تھرکول سے کوئلہ نکالنے کے حوالے
سے غیر معمولی بھارتی دلچسپی سامنے آئی ہے۔ بھارتی سفارتخانے میں ”را“ کے
سٹیشن چیف اروند سکسینا جو کہ اکنامک و کمرشل قونصلر کے طور پر اس حوالے سے
بہت متحرک ہیں۔ وہ سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح سندھ اینگرو کول مائننگ
کمپنی اور ٹاٹا اینڈ دھل کے درمیان ڈیل ہو جائے۔ اینگرو گروپ کی ذیلی کمپنی
سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی گزشتہ تین سال سے تھرکول کی فزیبلٹی رپورٹ
تیار کررہی ہے۔ تھرکول سے بارہ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے اور
کوئلہ نکالنے کےلئے سکمک (SECMC) کو تین بلین امریکی ڈالر کی ضرورت ہے۔
سکمک کے سی ای او شمس الدین شیخ بھی پاکستانی کوئلہ بھارت کو فروخت کرنے کی
کوشش کرتے رہے ہیں تاکہ تھر کا کوئلہ گجرات اور نیولی تامل ناڈو کے بھارتی
منصوبوں کےلئے استعمال کیا جاسکے۔ جبکہ اروند سکسینا، سکمک کے منیجر بزنس
ڈویلپمنٹ و مائننگ انجینئرنگ کا نیولی مائنز، تامل ناڈو اور گجرات منزل
ڈویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ بھارت کے بھی مختلف دوروں کا اہتمام کرا چکے ہیں۔
قبل ازیں پانچ رکنی بھارتی وفد لاہور اور کراچی میں ایوان ہائے صنعت و
تجارت، کراچی چیمبر و کامرس اینڈ انڈسٹری اور لاہور چیمبر و کامرس اینڈ
انڈسٹری کا دورہ کر چکا ہے۔سکمک کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی
کمپنیوں تک ٹاٹا پاور اینڈ بھیل (بھارت ہیوی الیکٹریکل لمیٹڈ) کے ساتھ
تھرکول کی اوپن کاسٹ مائننگ کی ٹیکنالوجی ٹرانسفار کے لئے مشاورت کررہے ہیں۔
جولائی 2012ءکو وزیر اعلیٰ سندھ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ سمیت بارہ رکنی
پارلیمنٹری ٹریڈ وفد نے بھارت کا دورہ کیا اور تھرکول پراجیکٹ میں تعاون کے
امکانات پر بات چیت کی۔ ٹھیک اس وقت جب پاکستانی پارلیمانی وفد بھارت کے
دورے پر تھا صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست رکن قومی اسمبلی مہیش میلانی
نے بھی بھارت کا دورہ کیا۔ جس سے ان قیاس آرائیوں نے جنم لیا کہ امریکہ
بھارتی پشت پناہی میں بدعنوان سیاسی تجارتی مافیا ملٹی بلین ڈالر کے تھرکول
پراجیکٹ کی خفیہ سودے کاری میں ملوث ہے جس میں مبینہ طور پر صدر آصف علی
زرداری ، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، سیدہ نفیسہ شاہ ایم این اے پی
پی پی اور ڈاکٹر مہیش میلانی ایم این اے پی پی پی کے نام شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تھرکول پراجیکٹ کو کور آف انجینئرز کے میجر جنرل(ر)
پرویز اکمل کی ایڈمنسٹریشن اور فنی و سائنسی مشاورت میں ترجیحی بنیادوں پر
ترقی دی جائے جو پہلے ہی تھرکول کے انسٹیٹیوشنل ماڈل کی ڈویلپمنٹ پر کام
کررہے ہیں یا پھر پنجاب یونیورسٹی کے سنٹر فار کول ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر
پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر کی صلاحتیوں سے اس ضمن میں بھرپور استفادہ کیا
جاسکتا ہے۔
اب یہ بات اچھی طرح سمجھ آتی ہے کہ آخر کیوں ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو تھرکول
منصوبے کے لئے فنڈز کے اجراءمیں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہی ہیں اور اس ضمن میں
مختلف حیلوں بہانوں سے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
بھارت پاکستان کو معاشی عدم استحکام کا شکار کرنے کے کئی منصوبوں پر عمل
پیرا ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر انجینئر سخی
محمد بھٹہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں مختلف سیمیناروں اور کانفرنسوں میں
برملا یہ بات کہتے رہتے تھے کہ کالا باغ ڈیم منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے
بھارتی ”را“ نے بڑے پیمانے پر پیسے تقسیم کیے اور کالا باغ ڈیم لابی کو
مضبوط اور متحرک رکھا تاکہ پاکستان خوشحالی اور خود کفالی سے ہمکنار نہ
ہوسکے۔ ایم کیو ایم حقیقی کے آفاق احمد بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ بھارتی
”را“ نے سندھ میں کالا باغ ڈیم منصوبے مخالف لابی کے سیاستدانوں اور دیگر
افراد میں بڑے پیمانے پر فنڈز تقسیم کیے۔ |