صحابہ کرام نے ولادت رسولﷺ کا جشن کیوں نہیں منایا؟

قرآن کریم میں رب نے ارشاد فرمایا:”تم فرماﺅ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں“۔(پ۱۱،آیت58،سورہ یونس)اس آیت مبارکہ کی تشریح بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ ابن عباس،حضرت ابوجعفر الباقر،حضرت قتادہ،حضرت مجاہد،امام آلوسی،امام ابوحیان اندلسی،امام ابن جوزی،امام طبرسی اور کئی جید علمائے کرام نے فضل سے مراد قرآن اور رحمت حضور ﷺکی ذات کوقراردیاجبکہ امام جلال الدین سیوطی نے فضل اور رحمت دونوں حضورﷺ کی ذات ہی کو قرار دیا۔مصطفی کریمﷺ کی رحمت کاتذکرہ توخود قرآن کریم بیان کررہاہے یہ فرماکر”اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔“(سورہ انبیائ،پ17،آیت 107)گویاکہ اس آیت میں حصول فضل ورحمت پر خوشی وجشن منانے کوخصوصی حکم ہے ۔چنانچہ جونہی ماہ ربیع النور شریف کاآغازہوتاہے غلامان رسولﷺآپﷺکی ولادت کی خوشی میںدیوانہ وار مگن ہوجاتے ہیں،چہارجانب جشن کاسماع ہوتاہے اورایسا کیوں نہ ہوکہ کائنات کی ساری خوشیاں، جملہ مسرتیں اور شادمانیاں اسی ایک خوشی پرقربان ہوجائیں پھر بھی اس یوم سعید کے منانے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔اس کاجواز نص قرآن سے ثابت ہے اور خود اللہ رب العزت نے اس خوشی کے منانے کا نہ صرف اہتمام کیا بلکہ مندرجہ بالاارشاد قرآنی کی رو سے ہمیں بھی اس نعمت عظمیٰ پر خوشی منانے کاحکم دیا اور فرمایاکہ اللہ کے فضل اور رحمت پر اظہار مسرت کرو۔چنانچہ جب پیغمبراسلام ﷺکی ولادت کامہینہ آئے تو ایک سچے مسلمان کی قلبی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ خوشیاں منانے کے لیے اس کا دل بے قرار اور طبیعت بے چین ہوجاتی ہے اور اسے یوں لگتا ہے کہ اس کے لئے کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور میلاد رسولﷺ کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے وہ یوں سمجھتا ہے کہ اس دن کائنات کی ساری خوشیاں سمٹ کر اس کے دامن میں آگری ہیں۔اس سے بڑھ کر اس کے لئے مسرت وشادمانی کااور کون سا موقع ہوگا۔وہ تو اس خوشی سے بڑھ کر کائنات میں کسی خوشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

