سب سے پہلے ان لوگوں سے اظہار
تعزیت کرتا ہوں جو قادری صاحب کے دھرنے سے کسی انقلاب کی آس لگائے بیٹھے
تھے۔بات یہ ہے سیاست دانوں کی لوٹ مار، مفاہمتی پالیسی کے نام پر مک مکا،
عوامی مسائل کے حل سے پہلوتہی کی وجہ سے لوگ ان سے بیزار ہوچکے ہیں، وہ
تبدیلی چاہتے ہیں، ایسے میں جو بھی شخص انقلاب کا نعرہ لگاتا ہے، قوم رہبر
سمجھ کر اس کے پیچھے ہوجاتی ہے مگر اکثر رہبر رہزن نکلتے ہیں۔ ایک عرصے سے
قوم کے ساتھ یہی مذاق ہورہا ہے۔ اس بار قادری صاحب قوم کو ”ماموں“ بناکر
چلتے بنے ہیں۔
لاہور کا جلسہ اور اسلام آباد میں دھرنا اچانک نہیں دیا گیا، بلکہ ان کے
پیچھے کئی ماہ کی منصوبہ بندی تھی۔ طاہرالقادری چاہتے کیا تھے، یہ اب بھی
راز ہے۔ ہر شخص محض اندازے لگارہا ہے، کسی کا خیال ہے وہ انتخابات ملتوی
کراکر طویل المدتی نگران حکومت قائم کرانا چاہتے تھے۔ کسی کا فرمانا ہے
حضرت فوج کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے آئے تھے۔ ایک بات یہ بھی کہی جارہی
ہے کہ انہیں زرداری لائے ہیں تاکہ پنجاب میں ن لیگ کو تنگ کےا جاسکے۔
امریکا پر بھی شک کیا جارہا ہے لیکن وہ باربار قادری صاحب سے اظہار لاتعلقی
کررہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے طاہرالقادری کے پیچھے ایران ہے، یہ
کیا معاملہ ہے؟ اس کی مولانا صاحب نے مزید تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔ بات
خواہ کچھ بھی ہو، حقیقت یہ ہے طاہر القادری نے اس ایڈونچر سے ذاتی حیثیت
میں بہت سے فائدے حاصل کیے ہیں۔
طاہرالقادری نے گزشتہ کئی برسوں سے اپنی سرگرمیوں کا مرکز پاکستان سے باہر
کی دنیا کو بنایا ہوا ہے، درجنوں ممالک میں ان کا مضبوط تنظیمی نیٹ ورک
قائم ہے۔کئی ملکوں مےں یہ حکومتی سطح پر بھی تعلقات بنانے میں کامیاب رہے
ہیں۔ عالمی سطح پر ان کی شناخت ایک مذہبی اسکالر کے طور پر ہے۔ طاہر
القادری شروع دن سے سیاست میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں، اس لیے ان کی خواہش ہے
کہ عالمی برادری انہیں پاکستان کی مو ¿ثر سیاسی قوت بھی تسلیم کرے۔ آپ نے
نوٹ کیا ہوگا کہ لاہور جلسے اور اسلام آباد میں دھرنے میں ان کا فوکس عالمی
برادری پر رہا تھا۔ انگریزی میں تقاریر اس کے لےے ہی ہوتی تھیں۔ 25روزہ
دھماچوکڑی کی وجہ سے وہ عالمی برادری کی نظرمیں آگئے ہیں۔ امریکی اور
برطانوی وزارت خارجہ نے اس دوران کئی بار ان کے متعلق بیانات جاری کیے،
عالمی پریس نے بھی ان کو نمایاں کوریج دی۔ دہشت گردی، خواتین اور اقلیتوں
سمیت بیشتر معاملات پر وہ مغرب کے ہم نوا ہیں، ایک ایسا شخص جو مذہبی حوالے
سے تعارف رکھتا ہو اور سیاسی قوت بھی اس کے پاس ہو، مغرب بھاگ کر اسے گودلے
لے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ مغربی دنیا مستقبل میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے
میں طاہرالقادری کو بھی حصہ دلوانے کی کوشش کرے گی۔
23دسمبر کے جلسے سے پہلے کتنے لوگ طاہرالقادری کو جانتے تھے؟ زیادہ سے
زیادہ مذہبی حلقوں میں اپنے اوٹ پٹانگ بیانات کی وجہ سے موضوع بحث بنتے تھے
یا پھر سیاسی لوگ ان کے نام سے واقف تھے۔ اور آج؟ ملک مےں شاید ہی کوئی
ایسا شخص ہو، جو طاہرالقادری کے حوالے سے کچھ نہ جانتا ہو۔ پرسوں میں نے
کچھ بچوں کو دیکھا وہ قادری صاحب کی نقل اتار رہے تھے۔ الیکٹرانک میڈیا کی
مہربانی سے وہ تقریباً 25روز قوم پر مسلط رہے۔ دیگر جماعتیں بھی طاہر
القادری سے بڑے جلسے کرتی رہی ہیں مگر میڈےا انہیں تو چند منٹوں میں
نمٹادیتا ہے لیکن قادری صاحب کے چار چار گھنٹوں پر مشتمل خطاب براہِ راست
نشر کیے گئے، لانگ مارچ کے حوالے سے خصوصی نشریات کی گئیں، جس کی وجہ سے
طاہرالقادری گھر گھر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ قادری صاحب کے مقاصد اور
