آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!!!
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi, India)
بلا شبہ مرحوم بیٹے کی حیثیت سے والدین کے لیے ایک فرماں براد، اطاعت شعار فرزند ثابت ہوئے۔ بھائی کے روپ میں انہوں نے ایثار و محبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ شوہر کی صورت میں وہ وفا کے پیکر، عشقِ بے گراں کے سفیر رہے۔ باپ کے کردار میں رحمت و شفقت کی چھاؤں فراہم کی اور فکرِ آیندہ کی شمع روشن رکھی۔ نانا کے روپ میں وہ خوشیوں کے خزانے لٹاتے، محبت کی جھولی بھرتے، دل و جان سے نوازنے والے عظیم نانا رہے۔ اور خویش و اقارب، قرابت داروں کا خیال بطریق احسن ادا کیا۔ |
|
شکستہ دل، خاموش لب، سرد جذبات، لرزیدہ انگلیوں کے پوروے؛ بس ایک حسرت اور دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا ایک درد، ایک ایسی جدائی کا غم جو الفاظ میں سمیٹنا مشکل ہے۔ 17 جولائی 2025 کی صبح، جب میرا دل ٹوٹا، میری دنیا ساکت ہو گئی—میرے پیارے خسر، محترم مرزا خالد بیگ (رحمۃاللہ علیہ)، اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ (انا لله وانا اليه راجعون) ایک دل کا دورہ پڑا، اور وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئے۔ لیکن ان کی مسکراہٹ، ان کی شفقت، ان کا ایمان، اور ان کی محبت بھری نگاہیں آج بھی ہمارے دل و دماغ میں زندہ ہیں، گویا وہ ابھی ہمارے درمیان ہیں! ایک علمی اور دینی خانوادہ: میرے والد نسبتی مرحوم مرزا خالد بیگ ضلع رامپور، یوپی کے مشہور و معروف ڈاکٹر مرحوم مرزا حامد بیگ کے بڑے صاحب زادہ تھے۔ ڈاکٹر مرحوم اپنے وقت کے انتہائی نیک طبیعت، صاحب بصیرت، خدا ترس اور انسان دوست طبیب تھے۔ جماعت اسلامی ہند کے رکن رہے اور خدمت خلق کے جذبہ سے لوگوں کا علاج و معالجہ کرتے رہے۔ پورے اطراف واکناف میں ان کی بڑی عزت و شہرت تھی۔ ان کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیوں کا ماشاء الله ایک بڑا خاندان ہے۔ اولاد میں چار بیٹیاں سب سے بڑی ہیں اور ایک بیٹی دو بیٹوں سے چھوٹی ہیں۔ سب سے بڑی صاحب زادی رامپور ہی میں بیاہی گئیں اور ماسٹر سید اعجاز صاحب کے نکاح میں بقید حیات ہیں۔ وہ برسوں رامپور کے مشہور نسواں مدرسہ "جامعات الصالحات للبنات" میں تدریسی خدمات بھی انجام دیتی رہیں۔ دوسری صاحب زادی عظیم اسلامی شخصیت، حضرت مولانا عنایت اللہ سبحانی کے نکاح میں تھیں، بدقسمتی سے عمر نے وفا نہیں کی اور بہت کم عمری ہی میں وفات پا گئیں۔ تیسری صاحب زادی مشہور مبلغ اور داعی اسلام حضرت مولانا نسیم احمد غازی کے عقد میں بقید حیات ہیں۔ چوتھی صاحب زادی ضلع پیلی بھیت کے قصبہ ڈانگ میں ڈاکٹر عبدالجبار صاحب کے عقد میں ہیں اور وہ دونوں باحیات ہیں۔ پانچویں بیٹی ڈاکٹر زبیر صاحب کے نکاح میں تھیں، دونوں نے اپنی پوری زندگی مکہ مکرمہ میں گزاریں، اخیر عمر میں بنگلور شفٹ ہوگئے تھے۔ سال گزشہ وفات پا گئے. بيٹوں میں — مرحوم مرزا خالد بیگ، ڈاکٹر مرزا ساجد بیگ، ڈاکٹر مرزا طارق بیگ، اور ڈاکٹر مرزا قاسم بیگ نے اپنے والد کے نام کو سربلند کیا، جن میں ڈاکٹر ساجد بیگ اور ڈاکٹر قاسم بیگ کا رامپور میں خود کا ہاسپیٹل ہے، اور ڈاکٹر طارق بیگ خلیجی ملک عمان کی کسی میڈیکل کمپنی میں برسر روزگار ہیں۔ ایک نیک روح کی تصویر: خالد صاحب ایک باوقار، با رعب، صاف دل اور نیک طبیعت انسان تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم والد صاحب کے پاس ہی رامپور میں ہوئی، اور وہ جب تھوڑے بڑے ہوئے تو والد صاحب نے دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ الفلاح بلریا گنج، اعظم گڑھ یوپی میں داخلہ کرادیا، مگر وہاں سے کچھ مہینوں کے بعد واپس وطن لوٹ آئے، اور یہیں رامپور سے ہی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد ڈگری کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی سے ڈگری کی تعلیم مکمل کی؛ چونکہ آپ اپنے والد کی بڑی اولاد تھے، اس لیے جوانی میں ہی خاندان کی ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر آن پڑیں۔ رزق کی تلاش میں ملک، بیرون ملک کا سفر کیا۔ کئی برس سعودی عرب میں ملازمت پھر تجارت کی، اور پھر تجارت میں بھاری نقصان، اور پارٹنر کے دھوکہ کا شکار ہوکر خالی ہاتھ وطن لوٹے۔ جس کی وجہ سے کئی سال تک ذھنی تکلیف میں مبتلا رہے۔ اللہ کے کرم سے زندگی میں استحکام آیا، پھر اٹھے اور اخیر عمر تک رامپور ہی میں زمین کی خرید و فروخت اور اس پر عمارت تعمیر کرواتے اور پھر اسے فروخت کرتے اور یہی کچھ ان کا ذریعۂ معاش بن گیا۔ مگر جب نوٹ بندی ہوئی، اس کے بعد کرونا آیا جس کی وجہ سے پروپرٹی بزنس تقریبا ٹھپ پڑگیا، اور یقینا آپ کو بھی اس کا کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ پھر بھی اللہ نے کرم کیا اور کاروبار چلتا رہا۔ مگر ملک کے موجودہ پیہم بگڑتے حالات و حادثات کے پیش نظر ان کا دل ان کاموں سے بھی مکدر ہوگیا، اور سب کام چھوڑ چھاڑ کر گھر پر ہی تقریبا گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگے۔ بس نماز کے اوقات میں گھر سے مسجد جاتے، یا پھر انتہائی ضرورت کے وقت ہی گھر سے باہر قدم نکالتے۔ بحمدللہ ہر روز پابندی سے قران پاک کی تفسیر کے ساتھ تلاوت کرتے، اور بقیہ اوقات گھر میں خاموش بیٹھے رہتے۔ وفات کی شب معمول کے مطابق تہجد کے وقت اٹھے اور پھر کبھی نہ اٹھنے کا غم دے کر خود بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوگئے! سسرالی خانوادہ: میرے والد نسبتی مرزا خالد بیگ کی اہلیہ اور میری خوش دامن کے خاندان کی کہانی بھی ایمان کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ ان کا خاندان مشہور داعی حضرت مولانا نسیم احمد غازی کی رہنمائی سے اسلام کی طرف آیا۔ مولانا غازی صاحب آپ کے بہنوئی اور اہلیہ کے چچا ہوئے، اور میرے خسر کی بہن کی خواہش اور ایما پر یہ رشتہ تکمیل تک پہنچا، اور پھر دونوں جوڑے نے محبت و الفت کے انتالیس بہاریں ایک ساتھ دیکھیں۔ آپ کی تین سالیاں اور پانچ سالے ہیں، جن میں ایک بھائی اور بہن کا انتقال ہوچکا ہے، اور بقیہ بحمدللہ بقید حیات ہیں۔ اولاد: آپ کی اولاد میں صرف تین بیٹیاں ہی ہیں۔ جن میں بڑی صاحب زادی میری شریکِ حیات ہیں، دوسری بیٹی بہار کے پٹنہ ایمس ہاسپٹل میں ملازمت کرتی ہیں، اور وہ محترم سید صدام صاحب کے نکاح میں ہیں، جن کا جودھپور، راجستھان سے تعلق ہے۔ تیسری بیٹی ضلع بجنور، یوپی میں ڈاکٹر شارق صاحب کے نکاح میں ہیں۔ ان تینوں صاحب زادیوں میں والد مرحوم کی نیکی اور محبت کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ جدائی کا ناقابلِ برداشت درد: جب سے وہ ہم سے جدا ہوئے، میرا دل ماننے کو تیار نہیں کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ہر لمحہ ان کی یاد دل کو چھو جاتی ہے۔ میرے ہاتھ کانپتے ہیں جب میں ان کے بارے میں کچھ لکھتا ہوں، میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے ہیں، اور میرا دل ٹوٹ جاتا ہے، یہ سوچ کر کہ اب وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے، جب وہ ہمارے ساتھ ہنس رہے تھے، ہم سے باتیں کر رہے تھے، ہمیں اپنی محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، مگر یہ ساری یادیں، یہ سارے درد، اور گھر کی یہ تاریک خاموشیاں، سب کچھ ان کی مسکراہٹ میں چھپ کر رہ گئے۔ آپ کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے اب بھی اُبھرتا ہے، جیسے کل ہی کی بات ہو۔ آپ کی ہر بات، ہر ہنسی، ہر نگاہ، دل میں ایک لذت چھوڑ گئی، جیسے وہ ابھی ہمارے درمیان ہیں۔ آپ کی مسکراہٹ میں ایک سکون تھا جو ہر تکلیف، ہر درد کو مٹا دیتا۔ وہ ہر انسان کی زندگی میں خوشی اور محبت کا پیغام چھوڑ کر خود دنیا سے رخصت ہوگئے!! بلا شبہ مرحوم بیٹے کی حیثیت سے والدین کے لیے ایک فرماں براد، اطاعت شعار فرزند ثابت ہوئے۔ بھائی کے روپ میں انہوں نے ایثار و محبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ شوہر کی صورت میں وہ وفا کے پیکر، عشقِ بے گراں کے سفیر رہے۔ باپ کے کردار میں رحمت و شفقت کی چھاؤں فراہم کی اور فکرِ آیندہ کی شمع روشن رکھی۔ نانا کے روپ میں وہ خوشیوں کے خزانے لٹاتے، محبت کی جھولی بھرتے، دل و جان سے نوازنے والے عظیم نانا رہے۔ اور خویش و اقارب، قرابت داروں کا خیال بطریق احسن ادا کیا۔ ان کی جدائی نے ایک خلا چھوڑ دیا جو کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ لیکن ان کی نیکیاں، ان کا ایمان، ان کی دعائیں ہمیں ہمت دیتی ہیں۔ میں اللہ سے دعا مانگتا ہوں کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے، اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین یارب العلمین!
رمیض احمد تقی دہلی، انڈیا |
|