پرویزمشرف کی اقتدارمیں آمدکے
اگلے روزلاہور پریس کلب کا مرکزی ہال صحافیوں سے بھراہوا ہے۔
ڈاکٹرطاہرالقادری کی پریس کانفرنس ابھی شروع نہیں ہوئی، اچانک ایک باریش
نوجوان اپنے دائیں ہاتھ میںموبائل فون اٹھائے ہال میں داخل ہوا اس نے
انتہائی ادب سے مگرقدرے بلندآوازمیںطاہرالقادری س کو مخاطب کرکے کہا آپ
کیلئے جی ایچ کیو سے کال آئی ہے اورموبائل فون طاہرالقادری کے ہاتھ میں دے
دیا جوانہوں نے اپنے کان سے لگالیا ۔یہ عجیب منظر دیکھ کرہال میں
موجودصحافیوں کوجھٹکا لگا کیونکہ پورے ملک میں موبائل سروس بند ہے
اور12اکتوبر99ءکی رات سے کسی کے موبائل پر سگنل نہیں آرہے ۔ایک صحافی نے
طاہرالقادری سے کہا موبائل سروس توبندہے توپھرآپ کوجی ایچ کیو سے کس طرح
کال آگئی ، طاہرالقادری نے شرمندگی چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جواب
دیاجی ایچ کیو والوں نے بات کرنے کیلئے سروس بحال کردی ہوگی ،یہ جواب سن کر
دوسرے رپورٹر نے فوراً کہا توپھرہمارے موبائل فون کیوں خاموش ہیں ۔سچ کہاہے
بزرگوں نے ایک جھوٹ چھپانے کیلئے ہزارجھوٹ بولناپڑتے ہیں مگرپھربھی جھوٹ
نہیں چھپتا۔اس عہدمیں بڑے توبڑے اب بچے بھی بال کی کھال اتارتے ہیں اور
سچائی پوری طرح بے نقاب ہوجاتی ہے ۔ہمارے ہاں سیاست میںپوری ڈھٹائی کے ساتھ
جھوٹ اورگھوس کااستعمال کیا جاتا ہے کیونکہ ہم لوگ بیانات اورواقعات کی
تحقیق یاتصدیق نہیں کرتے ۔سیاستدانوں کی طرف سے ایک دوسرے کیخلاف
میڈیاٹرائل پربھی فوراً کان دھرلیا جاتا ہے اوردوسری طرف سے تردیدیاوضاحت
بھی من وعن مان لی جاتی ہے ۔جس اخبارمیں کسی حکمران یاسیاستدا ن کیخلاف
چارج شیٹ چھپتی ہے اگلے روزاسی میں تردید یامعذرت کی چندسطور شائع ہوجاتی
ہیں۔
راقم کوزمانہ طالبعلمی میں ایک دوبار متحدہ طلبہ محاذ کے اجلاس میں شریک
ہونے کیلئے طاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے ہیڈکوارٹر میں
جانے اوروہاں کچھ وقت گزارنے کااتفاق ہو ا۔وہاں طاہرالقادری کے ساتھ ملنے
کیلئے آنیوالی مختلف شخصیات کو ایک مخصو ص دفترمیں بٹھایا جاتا ہے مگرایک
خاص کرسی پرطاہرالقادری کے سواکوئی دوسرافردنہیں بیٹھ سکتا۔طاہرالقادری نے
خودپسندی اورخوش فہمی کی انتہا کوچھولیاہے۔اس قسم کے سیاسی مرشدوں،پیروں
اورشعبدہ بازوں کی اس حالت زارمیں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جوعقیدت کے
نام پران کاہاتھ پاﺅں چومنااوران کے روبروجھکنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔لوگ
عزت اوراحترام میں بہت دور نکل جاتے ہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ نیچے ''گر''جاتے
ہیں اورپھرعقیدت اورجہالت میں فرق مٹ جاتا ہے۔شخصیت پرستی بھی بت پرستی کے
زمرے میں آتی ہے۔سیاستدانوں کی طرح سیاسی مرشدبھی اپنے عقیدتمندوں
کواستعمال اوران کااستحصال کرتے ہیں ۔ان کے نزدیک عوام ایک سیڑھی کی طرح
ہیں اوروہ ان پرقدم رکھتے ہوئے کامیابی اوربلندی کے مرحلے طے کرتے
ہیں۔طاہرالقادری بلاشبہ ایک اعلیٰ درجے کے خطیب ہیں مگرانہوں نے خودکوریاست
اورمعیشت کاطبیب سمجھ لیا ہے جوسیاست کے بغیرریاست بچا ناچاہتا ہے۔حقیقت
میں طاہرالقادری نے سیاست چمکانے کیلئے ریاست بچانے کاڈھونگ رچایا،وہ ریاست
