عزت، سیاست اور ریاست

سلمان خان کو اس بات سے کیا غرض کہ سیاست کیا ہوتی ہے اور ووٹ کی قدروقیمت کا اندازہ کیسے لگایا جائے؟ سلمان خان کو اس با ت سے بھی کو ئی سروکار نہیں کہ ٓایاصدر کو جنیوا کنونشن کے تحت استثناء حاصل ہے کہ نہیں یا کہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے ما تحت یا پارلیمنٹ کو عدلیہ کے ما تحت ہونا چاہیے؟ یہ وہ سلمان خان نہیں جو انڈین فلموں میں اداکاری کا معاوضہ لاکھوں میں لیتا ہے بلکہ یہ وہ سلمان خان ہے جسکی زندگی کی صبح کچرے کے ڈھیرسے کوڑا کرکٹ چننے سے شروع ہوتی ہے اور شام اس کوڑا کرکٹ کو بیچ کر پینتیس روپے کا معاوضہ وصول کرنے میں ختم ہو جاتی ہے۔بی بی سی نے حال ہی میں سلمان خان کی زندگی پر مبنی ایک وڈیو خاکہ اپنی اردو ویب سائیٹ پر پیش کیا ہے۔پاکستان میں بچوں کی اکثریت سلمان خان جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

پاکستان میں قایداعظم کی وفات کے فوراً بعد سیاسی طاقت پر چند ایسے عناصر نے قبضہ کر لیا جنہوں نے معاشرہ میں ترقی پسند اور مثبت رویوں کو پروان چڑھانے کی بجائے اسے بدحالی اور بداخلاقی کی ایسی دلدل میں دھکیل دیاجس سے نکلنا عنقا ہو چکا ہے۔اس معاشرے میں حیوان تو درکنار انسانی جان تک کی کوئی قدرو قیمت نہیں۔وطنِ عزیز میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں رونما ہونے والے جرائم پر اگر غور کیا جائے تو ہماری انسانیت کا پیمانہ اور معیار کھل کر سامنے آ جا تا ہے۔ عمرانی علوم کے نقطہ نظر سے آپ ایک ایسے شخص کو جو قبر میں مدفون عورت کو نکا ل کر اس سے جنسی فعل کا مرتکب ہو اسے کیا کہیں گے؟ پاگل، حیوان، وحشی، ظالم غرضیکہ کیا کچھ؟ تاریخ میں ایسے مکروہ جرم کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔چوری، ڈاکہ زنی، قتل و غارت تو خیر ہمارے معاشرہ میں سماجی اقدار کا روپ دھار چکے ہیں۔راہ چلتے کسی کو گولی کا نشانہ بنا دینا ہمارے لیے کوئی گھناونا فعل نہیں جسکی مثال کراچی اور کوئٹہ میں جاری ٹارگٹ کلنگ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ رحمت العلمین کا کلمہ پڑھنے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنا کالا دھن سفید کرنیکی کوشش میں بداخلاقی کی ہر حد کو اس حد تک پھلانگ چکے ہیں کہ دوسروں کو ان کے حق سے محروم رکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ رشوت، بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی، اقرباپروری، عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکنا انہیں وراثت سے محروم رکھنا، کاروکاری اور وَنیِ کی رسوم، قران سے شادی، سرکاری اور غیر سرکاری املاک پر قبضہ یہ سب اس قوم کے شعاہرہیں جن کا نعرہ حرمتِ رسول پہ مر مٹنے کا ہے۔بمطابق قران جس نے انسانی جان کو عمداً قتل کیا گویا اس نے پوری ایک نسل کا قتل کیا، رسول اﷲ کے فرمان کے مطابق جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں، جس نے یتیم کا مال کھایا اس نے اپنے پیٹ میں آگ بھری۔یہ ساری کی ساری قباحتین ہم میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔غرضیکہ ہماری زندگی کا کونسا ایسا پہلو ہے جس پر ہم فخر کر سکیں! ہماری اخلاقی زبوں حالی ، منافقت اور کفریت ہماری سیاست و معاشرت سے پوری طرح عیاں ہے۔ ان خرابیوں کے پس منظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ من حیث القوم ہم کس فلسفے کے پیرو کا ر ہیں مادیت یا روحانیت؟ دیانت داری کے ساتھ دیکھا جائے توہم نہ مادیت میں ہیں اور نہ روحانیت میں کیوں کہ جو اقوام خالص مادیت پر یقیں رکھتی ہیں انھوں نے ریاست کی بنیاد اس طرح ڈالی ہے کہ وہاں زندگی پوری طرح محفو ظ ہے جب تک قضا نہیں آ جاتی۔ اس کے برعکس روحانیت کی دعویدار قوم کی ریاست میں زندگی سلمان خان کی زندگی کی طرح دن بدن اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔
T H Shah
About the Author: T H Shah Read More Articles by T H Shah: 2 Articles with 1086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.