حق سے مراد قطعی اور واقعی چیز
ہے اور یہ لفظ سچ، قرآن مجید ، عدل و انصاف اسلام، ٹھیک اور درست کے معنوں
میں استعمال ہوتا ہے اور ’’حق‘‘ خدا تعالی کا ایک نام بھی ہے۔ (مفتاح
اللّغات)پیش نظر مضمون میں حق سے مراد اللہ تبارک و تعالی کی معرفت اور
اسکے جمیع احکام اوامرو نواہی مراد ہیں جو انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے
اسوہ حسنہ سے ثابت ہیں۔
حق کے مقابلے میں باطل ہے جو پوری قوت اور لاؤ لشکر کے ساتھ موجود ہے اور
یہ نفس امارہ، شیطان ابلیس اور اس کی ذریت پر مشتمل ہے۔
مقصد یہ ہے کہ حق روز روشن کی طرح واضح او ر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود
ہے مگر اکثر لوگ اس کے وجود سے انکار کرتے ہیں کچھ لوگ وہ ہیں جو خود ذات
باری تعالی ٰکے وجود سے ہی منکر ہیں جنہیں عرف عام میں دھریہ کہا جاتا ہے
اور کچھ وہ ہیں جو اللہ تعالی کو مانتے تو ہیں مگر ایک سپریم پاور (Supreme
Power)کی حیثیت سے ، جو کائنات کے نظام کو چلا رہی ہے جبکہ اسلامی تعلیمات
کی رو سے اللہ تبارک و تعالی پر ایمان اس حیثیت سے معتبر ہے کہ اسے وحدہ
لاشریک مانا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ رسالت کا اقرار بھی کیا جائے یعنی یہ
عقیدہ رکھا جائے کہ سلسلہ انبیآء میں جتنے انبیآء علیہم الصلو ٰۃ والسلام
تشریف لائے وہ سب انبیآ ء بر حق تھے اور ساتھ ہی نبی آخر الزمان حضرت محمد
رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی تصدیق بھی کی جائے ۔
سوال یہ کہ حق وباطل کی پہچان کیسے ہوتی ہے اور کیسے پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز
حق ہے اور یہ باطل ہے؟تو انکی پہچان عمل سے ہوتی ہے جب انسان حق پر چلنے کا
ارادہ کرتا ہے تو باطل یعنی نفس امارہ و شیطان فوراً مزاحمت کرتے ہیں اور
اسے اس راستہ سے روکنے میں پوری پوری کوشش کرتے ہیں اور انکے حکم میں ایک
خاص کشش ہے کہ انسان گویا کچے دھاگے سے بندھا اسکی تعمیل میں کھینچا چلا
جاتا ہے او ر کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا۔ اسکی مثال کیلئے عقائد و اعمال
کا مسئلہ قابل غور ہے کوئی شخص نہ تو کسی نئے مذھب یا عقیدہ کو اتنی آسانی
سے اختیار کرتا ہے اور نہ ہی پہلے سے قائم کسی عقیدہ کو جلدی سے چھوڑتا ہے
چاہے اسے لاکھ دلائل دیئے جائیں۔ آپ کسی ہندو، سکھ، بدھ مت یا کسی اور مذھب
سے تعلق رکھنے والے کسی شخص سے یہ کہیں کہ بھائی! آپ اپنے مذھب کو چھوڑ کر
اسلام قبول کرلیں کہ یہ قدیمی مذھب ہے اور انبیآء کرام ؑ کا دین ہے اور اس
میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے؟ تووہ جواب میں یہ ہرگز نہیں کہے گا کہ
’’ٹھیک ہے جی! یہ کونسی بڑی بات ہے میں آج سے بلکہ ابھی سے اپنے آبائی مذھب
کو چھوڑتا ہوں اور اسلام قبول کرلیتا ہوں ، اب تک تو میں مندر جایا کرتا
تھا اور گیتا اور رامائن پڑھا کرتا تھا اور اب میں مسجد میں آجایا کروں گا
اور قرآن پاک کی تلاوت کیا کروں گا، یا پہلے میرا تعلق سکھ مت سے تھا اور
میں گوردوارہ جا کراپنی مذہبی کتاب ’ ’ گرنتھ صاحب‘‘ پڑھتا کرتا تھا اب میں
قرآن پاک کی تلاوت کیا کروں گا اور اسلامی تعلیمات پر عمل کروں گابھلا اس
سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ مگر ایسا نہیں ہوتا اور اس کے اندر سے فو راً مزاہمت
شروع ہو تی ہے کہ خبردار اس کی بات نہیں ماننا تم جس عقیدہ و مذھب پر قائم
ہو وہی صحیح ہے اگر یہ غلط ہوتا تو تمھارے آباء و اجداد اسے اختیار نہ کرتے
آپ صدیوں کی تاریخ ملاحظ کر لیں ایساہی ہوتا چلا آیا ہے کہ جب بھی کسی قوم
