اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ کا سب سے بڑا کارنامہ

شیخ اعظم حضرت مولانا سید اظہار اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ کا سب سے بڑا کارنامہ

خانقاہیں اوردرگاہیں دوالگ الگ چیزیں ہیں۔دونوں کی معنیاتی سطح ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے مگراسے بدقسمی کہیے یاعصری ماحول کاجبریاہماری کوتاہ علمی کہ خانقاہوں اوردرگاہوں کومترادف گردانا جا رہا ہے ۔دراصل بگاڑاورفسادکی جڑیہی ہے کہ خانقاہیں ،درگاہوں میں تبدیل ہوچکی ہیں الاماشاء اﷲ ۔کم ازکم برصغیر کی حدتک دوچارکے استثنیٰ کے ساتھ سب کایہی حال ہے ۔اﷲ توفیق خیرسے نوازے۔اس تناظر میں اگرہم برصغیرکی خانقاہوں کامنصفانہ جائزہ لیں توہمیں یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں خانقاہ اشرفیہ کچھوچھ مقدسہ ایسی خانقاہ ہے جوبیک وقت خانقاہ بھی ہے اوردرگاہ بھی ۔اہل علم جانتے ہیں کہ خانقاہ کامفہوم کیا ہے اوراس کے معانی کی سرحدیں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں اورآج کی درگاہیں کس فکراورفلسفے کی نمائندگی کرتی ہیں۔کچھوچھ مقدسہ میں چاروں طرف درگاہی مناظربھی دیکھنے کوملتے ہیں اور خانقاہیت بھی اپنی پوری آن بان شان کے ساتھ جلوہ ریزی کرتی نظرآتی ہے ۔میں کچھوچھ مقدسہ کئی بارحاضرہواہوں اورمخدومان کچھوچھ کے فیوض وبرکات سے کئی بارنہایاہوں ۔جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ جامع اشرف کے قیام (غالباً۱۹۷۶ء)نے کچھوچھ مقدسہ سے خانقاہیت کے رشتے کومزیدپختہ کردیااورپھرکچھ برسوں بعد مختاراشرف لائبریری نے اس خانقاہیت کے معانی کواورچمکادیا۔ان دوعظیم کارناموں کے پیچھے جس عظیم المرتبت شخصیت کی فکررساکام کررہی تھی اسے حضرت شیخ اعظم علامہ سید اظہار اشرف صاحب قبلہ ( علیہ الرحمہ)کہاجاتاہے۔جامع اشرف اور مختاراشرف لائبریری کاقیام گویااس بات کااظہاریہ ہے کہ کچھوچھ شریف میں آرام فرماصاحبان مزارکے فیوض وبرکات سے استفادہ ہی کافی نہیں بلکہ دینی اوردنیوی کامرانی کے لیے دینی تعلیم کاحصول اورکتابوں کامطالعہ بھی از حد ضروری ہے ۔