طریقہ کار سے لاکھ اختلاف سہی لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ان کی تقریریں عوام
کے دل کی آواز تھیں۔ لوگ یہی کچھ سننا چاہتے تھے۔ میڈیا پبلسٹی اور لچھے
دار گفتگو کی وجہ سے طاہرالقادری اپنے حامیوں کی تعداد بڑھانے میں کامیاب
رہے۔
طاہرالقادری کئی برسوں سے سیاسی میدان سے غائب تھے۔ اگر وہ خاموشی کے ساتھ
دوبارہ سیاست مےں قدم رکھتے تو انہیں کوئی اہمیت نہ دیتا، اس لیے انہوںنے
اس انداز سے انٹری ڈالی ہے جیسے ٹارزن کی واپسی ہوئی ہو۔ بلاشبہ انہوںنے
لاہور میں تاریخی جلسہ کیا، اسلام آباد کا دھرنا بھی بے مثال تھا، اس دھرنے
میں شرکاءکی تعداد کتنی تھی؟ اس پر بہت کہا سنا جارہا ہے، اصل بات یہ ہے
شرکاءجتنے بھی تھے انتہائی منظم، دھن کے پکے اور اپنے قائد کے وفادار تھے۔
ان افراد نے سخت سردی اور موسلادھار بارش میں بھی سڑکوں پر موجود رہ کر
کمال کردکھایا۔ یہ لوگوں کا خلوص تھا، پاگل پن تھا یا آپ جو چاہیں اسے نام
دے لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ طاہرالقادری نے لوگوں کے اس والہانہ پن کو اپنے
مقاصد کے لیے بڑی خوب صورتی سے استعمال کیا۔ لوگ سمجھتے تھے ان کے ساتھ چند
افراد پر مشتمل ٹولہ ہے مگر منظم دھرنے نے قادری صاحب کو موثر سیاسی شخصیت
کے طور پر قوم کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ادارے آیندہ
جوڑتوڑ میں انہیں بھی ساتھ ملانے کی کوشش کیا کریں گے۔
مولانا نورانی جیسی قدآور سیاسی شخصیت کے انتقال کے بعد سے بریلوی مکتب فکر
قیادت کے بحران سے دوچار ہے، مختلف شخصیات کے درمیان رسہ کشی کی وجہ سے یہ
مکتب فکر درجنوں گروپوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ اس مسلک کے پڑھے لکھے لوگ
طاہرالقادری کے ساتھ ہیں مگر ہم مسلک روایتی علماءان کے خلاف سخت فتوے جاری
کرتے رہے ہیں۔ ”خطرے کی گھنٹی“ نامی کتاب میں ان فتوو ¿ں کو دیکھا جاسکتا
ہے۔ طاہرالقادری کسی مسلک کی نمایندگی نہ کرنے کا تاثر دیتے ہیں لیکن ان پر
بریلوی مکتب فکر کی چھاپ بہت گہری ہے۔ لانگ مارچ کا اعلان ہوتے ہی بریلوی
تنظیموں نے اس سے لاتعلقی کے اعلانات کرنا شروع کردیے تھے۔ کوئی بھی معروف
بریلوی تنظیم دھرنے میں شریک نہیں ہوئی، مگر جوں ہی طاہرالقادری اور حکومتی
ٹیم میں مذاکرات شروع ہوئے سنی اتحاد کونسل کے سربراہ فضل کریم اور سنی
تحریک نے دھرنے کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ دونوں تنظیمیں
ان دنوں بریلوی مکتب فکر کی نمایندگی کی دعوے دار ہیں، حکومت نے تحریری
معاہدہ کرکے طاہرالقادری کو سیاسی قوت تسلیم کرلیا ہے، اب ان دونوں جماعتوں
کو اپنی سیاست خطرے میں نظر آرہی ہے، اس لیے انہوںنے طاہرالقادری کے حامیوں
میں جگہ بنانے کے لیے یہ پتا پھینکا تھا، میراخیال ہے اب بریلوی مکتب فکر
کی ترجمانی جے یو پی، سنی اتحاد کونسل اور سنی تحریک کی بجائے طاہرالقادری
کریںگے، باقی لوگوں کو ان کے پیچھے چلنا پڑے گا۔
عالمی امیج، ملکی سیاست میں موثر انٹری، ملک گیر پبلسٹی اور مسلکی قیادت،
یہ چار ایسے فائدے ہیں جو طاہرالقادری نے دھرنے سے حاصل کیے ہیں۔ اگر ہم
حکومت سے معاہدے کی تفصیلات پر نظر ڈالیں تو اس میں صرف یہ چیز طاہرالقادری
کے حق میں جاتی ہے کہ نگران حکومت کی تشکیل میں ان سے بھی مشاورت کی جائے
گی۔ باقی انتخابات سے متعلق جو بھی باتیں ہوئی ہیں وہ سب فضول ہیں، کیونکہ
الیکشن موجودہ حکومت نہیں نگران حکومت کو کرانے ہیں اور وہ کسی معاہدے کی
پابند نہیں ہوگی۔ انقلاب کانعرہ لگاکر محض مشاورت کی یقین دہانی پر راضی
ہوجانا اس بات کی علامت ہے کہ طاہرالقادری کا مقصد کوئی تبدیلی نہیں، بلکہ
ذاتی مفادات کا حصول تھا، اس میں وہ 100فیصد کامیاب رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں
سجا دکھاکر کھبا مارنا۔ |