یہ سوال اب پھر شدت کے ساتھ ابھر
کر سامنے آگیا ہے کہ یہ کس کا پاکستان ہے " سب سے پہلے پاکستان " کا نعرہ
لگانے والے کو "اہل پاکستان "نے رخصت کر دیا اور اب پاکستان پھر "اہل
پاکستان"کے قبضہ قدرت میں مکمل طور پر آگیا ہے ،اس سے پہلے بھی ان کے قبضہ
میں جب یہ تھا تو کئی طرح کی کہانیوں نے جنم لیا ان کہانیوں کے بطن سے مذید
کہانیاں برامدہوئیں اور پھران کہانیوں نے دنیا بھر کا سفر کیا اور آخر کار
یہ کہانیاں بھی ایک آرڈینس کے ذریعے "متروک"کر دی گئیں اور کچھ عرصہ پہلے
تک سب سے پہلے پاکستان کی کہانی سنائی جاتی رہی جسے لوگ سنتے اور پڑھتے رہے
جب لوگ اس سے اکتا گے تو کسی نئی کہانی کا جنم ہو گیا یوں یہ داستان الف
لیلہ جاری رہے گی،ہم چونکہ بچپن سے ہی عادی ہیں کہانیاں سننے کے اس لئے
ہمیں بھی تو ذہنی خوراک چاہیے وہ ہمیں ملنی چاہیے خواہ اس کی کتنی ہی قیمت
چکانی پڑے۔ ہمارئے لیے یہاں بہت سارے سیانے لوگوں نے کوشش کی کہ الف لیلوی
داستانوں سے باہر آجاو ان میں کچھ نہیں پڑا ہوا حقیقی کہانیاں جو آج کے
انسان کے مسائل پر مشتمل ہیں انہیں بھی پڑھنے کی کوشش کرو ،"فیری ٹیلز"کی
لذت سے ذہنوں کو کچھ دیر کے لئے آسودگی حاصل ہوتی ہے، مگر ہم اپنے’’ پالنے‘‘
سے باہر آنا ہی نہیں چاہتے تو وہاں سیانوں کی باتیں ہم پر کیا اثر رکھتیں ۔
پاکستان کے فاقہ مستوں (بھوک بے روزگاری،بیماری اور افلاس کے شکار لوگوں)کی
تعداد اور مقدار میں اضافہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی یہ اضافہ بھی تو
ایک المیہ کہانی ہے مگر ہم المیہ کہانیاں نہ ہی پڑھنا چاہتے ہیں اور نہ
سننا ،ورنہ ان دس بیس لاکھ لوگوں کی الگ الگ کہانیاں ہیں جنہیں حکومت کی
جانب سے کافی چھان پھٹک کے بعد اس قابل سمجھا جاتا ہے کہ وہ حکومت کی امداد
کے مسحق ہیں اور حکومت ان دس بیس لاکھ خاندانوں یا لوگوں کو ہر مہینے ایک
ہزار روپیہ دیتی ہے تا کہ یہ’’ کہانیاں‘‘ زندہ رہیں۔ اگر ہم اپنے نظام کے
آئینے میں قطاروں میں لگے ایک ہزار روپے وصولنے والی ان کہانیوں کے چہروں
کو پڑھنے کی کوشش کریں تو ہمیں اپنے سیاسی چہرے کی کہانی کی بھی سمجھ آسکتی
ہے ۔ہمارے سیاسی چہرے نے یوں تو کئی نقاب اوڑھ رکھے ہیں ،اب یہی دیکھ لیجیے
محترم آصف زرداری کے مواخذے کی کہانی قوم کو اس وقت سنائی جس دن این آر او
کے تحت وہ آخری مقدمے سے بھی بری ہوگئے۔ اس دن کے بعد این آر او کی کہانی
کا باب بند اور پرویز مشرف کے خلاف چارج شیٹ لکھنے کی کہانی کا آغاز ہوا اس
کہانی کی اتنی زیادہ پبلسٹیء ہوئی کہ مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی "فروخت
شدہ"کا بورڈ آویزاں ہو گیا۔
اب کینڈین میڈ تازہ کہانی ’’سیاست نہیں ریاست ‘‘ بچاو کچھ دن سنائی دیتی
رہی گی اس کہانی میں کئی نازک موڑ آئیں گے جن میں کئی خطرناک ہوں گے اور
کسی وقت راستہ بدلتا ہوا نظر آئے گا مگر کہانی جاری رہے گی ،اس کے ساتھ ہی
اس کہانی کا بھی آغاز ہو گیا ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات کب ہوں گے ،ہوں
گے بھی یا نہیں اس بحث کا آغاز ’’سیاست نہیں ریاست ‘‘ بچاو نامی کہانی سے
ہو چکا ہے کیونکہ تازہ کہانی کئی نئی کہانیوں کو جنم دے گی یوں یہ الف
لیلوی داستان جاری رہے گی ،کہانیاں سننے کی عادی قوم کو ذہنی خوراک ملتی
رہے گی جو اسے باقی تمام مسائل سے بے نیاز کر دیتی ہے ۔ کہا جاتا ہے فہم و
ادراک سے عاری قوموں کے لیے الف لیلوی داستانیں افیون کا درجہ رکھتی ہیں ،ریاست
بچاؤ کہانی کوئی نئی نئی نہیں ہے اس سے ملتی جلتی کہانیاں سنی اور سنائی
جاتی رہی ہیں ،جہاں خلاء ہو گا اس جگہ کو پر کرنے یا قبضہ کرنے کے لیے ہر
کوئی پر تولتا رہتا ہے پاکستان میں اس وقت قیادت کا بحران بڑی شدت کے ساتھ
ابھر کر سامنے آیا ہے یہی وجہ ہے کہ کبھی سونامی آتا ہے تو کبھی بے نامی
’’نامہ بر بن‘‘ کر اس ملک کے عوام پر مسلط ہونے کی کوشش کرتا ہے ،عوام کا
حافظہ اس قدر کمزور ہے کہ وہ اپنے ساتھ بیتی وارداتوں کو بھلانے کی بیماری
میں مبتلا ہو چکی ہے ورنہ 65 برسوں میں تو بلوغت کو پہنچ چکی ہوتی لیکن سچ
کہا ہے کسی آسمان جب کسی قوم سے نارض ہوتا ہے تو اس سے سوچ و فکر کی روشنی
چھین لیتا ہے،اور یونیورسل سچائی کو علامہ اقبال نے ان الفاط میں بیان کیا
ہے کہ جو قوم اپنی حالت کو خود بدلنے کی خوگر نہ ہو خدا بھی اس کی ھالت
نہین بدلتا ،اس لیے سونامی ،ہو یا بے نامی ،جب تک ْقیادت کا خلاء موجود ہے
یہ آتے رہیں گے اور ہم ہر آنے والے کے جلسے کو اپنی خالی کھوپڑیوں سے بھرتے
رہیں گے ،بہر حال خدا کسی قوم پر ایسا وقت نہ لائے کہ اس کے بیس کروڑ نفوس
میں ایک بھی قیادت کا اہل نہ رہے ۔ہم خدا کے ہی بندے ہیں اور اسی کی طرف
لوٹ کر جانا ہے۔ |