حضرت شیخ اعظم کی فکرکوہزاروں بارسلام کہ انہوں نے لائبریری کی اہمیت کومحسو س کیااوراسے عملی شکل دے دی۔ایک عام آدمی لائبریری کی اہمیت ،افادیت اور مقصدیت سے آشنانہیں ہوتامگرارباب علم ودانش اچھی طرح جانتے ہیں کہ لائبریری کاتعمیروترقی سے کتنامضبوط رشتہ ہوتاہے اورقوم کامستقبل تابناک بنانے میں یہ کیا کردار ادا کرتی ہے ۔مگرافسوس کہ ہماری فکری تہی دامنی اورذہنی قلاشی اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ مدارس توخوب بنائے جارہے ہیں مگر یہ لائبریریوں سے خالی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فارغین مدارس وہ کمال حاصل نہیں کرپاتے جوزمانے کا اقتضاہے ۔مجھے کوئی بتائے کہ ہندوستان میں کتنے مدارس ہیں کہ جہاں ایک عظیم الشان لائبریری طلبہ کودعوت مطالعہ دیتی ہو۔یہاں درسی کتابوں کی لائبریری کی بات نہیں کی جارہی ہے انہیں توکسی بھی حالت میں انہیں لائبریری تسلیم ہی نہیں کیاجاسکتا۔ہمارے خیال میں کوئی درس گاہ چاہے وہ عصری ہویادینی ،اس وقت درس گاہ کہلائے جانے کی روادارنہیں جب کہ وہاں قابل ذکرلائبریری نہ ہواورطلبہ کے ذوق کے مطابق مختلف انواع واقسام کی کتابیں دست یاب نہ ہوں۔لائبریری تووہ ہوتی ہے کہ جہا ں رنگا رنگ کتابیں موجودہوں کہ کسی بھی موـضوع سے دل چسپی رکھنے والا اپنی تشنہ لبی دورکرسکے ۔جہاں تک ہمیں معلوم ہے کہ اس کی طرف توجہ دینے ،ا س کی اہمیت کااحساس کرنے اورپھراسے عملی شکل میں وجودبخشنے والے اہل سنت وجماعت میں سب سے پہلے حضرت شیخ اعظم علامہ سیداظہاراشرف صاحب علیہ الرحمہ ہیں۔آپ نے اتنی عظیم الشان لائبریری قائم فرمائی جسے دیکھ کرطبیعت عش عش کراٹھتی ہے او ر بے تحاشہ زبان وقلم اپنی جبین نیاز حضرت شیخ اعظم کی بارگاہ میں خم کر دیتے ہیں۔مختاراشرف لائبریری کوروایتی اندازکی لائبریری نہیں کہاجاسکتابلکہ یہ وہ عظیم الشان اور قابل قدرلائبریری ہے جوکسی بھی بڑی سے بڑی عالمی معیارکی یونیورسٹی کی لائبریری کے مقابلے میں فخرسے پیش کی جاسکتی ہے ۔جدیدیت کے تقاضوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اورمحققین اورریسرچ اسکالروں کے لیے ایسابیش بہاتحفہ جس سے ا ن کی آنکھیں یقینا ٹھنڈی ہوتی ہیں۔

پہلے زمانے میں مدارس تودورکی بات ہے گھروں میں بھی حتی المقدورلائبریریاں قائم کی جاتی تھیں بلکہ گھرکاایک حصہ بڑے اہتمام کے ساتھ لائبریری کے لیے خا ص کیا جاتاتھااورصاحب خانہ اسے فخرکے ساتھ مہمانوں کودکھایاکرتے تھے لیکن اب یہ سارے واقعات وقت کی دھول میں دب چکے ہیں ۔اب توان کے متعلق صرف قصے کہانیاں ہی سننے کوملتی ہیں ۔مختاراشرف لائبریری کاقیام صر ف جامع اشرف کے طلبہ اوراساتذہ پرہی حضرت شیخ اعظم کااحسان نہیں ہے بلکہ تمام محققین اور ریسرچ اسکالروں میں اتناعظیم احسان ہے جس کاکبھی کوکئی بدل نہیں ہوسکتا۔ہاں اس احسان کابدلہ یہ کہاجاسکتاہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیاجائے اورا س کے فیضان کوعام وتام کیاجائے ۔

