دہشت گردی نے ایم کیو ایم اور اے این پی کو قریب کردیا

ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی منظر امام بھی کراچی میں جاری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ انہیں جمعرات کے روز اورنگی ٹاﺅن میں نشانہ بنایا گیا ان کے ساتھ ایک محافظ اور 2 پولیس اہلکار بھی جان کی بازی ہار گئے۔ اس کے بعد پورے شہر میں جلاﺅ گھیراﺅ، قتل و غارت گری اور بدامنی کی لہر اٹھی جس میں8 افراد جاں بحق، 12 زخمی جب کہ متعدد گاڑیاں نذر آتش کی گئیں.... جمعے کے دن ایم کیو ایم کے سوگ کے اعلان پر کراچی، حیدر آباد، سکھر اور سندھ کے دیگر شہروں میں کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں اور شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

ایم کیو ایم کے ایم پی اے منظر امام کے جنازے میں اے این پی سندھ کی قیادت نے بھی شرکت کی، اے این پی نے دہشت گردی کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا بھی اعلان کردیا ہے متحدہ قومی موومنٹ نے اس میں شرکت کی یقین دہانی کرادی ہے۔ اسلام آباد میں اے این پی کے رہنما افراسیاب خٹک، عبدالنبی بنگش اور بشریٰ گوہر نے ایم کیو ایم کے رہنما بابر غوری سے ان کی رہائش پر ملاقات کرتے ہوئے رکن سندھ اسمبلی منظر امام کے قتل پر تعزیت کی۔ بعد میڈیا سے گفتگو میں افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ فروری کے پہلے ہفتے میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی، جب کہ بابر غوری نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اے این پی نے ہمارا غم بانٹا اور غم بھائی ہی بانٹتے ہیں، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہمیں متحد ہونا ہوگا، تمام سیاسی جماعتیںنظریاتی و سیاسی اختلافات بھول جائیں۔

بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے ایم کیو ایم اور اے این پی کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے توقع کی جارہی ہے کہ آیندہ بھی یہ دونوں جماعتیں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے اور مل کر لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے ایک دوسرے کے مزید قریب آئیں گی۔ علاوہ ازیں اے این پی نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے لیے تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے، اس حوالے سے میاں افتخار کا کہنا ہے کہ جے یو آئی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے رابطہ کیا گیا ہے۔ ان جماعتوں نے مثبت جواب دیا ہے، صدر زرداری سے بھی بات چیت کی گئی ہے جب کہ اے این پی نے وزیراعظم اور آرمی قیادت کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کرنے کے بعد ہمارے ملک میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے، 40 ہزار سے زاید جانیں اس جنگ کی نذر ہوچکی ہیں، محب وطن اور مخلص لوگ اس جانب توجہ دلاتے رہے مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ اب جب اے این پی کے رہنما بشیر بلور بھی اسی جنگ کا شکار ہوئے تو اے این پی نے اس کے بعد اپنی موجودہ حکمت عملی پر نظر ثانی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے، ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور پرانی غلطیوں کو دوبارہ نہیں دہرانا چاہیے۔

جہاں تک کراچی کی بات ہے تو حالات انتہائی ابتر ہوچکے ہیں، دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے، کسی کی جان اب محفوط نہیں رہی اور تو اور دہشت گردوں نے منظم منصوبہ بندی کے تحت کراچی میں مذہبی جماعتوں، دینی مدارس اور دین دار طبقے کو اپنا ہدف بنالیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے دینی مدارس کے طلبہ، علماءکرام اور مذہبی رہنماﺅں کی ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں اضافہ ہوگیا ہے۔ جمعرات 17 جنوری2013ءکو گلشن اقبال میں جامعہ احسن العلوم کے 2 طلبہ کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے، اسی رات کورنگی میں جامعہ انوارالقرآن کے 2 طلبہ نورفیاض اور محمد حسن پر حملہ ہوا جس میں وہ شہید ہوگئے۔ جمعے کے روز لسبیلہ کے قریب فائرنگ ہوئی جس میں 2 بھائی ارشاد اور اخلاق شہید ہوئے۔ اس دوران گرومندر اسلامیہ کالج کے قریب دہشت گردوں کے حملے میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مولانا اجمل اور ان کے ڈرائیور کمال شاہ شہید ہوگئے۔ اس سے قبل مولانا اسماعیل کو بھی شہید کیا جاچکا ہے۔ احسن العلوم اور جامعہ بنوری ٹاﺅن کی شاخ گلشن عمر کے متعدد طلبہ بھی دہشت گردوں کی کارروائیوںمیں شہید کیے جاچکے ہیں۔

اہل سنت والجماعت کے کارکنوں کو بھی مسلسل ٹارگٹ کیا جارہا ہے، اب تک ان کے سینکڑوں کارکنوںکو دہشت گردوں نے شہید کردیا ہے۔ گویا دینی طبقے پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے، دوسرے شہروں سے علمِ دین حاصل کرنے اور اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے آنے والوںکی لاشیں یہاں سے جارہی ہیں جو انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس صورت حال پر ایک جانب وفاق المدارس کو سخت ایکشن لے کر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے تو دوسری جانب ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی خاموشی توڑ کر حکومت پر دباﺅ ڈالنا ہوگا۔

کراچی کے ابتر حالات کے باعث ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے لیے الیکشن کمیشن کے عملے کو بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ صدر زرداری کراچی میں موجود ہیں لیکن دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، وہ اس صورت حال پر نوٹس لیتے ہیں اور رسمی بیان جاری کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جس کے باعث بدامنی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔

ان حالات میں اگر الیکشن ہوئے تو وہ خونیں ہوں گے، بڑے پیمانے پر خونریزی کا خدشہ ہے۔ اس صورت حال پر تمام سیاسی جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے کراچی بدامنی کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو آج حالات اتنے ابتر ہر گز نہ ہوتے لیکن لگتا ہے کہ امن ہمارے حکمرانوں کی ترجیح میں شامل نہیں ہے۔

کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلاامتیاز آپریشن کے بغیر انتخابات کے لیے حالات ساز گار نہیں ہوسکتے۔

اگر ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات نہ بدلیں اور مذہبی طبقے، دینی مدارس کے طلبہ کی ٹارگٹ کلنگ اور ان کے قتل پر نوٹس نہ لیا گیا تو معاملات حکمرانوں کے ہاتھ سے نکلتے چلے جائیں گے اور پھر حالات کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ مزید لوگوں کی بددعائیں نہ لی جائیں۔ اگر ہماری سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی ایجنڈے کو مقدم رکھیںتو کوئی وجہ نہیں کہ دہشت گردی ختم اور یہ حالات بدل نہ سکیں۔
Usman Hasan Zai
About the Author: Usman Hasan Zai Read More Articles by Usman Hasan Zai: 111 Articles with 86276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.