عاشقان مصطفیﷺاپنے گھروں پر قمقمے لگاکر،پرچم لہرا کر،گلی کوچے،محلے اور بستیوں کوسجاکر،نئے لباس پہن کر اور نذرونیاز کااہتمام فرماکر اپنی خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں۔مگر چند عقل وخرد سے پیدل افراد ہر سال یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ کیاعید میلادصحابہ کرام نے بھی منایاتھا؟انھیں سمجھنا چاہئے کہ وقت ،حالات اور ادوارکی تہذیب وثقافت کے مطابق انسان خوشیاں مناتاہے ۔اس دور کی ثقافت ہی ایسی نہیں تھی کہ وہ بھی ایسے جشن کااہتمام کرتے جیسا کہ موجودہ دور میں ہوتاہے۔صحابہ¿ کرام نے صرف میلادہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہے جو انھوں نے ویسے نہیں منائی جیسا کہ آج ہر مکتبہ فکر کے مسلمان مناتے ہیں۔جیسے: مدینہ¿ منورہ تشریف آوری کے بعد حضورﷺ نے انصار ومہاجرین کے مشورہ سے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا،اسلامی تاریخ میں یہ عظیم معاہدہ”میثاق مدینہ“کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔اس دن اسلامی ریاست کی باقاعدہ تشکیل ہوئی اورحضورﷺ ریاست مدینہ کے آئینی حکمراں بنے۔مسلمانوں کے لئے یہ موقع عظیم خوشی کادن تھا مگر انہوں نے یوم میثاق مدینہ منانے کاکوئی اہتمام اس لئے نہ کیاکہ ایسا کرناان کے کلچرمیں شامل نہ تھا۔اسی طرح مسلمانوں نے جب جنگ بدرمیں فتح پائی جسے قرآن نے یوم الفرقان قراردیا۔یہ دن بھی دور صحابہ میں سال بہ سال باربارآتا رہامگر اس دن کومنانے کاان میں رواج نہیں تھا۔اسی طرح فتح مکہ جسے قرآن نے ”فتح مبین“قرار دیا،اتنی بڑی خوشی پربھی صحابہ نے کسی طرح کاکوئی جشن کااہتمام نہیں کیاکیونکہ یہ اس وقت کی ثقافت میں شامل نہیں تھا۔شب قدر جو”یوم نزول قرآن“ ہے اس دن کو بھی صحابہ¿ کرام اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے منانے کاکوئی بھی اہتمام نہیں کیا۔اس طرح کی اور بھی روایتیں جمع کی جاسکتی ہیں۔گویاکہ ان روایتوں سے یہ بات اجاگر ہوتی ہیکہ ایسا سوال آج کے مسلمانوں سے پوچھنااور انھیں ذہنی الجھن میں مبتلاکرناخالص جہالت ،نادانی اوررسول دشمنی ہے۔یہ سوال قائم کرنے والے کیابتاسکتے ہیکہ کہ کسی صحابی نے شادی کاایسااہتمام فرمایاجس طرح آج مسلمانوں میں رائج ہے،کیاکسی صحابی سے یہ بچے کی ولادت کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کرنااور دعوت کا اس طرح اہتمام کرناثابت ہے جس طرح آج مسلمانوں کارواج ہے،کیا صحابہ ¿ کرام نے اس طرح یوم آزادی منایاتھاجس طرح آج منایاجاتاہے،کیاکسی صحابی نے درس وتدریس کی محفل میںاس دور کے کسی مذہبی پیشواکوبلایاتھاجیسے آج کچھ لوگ اپنے سالانہ جلسے میں پنڈتوں کوبلاتے ہیں،کیاکسی صحابی نے کسی غیر مسلم خاتون کومسجد کادورہ کروایاتھاجس طرح آج نام نہاد مسلمان نیم برہنہ خاتون کو مسجدوں کادورہ کرواتے ہیں،کیاکسی صحابی نے اپنی کسی ذاتی کامیابی پر اس طرح آتش بازی کی تھی جیسے آج ذاتی خوشی پر پٹاخے پھوڑے جاتے ہے یعنی تم ذاتی خوشی کے لئے خلاف شرع عمل کروتو جائزومستحسن اور غلامان رسولﷺ اللہ کے محبوب کی آمد پر اللہ ورسول کے حکم سے آمد خیرالانام منائیں توناجائز-
دامن کوذرادیکھ ذرابند قبادیکھ

غرضیکہ کئی ایسے کام تھے جنھیں صحابہ کرام نے نہیں کیااور آج ہم کرتے ہیں۔تو ایسا بھدّاسوال صرف میلادشریف کے موقع پر قائم کرنا ہرگز ہرگزدرست نہیں۔لہٰذاعاشقان مصطفیﷺسے التماس ہے کہ بے جاولغوباتوں پر توجہ نہ دیتے ہوئے اپنے آقاکامیلاد خوب دھوم دھام سے مناﺅمگرہاں!!اس بات کاخاص خیال رکھیں کہ کوئی غیر شرعی امر نہ ہونے پائیں۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731785 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More