مختاراشرف لائبریری کے قیام سے جہا ں اوربھی بہت سی باتیں سمجھ میں آتی ہیں وہاں یہ بات بھی ذہن کوخوش گواراحساس سے ہم کنارکرتی ہے کہ حضرت شیخ اعظم اپنے جامع اشرف کے طلبہ کوصرف روایتی عالم دین یاکتابی عالم دین بنانے کے قائل نہیں تھے ۔وہ خودجہاں دیدہ عالم دین تھے اوراپنے طلبہ کوبھی زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے تھے ۔انہیں معلوم تھاکہ ان کی گودمیں قوم کامستقبل پرون چڑھے گااس لیے انہیں صرف کتابی علم دیناضروری نہیں بلکہ دین ودنیاکی بے پناہ معلومات کی نقدی بھی دینا ہوگی کہ تبلیغ دین اوراشاعت دین کاسفربآسانی پوراہوسکے۔اس کے لیے یہ مختاراشرف لائبریری انہیں تیارکرے گی اوران کی ذ ہنی وتخلیقی صلاحیتوں کونکھارکرانہیں قوم کے حوالے کردے گی ۔عام طورپردیکھاگیاہے کہ اگربعض مدارس میں لائبریریاں ہیں بھی تووہاں سے طلبہ کوکتابیں نکالنے کی اجازت نہیں ہے ۔اساتذہ اورذمے داران یہ سمجھتے ہیں کہ خارجی کتابوں کے مطالعے سے طلبہ کی درسی کتابیں کمزورہوجائیں گی اوروہ امتحانات میں اچھے ڈھنگ سے کامیاب نہ ہوں سکیں گے۔کوئی اس فکراورسوچ سے اتفاق رکھے تورکھے مگرہم اس اندازفکرسے بالکل بھی اتفاق نہیں رکھتے ۔اگرطلبہ کوخارجی کتب کامطالعہ کراناہی نہیں تھا توپھرلائبریری قائم ہی کیوں کی گئی ؟ہماری تعلیمی پسماندگی میں یہ فکری عناصربھی بہت بڑی رکاوٹ بن کرسامنے کھڑے ہیں۔ہوناتویہ چاہیے کہ ذوق نہ رکھنے والے طلبہ کوبھی مطالعے پرابھاراجائے لیکن یہا ں طلبہ کی صلاحیتیں نکھارنے کے بجائے دبایا جاتاہے۔اس کے برعکس مختاراشرف لائبریری کاجائزہ لیاجائے تواندازہ ہوگاکہ جامع اشرف میں زیرتعلیم طلبہ کوخارجی کتابوں کے مطالعے کے خوب خوب مواقع فراہم کیے گئے ہیں ۔یہ پہلو حضرت شیخ اعظم علیہ الرحمہ کی فکری زرخیزی ،اصابت رائے اور گہرے شعوروادراک کی غمازی کرتا ہے ۔حضرت شیخ اعظم اس حقیقت سے اچھی طرح آشناتھے کہ معاصردنیامیں عملی زندگی (PRACTICAL LIFE)گزارنے نیزتبلیغ ودعوت کے لیے صرف کتابی یانصابی کتابوں کامطالعہ ہی کافی نہیں ہوتابلکہ خارجی کتابوں کامطالعہ ، حالات سے واقفیت اوردنیاکی بدلتی ہوئی کیفیا ت پرگہری نظر بھی ازحدضروری ہوتی ہے۔ا س لیے طلبہ کواس کے لیے زمانہ ٔ طالب علمی سے ہی تیارکرناناگزیرہوتاہے۔شیخ اعظم کی دوراندیشی اورحالات پرگہرے ادراک کی داد دینی ہوگی کہ انہوں نے سب سے پہلے دوسرے امورکی طرف توجہ دینے کے بجائے مختاراشرف لائبریری کے قیام پرتوجہ کی اورا س کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کرد یں جومختاراشرف لائبریری کی رگوں میں خون بن کردوڑرہی ہیں۔

