دیوار چین کی سیر

جمشید خٹک

دیوار چین ایک ایسا موضوع ہے ۔جس پر ہزاروں مضامین شائع ہوچکے ہیں۔کتابیں لکھی گئی ہیں۔دُنیا کے تقریباً ہر زبان کے اخبار و رسائل میں اس کا ذکر ضرور آیا ہے۔کئی کہانیوں میں دیوار چین کے افسانوں اور تاریخی حقیقت کا تذکرہ موجود ہے ۔جاوید چودھری نے بھی دیوار چین پر ایک کالم لکھا ہے ۔میری پچپن سے یہ خواہش تھی۔کہ دُنیا کے سات عجوبوں کا سیر کرلوں ۔دُنیا کے خصوصی اہمیت کے جگہوں کو دیکھ سکوں ۔زندگی میں کئی بار ایسے مواقع آئے ۔خوابوں کی تعبیر پوری ہوتی ہوئی نظر آئی ۔میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔کہ کسی دن میں یہ سارے خواب پورے ہوجائینگے۔
؂ ’’ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے ‘‘

دیوار چین کی تصویر آج بھی میرے ڈرا ئنگ روم کی زینت ہے ۔جس نے بھی ڈرائنگ روم میں قدم رکھا ہے ۔اُس نے دیوار چین کے سلسلے میں ضرور بات کی ہے ۔یہ تصویر اس لئے رکھی گئی ہے ۔کہ اس کو دیکھ کر اس پر تبصرہ کیا جائے ۔اور چین کے عظمت رفتہ کو یاد کرکے ہمیں بھی اپنے اسلاف اور اکابرین کے کارناموں کا اُجاگر کرنے میں مدد مل سکے ۔ دیوار چین بھی میری خوابوں کی شہزادی تھی۔جب دیوار چین پر کھڑے ہوکر چاروں طرف نگاہ دوڑائی ۔تو میں ہکا بکا رہ گیا۔میرے تصور میں کھینچے ہوئے نقشے دیوار چین کو دیکھنے کے بعد بکھر گئے ۔ اور چند لمحوں کیلئے میں سوچ میں پڑ گیا ۔کہ زمانہ قدیم میں بھی جن قوموں نے اتنی رفیع الشان تعمیرات کی ہیں جس کو آج بھی دیکھکر انسانی آنکھ دنگ رہ جاتی ہے ۔دیوار چین کو دیکھکر چین کی عظمت رفتہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔اور موجودہ چین کی ترقی کو دیکھکر بے اختیار کہنا پڑتا ہے ۔ ؂ ’’ کھنڈر بتا رہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی ‘‘

چین ایک عظیم قوم ہے ۔جو صدیوں قبل بھی طاقت اور فن کا گہوارہ رہا ہے ۔2253 سال قبل تعمیر کیا ہوا دیوارچین آج بھی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔دیوار کی لمبائی تقریبا ً 5500 میل ہے ۔گو کہ مختلف اوقات میں اسکی لمبائی مختلف بیان کی ہوئی ہے۔دیوار کے اوپر 25 ہزار چوکیاں قائم کی گئی ہیں ۔ان چوکیوں کی مدد سے حملہ آوروں کی نقل وحرکت دیکھا جاسکتا ہے ۔دیوار چین کو دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے ۔کہ جو قومیں ہزاروں سال قبل ترقی کے اس منزل پر پہنچی تھی۔اُنھیں دُنیا کی کوئی طاقت کیسے سرنگوں کرسکتی ہے ۔چین کی عظمت سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔لیکن ان مناظر کو دیکھنے کے بعد تصوراتی کیفیت یقین میں بدل جاتی ہیں ۔یہ تبدیلی صرف دیکھنے سے آتی ہے ۔اس دیوار کی تعمیر میں کئی سال لگے۔مختلف مراحل سے گزرا۔مگر یہ دیوار آج بھی اپنی جگہ محکم کھڑی ہے ۔جس عزم اور ولولے کے ساتھ اس کی تعمیر کو آخری مراحل تک پہنچایا گیا تھا۔ آج بھی اُس کے خدوخال وہی ہیں ۔یہ دیوار اکثر پہاڑیوں کو ملاتا ہواچلا گیا ہے ۔یہ چوٹیاں پہاڑی سلسلے کے اوپر ہوتے ہوئے کافی اونچائی پر دیواربنایا گیا ہے ۔زمین سے صرف دیوار کے بنیاد تک پہنچنے کیلئے مجھ جیسا کمزور آدمی تھک جاتا ہے ۔چہ جائیکہ دیوار کے اُوپر تک پیدل پہنچ سکے ۔میں نے دیوار کے بنیاد تک پہنچ کر برقی سیڑھی (لفٹ) کا سہارا لیکر دیوار کے ٹاپ پر پہنچ گیا ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے میں آسمان اور زمین کے درمیان معلق جگہ پر کھڑا ہوں ۔درختوں سے ڈھکے دامن اور ارد گرد پہاڑوں کے سلسلے چاروں طرف کسی پینٹر کی خوبصورت اور دل آویز شاہکار تصویر نظرآتی ہے ۔اس دیوار کی خصوصیت یہ ہے ۔ کہ بعض مقامات پر پانچ سے آٹھ فٹ تک چوڑا ہے ۔جس پر فوجی لشکر کے ساز وسامان گھوڑے گاڑی میں ڈال کر چوکیوں تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔دیوار کے ٹاپ پر سڑک اتنی چوڑی ہے ۔کہ دوگھوڑوں سے کھینچنے والی گاڑی بڑی آسانی سے اس پر گزر سکتی ہے ۔

