اب حکومت ملی تورہی سہی کسر بھی نکال دینگے

آج سے پانچ سال قبل جب ”عوامی حکومت“ نے اقتدار سنبھالا تودہشت گردی اور لاقانونیت اسے ورثے میں ملی۔عدلیہ پابند سلاسل تھی۔ مہنگائی عروج پر تھی۔ بجلی و گیس نہ ہونے کے برابر تھی۔پیٹرول کی قیمتوں کے آگے کوئی پل باندھنے کو کوئی تیار نہ تھا۔شہید بی بی کے قاتل بلا خوف وخطر آزاد گھوم رہے تھے۔ ”قاتل لیگ“ بے لگام تھی۔ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے معصوم افراد کی جانیں لے رہے تھے۔ کراچی میں مختلف جماعتیں آپس میں الجھی ہوئی تھیں۔ وہاں کا کاروبار زندگی معطل اور ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی۔ ملک غیر ملکی سازشوں کی زد میں تھا۔ پاک فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں غیر ملکی ریشہ دوانیوں کی ہٹ لسٹ پر تھیں۔ ماضی کی حکومت کے اللوں تللوں اور رشوت ستانی نے قومی خزانے میں ایک بھی پیسہ نہ چھوڑا تھااور پورا ملک آئی ایم ایف کے مشروط قرضوں پر پل رہا تھا۔

”عوامی حکومت “ نے اقتدار میں آتے ہی ان تمام معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے صوبائی اور وفاقی سطح پر وزراءکی فوج ظفر موج قائم کی اور انہیں بھاری تنخواہیں اور مراعات سے نوازا۔ انہیں پانچ پانچ کروڑ کی گاڑیاں مہیاکیں تاکہ وہ پرسکون ماحول میں عوامی کا فریضہ انجام دے سکیں۔ اس نے مصلحت اور مفاہمت کی پالیسی کا دائرہ اس قدر پھیلایا کہ بی بی کے قاتلوں تک کو جا گلے لگایا۔”جمہوریت“ کی خاطر پارٹی کے نظریاتی اوصاف اور اختلافات کو ایک طرف رکھ کر سب کو اقتدار میں پرونے کی کوشش کی۔ عوامی حکومت کے وزیر مشیرجعلی ڈگریوں کی رکاوٹوں کے باوجود دن رات عوامی مسائل کے حل میں کوشاں نظر آئے۔اس سلسلے میں انہوں نے جو کمیٹیاں تشکیل دیں اس نے عوامی مسائل پرنشتندوگفتندو برخاستند کے ریکارڈز توڑ ڈالے۔ اس نے ”روٹی کپڑا اور مکان “ کو عوام سے دور رکھ کر ”جمہوریت بہترین انتقام “ کا جو نعرہ لگایا تھا اس کی عملی شکل اب ہر شہر، ہر گاﺅں ، ہر محلے اورملک بھر کے گلی کوچوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ صورتحال ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے جو عوامی حکومت کو اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔انہیں اب اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ حکومت نے تمام عوامی وعدے وفا کئے اور اب جب کہ وہ اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے کے قریب ہے اس کے ”انتقام“ لینے کے عزم میں ابھی تک کمی نہیں آئی۔

لاقانونیت اور دہشت گردی کے لئے توعوامی نمائندوں نے دن رات ایک کردیا۔حکومت کی مفاہمتی پالیسی نے ہی بلوچستان اور فاٹا میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت سے اجتناب کیا اور دہشت گردوں کوراج کرنے کا پورا موقع فراہم کیا۔ عدلیہ کی بحالی کا سارا کریڈٹ بھی ”عوامی حکومت “ کو جاتا ہے۔ ناقدین تو خوامخواہ انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ اور اس کا سارا سہرا اپوزیشن کو قراردیتے ہیں۔ ان سے صرف اتنی عرض ہے کہ وہ اس رات کی فوٹیج نکال کر عوام کو دکھائیں جس میں عوامی حکومت کے اس وقت کے وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے قومی ٹی وی پر چیف جسٹس کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ناقدین ذرا بتائیں اگر وہ یوسف رضا گیلانی نہیں تو اور کون تھے؟