بچانے اسلام آبادگئے مگرسیاست اورعزت گنواآئے۔اب ہوسکتاہے وہ سیاست بچانے
کیلئے لانگ مارچ کی کال دیں اوران کے مریدین ان کی ''مس کال''پرکان نہ
دھریں۔
طاہرالقادری کی طرح ان کاولی عہدبھی فائیوسٹارسہولیات سے آراستہ بکتر
بندکنٹینر میں ہرموسمی آفت اورمصیبت سے محفوظ تھا جبکہ دھرنے میں شریک عام
افراد کے شیرخوار اورمعصوم بچے موسم اورشدت پسندوں کے رحم وکرم پرتھے۔جام
شہادت نوش کرنے کے دعویداراوریذیدیوں کوللکارنے والے نجی محافظوں کے حصار
میں نہیں ہوتے ہیں،کیا محافظوں کے حصار والے کوموت سے استثنیٰ حاصل ہوجاتا
ہے۔سرورکونین حضرت محمد اوران کے معتمدچاروں خلفائے راشدین کواپنے اپنے
دورخلافت میں دشمنوں کی کمی نہیں تھی مگراس کے باوجود ان میں سے کسی نے
محافظوں کاسہارانہیں لیا تھا۔جومسلمان زندگی اورموت کے معاملے میں اللہ
تعالیٰ پرایمان اورایقان رکھتا ہے اسے اپنے بچاﺅکیلئے محافظوں کی ضرورت
نہیں پڑتی۔طاہرالقادری بکتر بندکنٹینر میں بیٹھ کرشہادت کی آرزوکرتے
اورانقلاب کی نویدسناتے رہے۔ انہوںنے کہا سیاست نہیں ریاست بچاﺅمگرخودسیاست
کے ایسے گھوڑے پرسوارہوگئے جس کی لگام کسی اورکے ہاتھوں میں تھی ۔اگرلانگ
مارچ کاسکرپٹ طاہرالقادری نے لکھا ہوتا تو بار بار ان کاموقف اورمزاج نہ
بدلتا،یقینااس مس ایڈونچر کاماسٹرمائنڈکوئی اورتھا۔قدرت نے انہیں
ایکسپوزاورفیوز کرناتھا سوکردیا ،اگرطاہرالقادری کالانگ مارچ روکنے کیلئے
انہیںلاہور تک محدود یاگھرمیں نظربندکردیا جاتا تووہ شایدہیروبن جاتے
اوربار بار ریاست اورسیاست کوبلیک میل کرنے کیلئے ڈھونگ مارچ اوردھرنے کی
کال دیتے مگراس طرح اپنے سبھی کارڈز کھیلنے کے بعد وہ سیاسی
طورپرزیراورزیروہوگئے ۔طاہرالقادری نے جوش خطابت میں کہاتھا میںاسلام
آبادسے زندہ نہیں جاﺅں گا بلکہ اپنے بازوﺅں پر اپنی لاش اٹھاکرلے جاﺅں
گااوروہ واقعی اسلام آباد سے اپنے کندھو ں پراپنی میت اٹھاکر لاہور لے
آئے۔شہادت نیک نیتی اورنصیب سے ملتی ہے،طاہرالقادری نے اپنے ہاتھوں سے اپنی
سیاست اورصلاحیت کاقتل کردیا اورلاہورمیں میت دفن کردی ۔ وہ کسی کے ہاتھوں
استعمال ہوئے یاانہوں نے اپنے مریدین کواستعمال کیااس بات کافیصلہ ان کے
مریدین پرچھوڑدیتے ہیں۔ تاہم طاہرالقادری کے بارے میں عوام جوسوچ رہے ہیں
وہ ان کیلئے نوشتہ دیوار ہے کیونکہ آوازخلق نقارہ خداہوتی ہے۔اب اگروہ کسی
احتجاجی تحریک کی کال دیں گے تو ان کے مریدین اورمیڈیاسمیت کوئی ان
پراعتماد نہیں کرے گا۔طاہرالقادری کے مس ایڈونچر نے انقلاب کوبے آبرواور عا
م پاکستانیوں کاایک دیرینہ خواب چکناچورکردیا۔اگر طاہرالقادری سمجھ رہے ہیں
کہ زرداری حکومت اسلام آباد ڈکلریشن کی پاسداری کرے گی اورمستقبل میں انہیں
کوئی اہم سیاسی کردارمل جائے گاتویہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی یاخوش فہمی ہے
کیونکہ میثاق جمہوریت سمیت میاں نوازشریف کے ساتھ کئے معاہدوں اوروعدوں
کاانجام سب نے دیکھ لیا ہے۔
طاہرالقادری کی سیاست شروع دن سے تضادات سے عبارت ہے ،انہوں نے نظریہ ضرورت
کے تحت کئی باریوٹرن لیا۔انہوں نے پرویزمشرف کے دورآمریت میں نگران
وزیراعظم بننے کیلئے بہت ہاتھ پاﺅں مارے،کافی منت سماجت اورخوشامد بھی کی