ماہرین تعلیم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہرطالب علم ایک سے ذوق کانہیں ہوتا۔کسی کارجحان کسی اورطرف ہوتاہے اورکسی کاکسی اورسمت۔اس لیے اساتذہ کا طبائع طلبہ کی جانچ کیے بغیرسب کوایک ہی لاٹھی سے ہانکناقطعی مناسب نہیں ۔اساتذہ کااس طرح کایکساں رویہ نہ صرف یہ کہ ان کے مستقبل بلکہ ملت اورملک کے مستقبل سے بھی کھلواڑکرناہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔بدقسمتی سے ہمارے مکاتب اورمدارس میں عموماً یہی صورت حال ہے ۔یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعدادمیں نہ ملت کو کارآمد افراد میسر آر ہے ہیں اورنہ ملک کو۔یہ ایک UNDERSTOODبات ہے۔ اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھاجاسکتاہے ۔ایک دستر خوان پرمتعددلوگ بیٹھے ہوں اوران کے سامنے ایک ہی طرح کے کھانے رکھے ہوئے ہوں تویقیناسب کوپسندنہیں آئیں گے ۔کسی کومرغ پسندہوتاہے ،کسی کوسبزی کوپسندہوتی ہے ۔ کسی کومچھلی مرغوب ہوتی ہے ،کوئی انڈاشوق سے کھاتاہے ۔کوئی میٹھاشوق سے کھاتاہے اورکوئی تیکھا۔اسی طرح دیگرچیزوں پربھی قیاس کیا جا سکتا ہے ۔یہی حال طلبہ کاکتابوں کے ساتھ ہے ۔کسی کوتاریخ سے دل چسپی ہوتی ہے ،کوئی فقہ میں زیادہ رغبت رکھتا ہے توکوئی حدیث یاتفسیرمیں۔بعض بچے دارالعلوموں میں ایسے بھی ملتے ہیں جودرسیات میں کوئی زیادہ دل چسپی نہیں لیتے بلکہ وہ خارجی مطالعے سے اپنے ذوق کی تسکین کرتے ہیں ۔اس طرح کے طلبہ ہراسکول،ہرکالج ، ہریونیورسٹی ،ہرمدرسے اورہرمکتب میں مل جائیں گے ۔جہاں لائبریریاں نہیں ہوتیں وہاں طلبہ کی صلاحیتوں اوران کے اندرچھپی ہوئی تخلیقی قوتوں کوپیرپھیلانے کے مواقع نہیں ملتے۔ نتیجہ یہ ہوتاکہ ان کی فکرسکڑجاتی ہے ،دماغ کی گلیاں تنگ ہوجاتی ہیں اوران کی شخصیت کی کلی بِن کھلے مرجھاجاتی ہے۔اس تناظرمیں دیکھیں توحضرت شیخ اعظم کی فکری بلندی اورذہنی زرخیزی کوسلام کرنے کوجی چاہتاہے کہ انہوں نے طلبہ کوسجانے ،سنوارنے ،نکھارنے ،صیقل کرنے،ان کی فکرکوتوانابنانے،حوصلوں کو مضبوط بنانے ،دماغ کوزرخیزبنانے اوران کی شخصیت کوبافیض ،باکاراوربااثربنانے کے لیے مختاراشرف لائبریری کی شکل میں ایسی کھیتی آبادکی جس سے صدیوں تک فصلیں کٹتی رہیں گی اورامت مسلمہ کوصدیوں تک علمی،فکری ،عملی اوراصلاحی غذافراہم کرتی رہیں گی۔جامع اشرف میں داخلہ لینے والامطالعے اورپڑھنے کاشوقین طالب علم اگردرسیات کازیادہ ذوق نہیں رکھتاتووہ اس لائبریری سے اپنی پیاس بجھالے گااوراپنی شخصیت کوضائع ہونے سے بچائے گا۔