دیوار چین تاتاریوں کی یلغار کو روکنے کیلئے تعمیر کیا گیا تھا۔جب چین پر منگولیا اور دیگر سرحدوں کی جانب سے حملوں کی خطرے محسوس ہوئے ۔تو چین کے بادشاہوں نے چین کی حفاظت کیلئے قلعہ نما دیوار تعمیر کرادی ۔ تاکہ دُشمنوں کے حملوں سے چین کو محفوظ بنایا جا سکے ۔ جب کہ چینی حکام دیوار چین کے اوپر جو معلوماتی کتابچہ تقسیم کرتا ہے ۔ اُس کے مطابق یہ دیوار امن کے زمانے میں تعمیر کی گئی ہے ۔ دیوار کی تعمیر میں کئی سال لگے ۔کئی قسطوں میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی ۔صحیح اعداد وشمار کا علم تو نہیں ۔لیکن مبصرین کا خیال ہے ۔کہ اس کی تعمیر میں اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں آدمیوں کی جان کی قربانی شامل ہے ۔

دیوار چین کے بارے میں کئی افسانوی باتیں بھی مشہور ہیں ۔کئی خلاء نوردوں نے دعوی کیا ہے ۔کہ یہ زمین پر واحد چیز ہے جو خلاء سے نظر آتی ہے ۔لیکن یہ دعوے کچھ صحیح ثابت نہیں ہوئے ۔بعض نے یہ دعوی بھی کیا ہے ۔کہ خلاء سے اس کی تصویر لے لی گئی ہے ۔بعد میں اس نظریے کو بھی زیادہ پذیرائی نہیں ملی ۔چینی خلاء نورود نے زمین پر موجود کسی ایسی چیز دیکھنے کی تردید کی ہے ۔یہ سب قیاس آرائیاں ہیں ۔آج تک اتنی دور سے تصویر لینے والا کوئی کیمرہ ایجاد ہی نہیں ہوا ہے ۔خلاء سے زمین کا فاصلہ تقریباً 20000 ہزار میل سے زیادہ ہے ۔

چین میں 45 مقامات ایسے ہیں ۔ جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان میں زمانہ قدیم کے بادشاہوں کے محلات ،بادشاہ کا مقبرہ ، دیوار چین ، پنگ پاؤ کا قدیم شہراور تیاننمین سکوائر اور دیگر کئی تاریخی اہمیت کی جگہیں اور پرانے نوادرات شامل ہیں ۔سب زمانہ قدیم کے خانقاہوں ، محلات کا ذکر کرنا مشکل ہوگا ۔

تیاننمین سکوئر دُنیا کا تیسرا بڑا سکوائر ہے ۔جس کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ اہم ہے ۔لیکن 1989 میں تیانمنین سکوائر میں جمہوری انقلاب میں ہزاروں افراد کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ماضی قریب میں تیانمنین سکو ائر کا واقع سیاسی اہمیت اختیار کرگیا ۔چین کی حکومت نے اس کو کنٹرول کیا ۔لیکن مورخین اس کا ذکر ضرور کرتے ہیں ۔

چین صدیوں سے مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے ۔اس خطے میں قبل مسیح سے آبادچینی باشندے مختلف ادوار سے گزر کر آج ایک جدید چین کی صورت میں ایک عالمی طاقت بننے کی خواب دیکھ رہے ہیں ۔بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں چین میں سیاسی افراتفری شروع ہوئی ۔چینی باشندوں نے انقلاب کے نعرے لگانے شروع کیے۔ 1949 میں ماؤزے تنگ کی قیادت میں پیپلز ریپبلک آف چائنا کے نام سے ایک ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا ۔کمیونزم طرز حکومت کو اپنایا گیا ۔اس دوران سوویت یونین میں بھی کمیونزم کا جال بچھا ہوا تھا۔فرق صرف یہ تھا۔کہ روس مزدوروں کے بل بوتے پر کمیونسٹ تحریک کو چلاتے رہے ۔جب کہ چین کسانون کو لیکر آگے بڑھتے رہے ۔1966 میں چین میں کلچر انقلاب برپا ہوا۔جس کے دور رس نتائج نکلے ۔1972 میں چین اور سوویت یونین کی دوستی میں رخنہ پڑ گیا ۔ اس موقع پر پاکستان نے امریکہ اور چین کی دوستی اور ہاتھ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ۔چواین لائی کی ملاقات رچرڈ نکسن سے کرائی گئی ۔ یہ ملاقات نہایت اہم رہی ۔اُس کے بعد چین اقوام متحدہ کا ممبر بنا۔چین میں آہستہ آہستہ اقتصادی اصلاحات کی بنیاد ڈال دی گئی ۔اور مارکیٹ اکانومی کی طرف چینی معیشت چل پڑی ۔

پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے۔ جنھوں نے تائیوان کے مسئلے پر ریپبلک آف چائنا کے ساتھ تعلقات منقطع کیے۔اور پیپلزریپبلک آف چائنا کو تسلیم کیا ۔اُس زمانے سے لیکر آج تک پاک چائنا دوستی مثالی ہے ۔ہمالیہ کے پہاڑوں سے اونچی اور ہر موسم میں یکساں ہے ۔چین نے پاکستان میں ہر میدان میں سرمایہ کاری کی ہے ۔جس میں قراقرم ہائی وے سے لیکر JF-17 تھنڈر کی مینوفیکچرنگ اور گوادر کے منصوبے شامل ہیں۔دیوار چین کی وسعت کی طرح پاکستان چین دوستی بھی وسعت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئی ہے۔
پاک چین دوستی زندہ باد
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 22683 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.