جہاں تک پٹرول، بجلی اور گیس کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں عوامی حکومت نے ماضی کی حکومتوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کئے گئے۔ رینٹل پاور منصوبہ عوامی حکومت کا ایک تحفہ تھا مگر عدالت عظمیٰ اس تحفے کے ثمرات میں رکاوٹ بن گئی ۔ اب بات کرتے ہیں پٹرول کی قیمتوں کی۔اس بات کا کریڈٹ بھی عوامی حکومت کو جاتا ہے کہ اس کے دورِ حکومت میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پیٹرول کی قیمتیں سوروپے سے تجاوز کرگئیں۔ پٹرول کی قدر میں اضافے کا فائدہ اب پٹرول پمپوں پر لگی لمبی لائنوں سے عیاں ہوتا ہے۔ پٹرول کی قدر میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور یہ اضافہ معاشیات کے اصولوں اور فارمولوں کے عین مطابق ہے اس میں عوامی حکومت کو موردِالزام ٹھہرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جہاں تک شہید جمہوریت کے قاتلوں کی گرفتاری کا معاملہ ہے تو عوامی حکومت نے اسے بھی مفاہمتی نقطہ نظر سے دیکھا۔ جس کا ثمر بھی سب کے سامنے ہے کہ جب ایم کیو ایم نے ہاتھ کھینچا تو ”ق “نے ہی اسے اپنا کندھا فراہم کیا۔ اس سلسلے میں ہم نے بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ”نائب وزیراعظم“ کے عہدے سے نوازا۔ بعض ناقدین اسے علامتی عہدہ قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں نائب وزیر اعظم کو ہوٹروالی گاڑی پر مکمل اختیار حاصل ہے ۔ وہ اسے جہاں چاہیں ساتھ لے جاسکتے ہیں۔

ڈرون حملوں کے بارے میں بھی حکومت کی پالیسی کبھی مبہم نہیں رہی۔ ہم نے بیشتر مرتبہ امریکہ سے ”احتجاج“ کیا جو آن ریکارڈ ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جو ریکارڈ میں نہ آسکا اسے وکی لیکس نے عیاں کردیا۔بہرحال دونوں صورتوں میں ہماری پالیسی یکساں رہی ہے۔ جتنی بار ہم نے احتجاج کیا اتنی بارہمیں بھی معافی مانگنا پڑی۔ جہاں تک کراچی کا مسئلہ ہے تووہاں پہلے ایک گروپ ایسی مکروہ کارروائیوں میں ملوث تھا۔ عوامی حکومت کی مفاہمانہ پالیسی یہاں بھی جاری رہی اور اب حالات سب کے سامنے ہیں۔ یہاں اب ایک طرف کے نہیں بلکہ دونوں اطراف کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے۔ بلکہ اب تو ایک اور طاقت کے ابھرنے کی خبریں بھی ہیں جس نے ان دونوں کو آڑھے ہاتھوں لے لیا ہے۔

بلوچستان کے معاملہ واقعی پیچیدہ تھا۔ اس کے پیش نظر عوامی حکومت نے ایک ایسے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیا جس کے سامنے بڑے بڑے معاملات بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ عوام جانتے ہیں کہ بلوچستان میں سماج دشمن عناصر اور غیرملکی ایجنسیوں نے کیا کیا گل نہیں کھلائے مگر مجال ہے کہ عوامی حکومت کے نمائندوں کے چہروں پر ذراسی بھی شکن آئی ہو۔ دور نہ جائیے چند روز قبل جب کوئٹہ بم دھماکوں میں شہید افراد کے لواحقین شدید سردی میں اپنے پیاروں کی لاشیں سامنے رکھ کر شدید احتجاج کررہے تھے، دو دن تک حکومت کا کوئی نمائندہ ان کے پاس نہیں پہنچا۔ وزیر اعلیٰ تو اپنی بیٹی کے داخلے کے سلسلے میں برطانیہ گئے ہوئے تھے۔ ”اعصاب کی مضبوطی“ کی کوئی مثال اس سے بڑھ کر بھی ہوسکتی ہے کیا؟

اب بات کرتے ہیں پاک فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف غیر ملکی سازشوں کی ۔ اس حوالے سے عوامی حکومت کی نیت کبھی بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ملکی سلامتی اور سالمیت کی انحصار انہی دو اداروں کی مضبوطی پر ہے۔عوامی حکومت نے آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے تحت کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرکے دراصل اسے عالمی سازشوں سے” پرے“ رکھنے کی کوشش کی تھی۔ میموگیٹ سکینڈل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور آئندہ بھی کوئی موقع ضائع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ جہاں تک قومی خزانے کا تعلق ہے تو جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تھاتو اس وقت یہ خالی تھا۔چونکہ عوامی حکومت لین دین کے سلسلے میں انتہائی ایماندار واقع ہوئی ہے لہٰذا اس مضمون میں میں عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ عوامی حکومت نے پوری ایمانداری سے اس امانت کو جوں کا توں آئندہ حکومت کے لئے خالی چھوڑ دیا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوئی شک و شبہ ہوتو عوام اپنی حالت زار سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جس طرح کے حالات ہمیںملے تھے ہم اس سے بھی دوہاتھ آگے کرکے جارہے ہیں۔ کارکردگی کی پٹاری میں اور بھی بہت کچھ ہے مگر جگہ کی پابندی آڑے آگئی۔ امید ہے عوام ہماری اس پانچ سالہ کارکردگی بدولت عوامی حکومت کو ملک وقوم کی خدمت کا ایک اور موقع فراہم کریں گے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ اگلی ٹرم میں ہم رہی سہی کسر بھی نکال دیں گے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63125 views Columnist/Journalist.. View More