کنفیوژن پھیلانا بھی قومی جرم سمجھا جائے(1)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے، ”یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے ،نہ کہ یہ ،کہ کون کہہ رہا ہے۔“ جلد بازی میں نتائج اخذ کرنے والے قارئین براہِ کرم اس کا مطلب یہ قطعا اخذ نہ کریں کہ کہنے والے کی شخصیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی‘ بلکہ میرا قلیل مطالعہ یہ کہتا ہے کہ اگر ہم دنیاوی انتظامی معاملات میں صرف شخصیت ہی پر بحث کرتے رہیںاور منشور کو ریت کے ذرہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیں تو معاملات نہ تو سلجھائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قیادت پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے‘ ہمارے ہاں کنفیوژن ساز فیکٹریاں ہمیشہ قوم کے نا بالغ ذہنوں کوا ہم مواقع پر الجھا دیتی ہیں ‘ عوام کو منشور پر غور کرنے کی ہدایت کے بجائے شخصیت کی بھول بھلیوں میں کنفیوژ کر دیا جاتا ہے‘ اگر ہم یونہی ہر نو وارد کے بارے میں کنفیوژن پھیلاتے رہے تو ہم نہ صرف ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نئی سوچ اور نئے تجربات کا راستہ بند کر دیں گے نہ صرف قیادت کے بحران کا شکار ہو جائیں گے بلکہ قوم بھی غیر مستقل مزاجی کا شکار رہے گی‘ مثلا اگر ہم ہر بات کو پرکھنے سے پہلے بات کرنے والے کے پانچ سو سالہ شجرہ نسب یا اس کے ہر لفظ کے معانی و مفاہیم کی کھال اتارنا شروع کر دیں تو پھر ایسا پارسا اور غیر متنازعہ شخص ہمیں دنیا کے کسی اور خطے میں تو شائد مل ہی جائے مگر ہمارے پاکستان میں تو ہر گز دستیاب نہیں ہو گا‘ لہذا ہمیں صرف شخصیت پر لاحاصل بحث اور قبروںمیں دفن کردارکی میتوں کے کفن کھولنے کے بجائے منشور اور ایجنڈے کو بھی زیر ِ بحث لانا چاہیے۔

ہم نے شہیدِ ملت لیاقت علیخان کو کھوٹا سکہ کہااور قوم آج تک ان کی خدمات کے بارے میں کنفیوژ ہے‘ محترمہ فاطمہ جناح کو مسترد کرنے کیلئے یہ کنفیوژن پھیلائی گئی کہ عورت کیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزیراعظم یا صدر بن سکتی ہے‘ ائر مارشل اصغر خان تبدیلی لانے باہر نکلے تو انہیں ایجنسیز اور فوج کا آلہ کار کہہ کر قوم کو کنفیوژ کر دیا گیا‘ عمران خان نے تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگایا تو اس کے اور دیگر پارٹیوں کے منشورکا موازنہ کرنے کے بجائے جنرل پاشا کو خفیہ ہاتھ کہہ کرنئی کنفیوژن پھیلا دی گئی‘ اور اب علامہ طاہر القادری نے ملک پر چھ دہائیوں سے حکومت کرنے والے سیاسی خاندانوں کو للکارا تو ایک بار پھر کنفیوژن پھیلا کر قوم کو ایک ایسے چوراہے پر کھڑا کر دیا گیا جہاں ہر سمت صرف سوالیہ نشانات، الزامات اور شازشی نظریات تھے‘ کسی اور کی کیا حیثیت یہاں تو بانی پاکستان کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی‘ یہاں تک کہا گیا کہ جناح برطانوی مشن پر کام کر رہے تھے‘انہیں مسلمانوں کا درد نہیں بلکہ گورنر جنرل کی کرسی تڑپا رہی تھی‘ جب قوم کو اپنے ہی قائد کے بارے میں کنفیوژ کرنے کی غلیظ کوشش کی گئی ہو تو ایسے میں ہمارے ماہرین، دانشوروں ، صحافیوں، اینکرزاور تجزیہ نگاروں سے بعید نہیں کہ وہ علامہ کے الفاظ اور منشور پر مثبت گفتگو کرنے کے بجائے خفیہ ہاتھوں کو تلاش نہ کرتے ‘اسی وجہ سے ہماری معصوم قوم ہمیشہ کنفیوژن سازوں کا شکار بن کر کبھی بھی صحیح اور قومی فیصلے کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