مگرناکام ونامراد رہے۔انہوں نے اپنے ادارے مہناج القرآن کے پرنٹنگ پریس سے
اپنے ہاتھوں سے لکھا''طاہرالقادری کو وزیراعظم بنانے کافیصلہ'' ضمیمہ تک
چھپوایا اورلاہورسمیت مختلف شہروں میں مفت تقسیم کرایامگریہ ہتھکنڈا بھی ان
کے کسی کام نہیں آیا ۔تاہم 2002ءکے انتخابات میں وہ لاہور کے حلقہ این
اے127سے قومی اسمبلی کے ممبرمنتخب ہو گئے۔انتخابی مہم کے دوران وہ
دوغیرملکی گوریوں کو بھی اپنے ہمراہ جلسوں اورجلوسوں میں لے جاتے،اس انتظام
و اہتمام کامقصد ہمارے بھولے ووٹرزکوایک خاص تاثردینااورمرعوب کرنا تھاجس
میں وہ کافی حدتک کامیاب رہے، اس دوران وہ مسیحیوں سے ووٹ مانگنے کیلئے
مختلف گرجاگھروں میں بھی جا تے جہاں انہوں نے فرمایا ''قادری اورپادری میں
کوئی فرق نہیں ہوتا''اوران کایہ ڈائیلاگ آج بھی زبان زدعام ہے اوران کے
حالیہ انقلاب مارچ میںبھی اس ڈائیلاگ کی بازگشت سنائی دی ۔لاہورکے انقلاب
انگیز استقبال سے کنٹینر انقلاب تک طاہرالقادری نے قدم قدم پر پینترے
بدلے،بڑی بڑی ڈینگیں ماریں ۔بکتر بندکنٹینر میں بیٹھ کر حکمرانوں کو للکارا
جبکہ ان کے پیروکار بارش میں بھیگتے اوربیمار ہوتے رہے اورپھریذیدیوں
کامقابلہ کرنے اوران کانام ونشان تک مٹانے کامژداسنانے کے بعد حسینیت ؑ کے
علمبرداراوردبنگ طاہرالقادری اچانک ''مذاق رات'' کیلئے ارباب اقتدارکی منت
سماجت پراترآئے اورپھرمذاق رات میں جوکچھ ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا اس
شرمناک پسپائی اوررسوائی کے باوجودطاہرالقادری اپنے کنٹینر مارچ کی کامیابی
کاڈھول پیٹ رہے ہیں۔شیطانی ٹرائیکاسمیت دنیا والے بھی ہم پرہنس رہے ہوں
گے۔جہاں طاہرالقادری کی صورت میں نادن دوست ہوںگے اس ملک کی جغرافیائی
اورنظریاتی سرحدوں پرحملے کیلئے کسی دشمن کواپنازراورزورنہیں لگاناپڑے گا ۔طاہرالقادری
کے پیروکارو ں اورمریدوں نے توبجاطوراپنا حق اداکردیا مگران کے پیرو
مرشداپنا فرض اداکرنے میں ناکام رہے۔جس طرح مریدین نے استقامت اورکمٹمنٹ
کامظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے،بلاشبہ اس طرح کے کارکنان کسی سیاسی
اوردینی جماعت کے پاس نہیںہیں مگرافسوس ان باوفااورباصفامریدین کے ساتھ
ہاتھ ہوگیااوروہ مایوس اپنے گھروں کولوٹ گئے۔مریدین نے وفاکاامتحان پاس
کرلیا مگران کے مرشدفیل ہوگئے۔تاریخی پسپائی کے بعدبھی پاکستان عوامی تحریک
کی قیادت کی طرف سے کامیابی کاتاثر دے کر ان مریدین کو مسلسل گمراہ کیا
جارہاہے ۔طاہرالقادری نے اپنے مریدین سے ساتھ نہ چھوڑنے کاعہد لیاتھا
مگرپھر ان کے مینڈیٹ کے بغیر خو دفیصلہ اورسرنڈرکرتے ہوئے ہزاروں مردوزن
اورمعصوم بچوں کی تاریخی جدوجہد کوبلڈوز کردیا۔اب شایدپاکستان کے لوگ
انقلاب کاخواب دیکھناچھوڑدیں گے ۔طاہرالقادری کے جارحانہ اوراشتعال انگیز
طرز سیاست سے ریاست اورجمہوریت کیلئے خطرہ پیداہوگیا تھاجو''مذاق رات ''کے
بعدٹل گیا۔ ریاست کی بقاءکیلئے سیاست اورسیاسی اداروں کی مضبوطی ناگزیر ہے۔
ریاست بچانے کی آڑمیں سیاست چمکانے والے نجات دہندہ نہیں سیاسی نادہندہ
ہیں۔اگرعوام اس بار انتخابات میں پارٹی یابرادری کی بجائے امیدوارکواس کے
کردارکی بنیاد پرووٹ دیں گے تویقینا ان کانصیب اوراس ملک کافرسودہ سیاسی
ومعاشی نظام بدل جائے گا۔ |