طویل عرصےملک سے باہر رہنے کے بعد علامہ طاہر القادری پاکستان واپس آئے اور 23 دسمبر 2012 کو انہوں نے مینار پاکستان کے سائے میں جلسۂ عام کیا۔اس سے پہلے پاکستانی میڈیا پرایک بھرپور اشتہاری مہم اس جلسے کے سلسلے میں چلی اور پاکستانی میڈیا پر معتدد انٹرویو دیئے۔ جلسے کے لیے جو اشتہاری مہم چلائی گئی اس پر جس قدر پیسہ خرچ کیا گیا، اس کی مثال پاکستان کے ماضی کے کسی جلسے یا جلوس کی نہیں دی جاسکتی۔ علامہ طاہرالقادری بنیادی طور پر ایک اسکالر ہیں اور ایک کامیاب اسکالر بغیر تحقیق کے آگے نہیں بڑھتا۔ علامہ طاہرالقادری پاکستان میں پہلے بھی سیاست کرچکے ہیں مگر کوئی خاص کامیابی نہیں ملی لہذا اس مرتبہ وہ پاکستانی سیاست پر کافی تحقیق کے بعد ہی سیاست میں داخل ہوئے ہیں۔ علامہ صاحب نے اپنی تحقیق سے جان لیا کہ پاکستانی سیاست ایک کاروبار ہے اور دولت کے بغیر انکی سیاست نہیں چل سکتی ، دوسرے پاکستان کی موجودہ صورتحال میں فوج اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ کاروبار حکومت سنباال سکے ، آخری چیز جو انکے سامنے آئی کہ اس وقت پاکستان میں سب زیادہ نفرت امریکہ سے ہی کی جاتی ہے۔لہذا انہوں نے 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان کے سائے میں جو جلسۂ عام کیا اس میں تین حلف اٹھاے۔ اپنے حلفوں میں انہوں نے فرمایا: "اس جلسے کے لیے ایک روپیہ تک کسی نے امداد نہیں دی بلکہ تمام اخراجات منہاج القرآن کے کارکنان اور عوام نے خود اپنی جیب سے کیے ہیں۔ میں کسی بیرونی طاقت کے کہنے پر پاکستان نہیں آیا، نہ ہی میں کوئی بیرونی ایجنڈا پاکستان لانا چاہتاہوں۔ اس اجتماع کی بنیاد ہرگز ہرگز آئین پاکستان کے خلاف نہیں اور نہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے۔ اس عوامی جلسے کا مقصد کسی فوجی یا ملٹری ٹیک اوور کی طرف اشارہ نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو میں خود ملک کے تمام جمہوری اور سیاسی قائدین کے ساتھ فوجی ٹیک اوور کو روکنے والوں میں سب سے آگے ہوں گا"۔ یہ ان کی تحقیق کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی سیاسی جماعت "پاکستان عوامی تحریک" کو پس پشت ڈال کر ادارہ منہاج القرآن کے زریعے اپنی سیاست شروع کی۔ علامہ طاہرالقادری جانتے ہیں کہ پاکستان میں عوامی تحریک کے نام سے شاید ہی کوئی واقف ہو مگر ادارہ منہاج القرآن کی عام پہچان ہے۔ اس کے ہزاروں کارکن ہیں، ایک منظم انتظامیہ ہے۔پھر اخراجات کا حساب دینا بھی مشکل نہیں، اور سب سے زیادہ منہاج القرآن کے نام پر اکثریت کو اور خاصکر خواتین کی اکثریت کو جلسے اور دھرنے میں لانا بہت آسان ہوگا۔ جہاں تک جلسے میں شامل لوگوں کی تعداد کا تعلق ہے اسے ایک بڑا جلسہ قبول کرنے میں کوئی دو رائے نہیں جس میں خواتین کی ایک اکثریت بھی تھی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے اوپر پورا پورا عمل ہونا چاہیے اور اس کام میں اگر نوے دن سے زیادہ بھی لگ جائیں تو آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت بنانے کے لیے دو پارٹی کا مک مکا نہیں چلے گا اس لیے مطالبہ کیا حکومت کے اندر اور باہر موجود سیاسی قوتوں کی نمائندگی کے علاوہ عدلیہ اور فوج کی بھی نمائندگی ہو۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اگر 10 جنوری تک ان کے مطالبات پورے کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو وہ 14 جنوری کو اسلام آباد میں عوامی پارلیمنٹ لگائیں گے۔ انھوں نے اپنی تنقید کا نشانہ زیادہ تر مرکز اور پنجاب میں برسراقتدار پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کوبنایا۔ اس جلسے میں ایم کیو ایم کے وفد نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی ۔ علامہ طاہرالقادری کے حلفوں کا ایک ایک لفظ اور انکے مطالبات اور انتظامات اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ وہ اپنا ہوم ورک بہت اچھی طرح کرکے آئے ہیں۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485598 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More