ا س جہت سے دیکھیں تومختاراشرف لائبریری کاقیام حضرت شیخ اعظم کا سب بڑا،سب سے قیمتی اورسب سے گراں مایہ کارنامہ کہاجاسکتاہے جس کے اثرا ت ایک دوسال ،پچیس پچاس سال یاسو،دوسال نہیں بلکہ صدیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ان کایہ اقدام ان خانقاہوں کے لیے بھی تحریک کاباعث ہیں جوصرف مرکز رشدوہدایت کی حیثیت رکھتی ہیں۔کچھوچھہ مقدسہ کی عظمتوں کے قصے ویسے ہی کیاکم تھے کہ جامع اشرف اورپھرخصوصیت کے ساتھ مختاراشرف لائبریری نے اس کی رفعتوں اورعظمتوں کی لوکواورتیزکردیا۔ یہاں حاضرہونے والااگر باذوق ہے تووہ صرف مخدومان گرامی علیہم الرحمۃ والرضوان سے ہی مستفیض نہیں ہوگابلکہ اپنی علمی پیا س بھی بجھائے گا۔گویایہاں روحانی فیض کا دریا تو بہتاہی تھا حضرت شیخ اعظم نے ایک عظیم الشان علمی دریا بھی جاری فرمادیا۔ حضرت شیخ اعظم نے کچھوچھ مقدسہ کوصرف درگاہ تک ہی محدودنہیں رہنے دیابلکہ اسے حقیقی معنوں میں خانقاہ بنایااوربرصغیرمیں پھیلی ہوئی ان گنت خانقاہوں اوردرگاہوں کے لیے ایک پیغام چھوڑگئے ۔

جامع اشرف اورخاص کرمختاراشرف لائبریری کے قیام کی تہہ میں جوچندپیغامات پوشیدہ ہیں انہیں ہم سلسلہ وارذکرکرتے ہیں جوبیک وقت اہل مدارس کے لیے نمونۂ عمل ، ارباب خانقاہ کے لیے لائق تقلید اورعوام الناس کے لیے باعث تحریک ہیں۔

(۱)خانقاہیں صرف درگاہی امورتک محدودنہ ہوں بلکہ اپنے مریدین کی فکری ،ذ ہنی اورعملی تربیت کے لیے عملی کوششیں کریں اورا س کے لیے خانقاہ کی حدودہی میں مدارس ،مکاتب اورلائبریری کاقیام کریں کہ ایمان وعمل کاپودااسی وقت زرخیزہوگاکہ جب انسان کاتعلق علمااورکتابوں سے مضبوط سے مضبوط ترہوگا۔
(۲)مریدین اورعقیدت مندحضرات اپنے شیوخ اوربزرگوں سے کسب فیض ضرور کریں کہ بلاشبہہ یہ بھی بہت ضروری ہے مگرخودکواوراپنے بچوں کودینی تعلیم سے روشناس ضرورکرائیں ۔ان کے اندرکتابوں کے مطالعے کاشوق وذوق پروان چڑھائیں کہ یہی تعمیر،تخلیق اورارتقاکی خشت اول ہے ۔
(۳)مدارس اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتے جب تک وہاں ایک عددعظیم الشان لائبریری نہ ہوجوطلبہ کی ذہنی ،فکری ،علمی اورتخلیقی سرچشموں کوخشک ہونے سے بچائے رکھے اوران کی معلومات کوجلابخشتی رہے تاکہ چراغ سے چراغ جلتارہے اورانسانوں کی آبادی منورہوتی رہے۔
(۴)خانقاہوں اوردرگاہوں کے شیوخ اورسجادہ نشینان اپنے گھروں اوراپنے مریدوں کے قیام کے لیے اچھی سے اچھی رہائش گاہیں تعمیرکرانے سے زیادہ خانقاہ یادرگاہ کی حدودمیں عظیم الشان لائبریری اورعظیم الشان مدرسے اورمکتب کی بناڈالیں۔یہ ان کے لیے زیادہ نفع بخش ہوگااوران کی روح کی بہبودی کاسامان بھی۔

قصہ مختصرمختاراشرف لائبریری کاقیام ہندوستان کے اہل سنت پربہت بڑااحسان ہے ۔اﷲ کرے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیاجائے اورحضرت شیخ اعظم کے پیغام کودنیابھرمیں عام کیاجائے۔
sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 189350 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More