اردو ادب کی تاریخ میں سعادت حسن منٹو کا نام ایک ایسے انقلاب آور افسانہ نگار کے طور پر ثبت ہے جس نے سماج کی کھوکھلی اقدار اور منافقت پر ایسی بے رحم ضرب لگائی کہ قاری کے ذہن و دل پر ایک ہلچل سی پیدا ہو جاتی ہے۔ منٹو کی تحریریں نہ صرف اپنے عہد کا آئینہ ہیں بلکہ آج بھی اُن کے افسانے ہمارے معاشرے کے زخموں پر انگلی رکھتے نظر آتے ہیں۔ 11 مئی 1912 کو لدھیانہ کے قصبہ سمبرالہ میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہونے والے سعادت حسن منٹو کی ابتدائی زندگی جدوجہد اور بغاوت کی داستان ہے۔ اُن کے والد مولوی غلام حسین پیشے سے جج تھے اور سخت گیر طبیعت کے مالک تھے، جبکہ منٹو کی والدہ اُن کی ہمیشہ حمایت کرتی تھیں۔ منٹو بچپن سے ہی تعلیم کے روایتی نظام سے باغی رہے، میٹرک کے امتحان میں تین بار ناکام ہونے کے بعد بالآخر 1931 میں تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ اُن کا تعلیمی سفر ہندو سبھا کالج اور ایم او کالج سے ہوتا ہوا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تک پہنچا، جہاں سے انہیں یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ انہیں دق کی بیماری ہے۔ منٹو کی زندگی کا اہم موڑ 1934 میں آیا جب اُن کی ملاقات ترقی پسند رہنما عبدالباری علیگ سے ہوئی۔ باری علیگ نے نہ صرف منٹو کو روسی اور فرانسیسی ادب سے متعارف کرایا بلکہ انہیں ترجمہ نگاری کی طرف راغب کیا۔ منٹو نے وکٹر ہیوگو کے ناول ”دی لاسٹ ڈے آف اے کنڈیمنڈ مین“ کا اردو میں ”سرگزشت اسیر“ کے نام سے ترجمہ کیا جو اُن کی پہلی مطبوعہ کتاب بنی۔ اس کے بعد انہوں نے آسکر وائلڈ کے ڈرامے ”ویرا“ کا ترجمہ کیا اور روسی افسانوں کے تراجم کا مجموعہ ”روسی افسانے“ کے نام سے شائع کیا۔ 1936 میں منٹو بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے فلمی رسالہ ”مصور“ کی ادارت کی۔ انہوں نے کئی ہندی فلموں کے اسکرپٹ اور مکالمے لکھے جن میں ”کشن کنہیا“ (1936) اور ”اپنی نگریہ“ (1939) شامل ہیں۔ 1941 میں وہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے شامل ہوئے جہاں انہوں نے اٹھارہ ماہ کے قلیل عرصے میں ڈراموں کے چار مجموعے تحریر کیے۔ بعد میں انہوں نے ”مرزا غالب“ جیسی کلاسک فلم کے اسکرپٹ بھی لکھے۔ تقسیم ہند کے بعد منٹو 1948 میں لاہور منتقل ہو گئے۔ اس دور میں انہوں نے اپنے کچھ یادگار افسانے تخلیق کیے جن میں ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“، ”کھول دو“ اور ”ٹھنڈا گوشت“ شامل ہیں۔ تقسیم کے المیے نے منٹو کو گہرائی سے متاثر کیا اور ان کے افسانوں میں یہ درد واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ منٹو نے تقسیم کے بارے میں لکھا: ”یہ وہ دور تھا جب انگریز تقسیم ہند کے لیے کسی حد تک خاکے بنا رہے تھے، دوسرے لفظوں میں اس موقع پر وہ اپنے ہاتھوں لگائی آگ کا بڑی خوشی سے نظارہ کر رہے تھے۔“ منٹو کا فن حقیقت نگاری کی ایک نئی جہت پیش کرتا ہے۔ انہوں نے سماج کے پِسے ہوئے اور نظرانداز کردہ طبقوں کو اپنا موضوع بنایا۔ طوائفیں، شرابی، مجرم اور معاشرے کے دوسرے ”گمراہ“ کردار منٹو کے افسانوں میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ منٹو کا ماننا تھا کہ ”اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان موریوں اور بدروؤں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں۔ اگر ہم مندروں اور مسجدوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان قحبہ خانوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں سے لوٹ کر کئی انسان مندروں اور مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔“ منٹو کے افسانوں میں جنسیت کو بھی کھلے انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اُن پر فحش نگاری کے کئی مقدمات بھی بنے۔ تاہم منٹو کا موقف تھا کہ ”میرے افسانوں میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔“ اور سب سے مزے کی بات! منٹو پر اُن کے جن افسانوں کی وجہ سے پاکستان میں فحش نگاری کے کئی مقدمات چلاے گۓ، آج انہی افسانوں کو اُن کی کمال تحریر کہہ کر چھاپا جا رہا ہے، بلکہ انہیں سول اوارڈ بھی دیا گیا۔ کیا یہ کھُلا تضاد نہیں؟ اگرچہ منٹو نے کبھی خود کو ترقی پسند مصنف نہیں کہا، لیکن اُن کے افسانوں کا مضمون ترقی پسند تحریک کی ترجیحات سے ہم آہنگ تھا۔ وہ سماجی انصاف، محنت کشوں کے حقوق اور استحصال کے خلاف تھے۔ اُن کا ایک مشہور قول ہے: ”میں بغاوت چاہتا ہوں۔ ہر اُس فرد کے خلاف بغاوت چاہتا ہوں جو ہم سے محنت کراتا ہے مگر اُس کے دام ادا نہیں کرتا۔“ منٹو پر کمیونسٹ ہونے کے الزامات بھی لگائے گئے۔ منٹو مذہب کے نام پر ہونے والے استحصال کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے لکھا: ”لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔“ منٹو کی شخصیت اُن کے افسانوں کی طرح پیچیدہ اور متنوع تھی۔ وہ شراب نوشی اور جوئے کے عادی تھے، جس کی وجہ سے انہیں مالی مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔ اُن کی بیوی صفیہ منٹو نے اُن کی زندگی کے مشکل دور میں اُن کا ساتھ دیا۔ منٹو کی طبیعت میں اضطراب اور بے چینی تھی، وہ کسی شوق کو زیادہ دن تک نہیں نبھا پاتے تھے، سوائے شراب کے جس نے اُن کو جان لے کر ہی چھوڑا۔ منٹو کو اپنی انفرادیت پر ناز تھا۔ انہوں نے کبھی کسی ادبی گروہ یا تحریک کا حصہ بننے سے انکار کر دیا، حالانکہ اُن کے دوستوں میں ترقی پسند مصنفین کے اہم نام شامل تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ”سیاہ حاشیے“ کا دیباچہ حسن عسکری سے لکھوایا جس میں ترقی پسند مصنفین پر تنقید کی گئی تھی، جس پر احمد ندیم قاسمی نے انہیں خط لکھ کر شکایت کی تھی۔ 18 جنوری 1955 کو لاہور میں محض 42 سال کی عمر میں منٹو نے اس دنیا کو الوداع کہا۔ کثرت شراب نوشی کی وجہ سے انہیں تشمع (جگر کی بیماری) ہو گیا تھا۔ انہیں لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔ وفات کے بعد پاکستان حکومت نے انہیں ملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ”نشان امتیاز“ سے نوازا۔ منٹو نے اپنی مختصر سی زندگی میں 270 سے زائد افسانے، 100 سے زیادہ ڈرامے، کئی فلمی اسکرپٹ اور خاکے تحریر کیے۔ اُن کے مشہور افسانوی مجموعوں میں ”دھواں“، ”گنجے فرشتے“، ”سیاہ حاشیے“، ”ٹھنڈا گوشت“، ”چغد“ اور ”نیلی رگیں“ شامل ہیں۔ منٹو کی تحریریں آج بھی اردو ادب کا اہم حصہ ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اردو افسانے کو نئی جہت دی بلکہ سماج کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا جن پر بات کرنے سے عام طور پر گریز کیا جاتا ہے۔ اُن کا فن آج بھی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے، کیا واقعی منٹو کی تحریریں فحش تھیں یا وہ معاشرے کے فحش رویوں کا آئینہ تھیں؟ جیسا کہ منٹو خود کہتے تھے: ”اگر آپ میرے افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔“ منٹو کی زندگی اور فن ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ حقیقی ادب کا کام صرف تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ سماج کے زخموں کو بے نقاب کرنا ہے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی تلخ حقیقتوں کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی منٹو اردو ادب کا ایک زندہ اور متحرک نام ہے۔ ہاں وہ الگ بات ہے کہ ہم اُن کے افسانوں کو فحش گوءی کہہ کر آنکھیں اور کان بند کر لیتے ہیں یا پھر مذہبی حوالے دے کر طرح طرح کے بہانے تراشتے ہیں۔ کیا بِلّی کو دیکھ کر قبوتر آنکھ بند کر لے تو کیا وہ حقیقت سے بچ سکتا ہے؟ سوال کا جواب خود کو دیں منٹو تو کہہ گۓ ہیں کہ: ”میں تہذیب و تمدن اور معاشرے کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا، کیونکہ یہ میرا کام نہیں ہے۔ درزی کا ہے۔“ ”لوگ کہتے ہیں کہ میں سیاہ قلم ہوں۔ میں سیاہ تخت پر سیاہ چوک سے نہیں لکھتا بلکہ سیاہ تخت پر سفید چوک سے لکھتا ہوں تاکہ سیاہ تختی کی سیاہی اور بھی نمایا ہو جاے۔“ |