ہمارے ہاں کنفیوژن کیسے پھیلائی جاتی ہے‘ اس کی ایک تازہ مثال آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ جب علامہ نے تبدیلی کیلئے سیاست نہیں ریاست بچانے کا نعرہ لگایاتو قوم کو کنفیوژ کرنے کیلئے سب سے پہلے اس نعرے کی غلط تشریحات کی جانے لگیں ‘ اس کے بعد علامہ پر الزامات کی میگھا برسنے لگی کہ وہ امریکی ایجنڈے کے نفاذ کیلئے آ رہے ہیں‘ انہیں بیرونی ایجنسیوں نے اربوں روپے دے کر پاکستان بھیجا ہے ‘ وہ ”را“ کے اکسانے پر پاکستان کے دفاع کو کمزور کر نے آ رہے ہیں ‘ انہیں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے کیلئے لا رہی ہے ‘ وہ فوج کے اقتدار پر قبضے کی راہ ہموار کرنے آ رہے ہیں ‘ یہاں تک کہ مفاد پرست دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے باقاعدہ تصویر کشی کی کہ علامہ صاحب یوں اسلام آباد میں داخل ہوں گے، اِس اِس طرح سے معاملات آگے بڑھیں گے اورپھر یوں فوج دو دن کے بعد مارشل لا یا ایمرجنسی نافذ کرد ے گی‘علامہ کی آمد سے پہلے ہی انتہائی ٹھوس کنفیوژن پھیلا کر لوگوں کے سیاسی طور پر نا بالغ ذہنوں کوعلامہ کے خلاف کر دیا گیا‘ ذرا بیس دسمبر سے پندرہ جنوری تک کے اخبارات، کالم، اداریے اور نیوز چینلز پر کرنٹ افیئرز کے پروگرامز کو اپنے ذہن میں تازہ کیجیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیا جو منظر میں نے پیش کیا وہ درست نہیں ہے؟‘ اب بتائیے کہ کیا مارشل لا یا ایمرجنسی کا نفاذ ہوا؟ کیا بھارت نے پاکستان کو توڑ ڈالا؟ آخر تیرہ جنوری سے سترہ جنوری تک کے لانگ مارچ میں امریکہ کاکون سا ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچا؟ اور کیا علامہ تئیس دسمبر سے سترہ جنوری تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رومانس کر کے مسلم لیگ ن کو نقصان پہچانتے رہے ؟ نہیں ، بلکہ سراسر کنفیوژن پھیلائی گئی‘ علامہ نے ان تین ہفتوں کے دوران سب سے زیادہ پیپلز پارٹی ہی کو للکارا‘ قوم کے سامنے سب سے زیادہ پیپلز پارٹی ہی کا سیاہ نامہ اعمال رکھا‘ حتی کہ پیپلز پارٹی ہی کے وزیر اعظم کی گرفتاری کے احکامات جاری ہونے پر علامہ کافی دیر تک قوم کو مبارک باد دیتے رہے اور اسے اپنی آدھی کامیابی قرار دیتے رہے‘ اگر پیپلز پارٹی علامہ کو لے کر آتی تو کیا علامہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ؟‘ یاد رکھئے گا کہ اگر امریکہ نے لانگ مارچ کے ذریعے اپنا کوئی ایجنڈا نافذ کرنا ہوتا تو اسے نہ تو اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ناکام بنا سکتا تھا اور نہ ہی حکومتی اتحاد‘ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ اب علامہ صاحب کے وہی ناقدین انکے لانگ مارچ کو ناکام لانگ مارچ قرار دے رہے ہیں ‘ان کا یہی تضاد ثابت کرتا ہے کہ علامہ نا تو فوج اور نہ ہی کسی بیرونی طاقت کے خطرناک ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پاکستان آئے تھے‘ بلکہ سراسر کنفیوژن پھیلائی گئی۔دورانِ دھرنا میں خود جناح ایونیو اسلام آباد پر موجود تھا‘ تیرہ سے سترہ جنوری کے یہ دن تاریخ کا حصہ بن رہے تھے‘ ادھربھارتی آرمی چیف اور ائر چیف پاکستا ن کو دھمکی دے چکے تھے‘ کنٹرول لائن پر شدید ترین کشیدگی پائی جا رہی تھی‘ ایک صوبے میں گورنر راج لگ چکا تھا‘سپریم کورٹ بلوچستان اور کراچی کے بارے میں سخت اور ہلا دینے والا عبوری فیصلہ دے چکی تھی‘ رینٹل پاور اسکینڈل میں راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے احکامات جاری ہو چکے تھے‘ سٹاک مارکیٹ میں پانچ سو پوائنٹس کی کمی ہو گئی تھی‘ ایک لاکھ کا مجمع کنٹینرز کی پہلی صف کہ تہہ و بالا کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاوس سے صرف چار سو میٹرکی دوری پر تھا‘ علامہ نے حکومت کو اسمبلیاں توڑنے کی ڈیڈ لائن دے دی تھی‘خواتین اور شیر خوار بچے بارہ جنوری سے مسلسل حالتِ سفر میں تھے ‘ دنیا بھر کا میڈیا پاکستان کو مصر، لیبیا اور تیونس سے تشبہیہ دے رہا تھا‘ ملک ایک لمحہ کیلئے شدید ترین بحران کا شکار ہو گیا ‘ ایسے میں یہ فوج کیلئے اقتدار پر قبضہ کرنے کا سازگار ترین موقع تھا‘ اگر علامہ صرف فوج کو اقتدار تک لانے کیلئے یہ سب کچھ کر رہے تھے تو پھر مارشل لا یا ایمرجنسی کیوں نہیں لگائی گئی ؟‘اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاہر القادری اور ہماری فوج میں وہ ملی بھگت نہیں تھی جس کا الزام لگایا جا رہا تھاجبکہ کنفیوژن سازوں نے لوگوں کے ذہنوںمیں یہ بات راسخ کر دی تھی کی علامہ کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ لا رہی ہے اور اسی وجہ سے عوام کی بہت بڑی تعداد علامہ کے لانگ مارچ میں شامل نہیں ہو سکی۔

میں نہ تو علامہ صاحب اور نہ ہی ان کے لانگ مارچ کی ستائش میں یہ سب تحریر کر رہا ہوں بلکہ ان حالیہ واقعات کی روشنی میں کنفیوژن سازی کی موذی مرض کو آپ کے سامنے پیش کرناچاہتا ہوں۔ مزید تفصیلات اگلی قسط میں پیش کی جائیں گی۔
Ameer Abbas
About the Author: Ameer Abbas Read More Articles by Ameer Abbas: 18 Articles with 16405 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.