میں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی نبی ؑ یا پیغمبر ؑ بھیجا گیا اور اس نے
لوگوں کو توحید و رسالت کی دعوت دی تو اکثر لوگوں نے انہیں جھٹلایا ، انکی
تعلیمات سے انکار کیا اور کہا کہ ہمارے لیے ہما رے باپ دادا کادین کافی ہے
جیسا کہ قرآن پاک میں مذکور ہے ’’اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں
کو ئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیاکہ ہم نے
اپنے باپ دادا کو(ایک راہ پر اور)ایک دین پر پایا اور ہم تو انہیں کے نقش
پا کی پیروی کرنے والے ہیں(نبیؑ نے) کہابھی کہ اگرچہ میں تمھارے پاس اس سے
بہت بہتر (مقصود تک پہچانے والا)طریقہ لے کر آیا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ
دادوں کو پایا تو انھوں نے جواب دیاکہ ہم اسکے منکر ہیں جسے دے کر تمھیں
بھیجا گیا ہے‘‘۔
یہ عقائد کامسئلہ تھا اور اعمال کے لحاظ سے اسکی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ
جو لوگ مسلمان ہیں انکی اسلامی تعلیمات پر عمل کی کیا کیفیت ہے؟ توعام
مشاہدہ کی بات یہ ہے کہ آج کتنے مسلمان ہیں جو پانچ وقت کی پوری نماز ادا
کرتے ہیں؟ کچھ لوگ صرف عید کی نماز ادا کرتے ہیں اور کچھ لوگ جمعہ کے روز
ہی مسجد جا یا کرتے ہیں جبکہ کچھ مسلمان صرف فجر کی ایک نماز پڑھنے کو ہی
کافی سمجھتے ہیں ۔ اس طرح زکوۃ کی مثال ہے بہت سے مسلمان ایسے ہیں جوسرے سے
زکوۃ نکالتے ہی نہں اورجونکالتے بھی ہیں وہ نصاب کے مطابق پوری نہیں نکالتے
کیوں کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ نصاب کسے کہتے ہیں؟اور ازرو ئے نصاب
انکی زکوۃ کتنی بنتی ہے بس اندازے سے ہی نکال دیتے ہیں اگر تمام مسلمان
پوری پوری زکوۃ ادا کریں تو معاشرے میں کوئی شخص غریب نہ رہے آج جو زکوۃ
لینے والے ہیں وہ کل کو خود زکوۃ دینے والے بن جائیں ،اسی طرح حق تعالیٰ کا
حکم ہے کہ زنا کاری کے قریب بھی نہ جاؤ، نظروں کو نیچا رکھو، رشوت نہ لو،
ملاوٹ نہ کرو ، کم نہ تولو، دھوکہ دہی نہ کرو، قتل و غارت گری سے باز آجاؤ
وغیرھم،مگر کسی ایسے معاشرے کی مثال نہیں دی جاسکتی جہاں زنا کاری یا قتل و
غارت گری نہ ہوتی ہو یا لوگ رشوت نہ لیتے ہوں یا کسی پر ظلم نہ ہوتا ہو یا
کسی کا حق نہ دبایا جاتا ہو؟یہ سب کام ڈنکے کی چوٹ پر جاری ہیں جو اس بات
کا ثبوت ہیں کہ حق تعالی کے احکامات کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور عملی طور پر
انکا انکار کیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ تمام دنیا کے لوگ اپنے اپنے عقائد کو
چھوڑ کر صرف اسلام قبول کر لیں اور جو لوگ مسلمان ہیں وہ اسلامی تعلیمات پر
پوری طرح عمل کرنے والے بن جائیں؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ اتنا آسان کام
نہیں کیونکہ اندر کاباطل مزاحمت کرتا ہے اور انسان کو اس راستہ پر چلنے سے
روکنے میں اپنی پوری قوت صرف کرتا ہے ۔
بات یہاں سے چلی تھی کہ حق و باطل کی پہچان عمل سے ہوتی ہے کہ جب انسان حق
پر چلنے اور باطل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ حق بھی کوئی
چیز ہے ورنہ انسان اپنی ساری عمر نفسانی خواہشات کی تکمیل میں گزار دیتا ہے
اور اس خیالی جنت میں رہتے ہوئے معرف حق سے ناآشنا رہتا ہے اور اس بات سے
مطأن ہوتاہے کہ اوہ جو کچھ بھی کر رہا ہے صحیح کر رہا ہے کیوں کہ ازروےٌ
قرآن شیطان ابلیس انسان سے جو کام کرواتا ہے انھیں وہ اسکی نظروں میں درست
قرار دیتا ہے۔ درج ذیل آیات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ انسان کے وہ
اعمال جو اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر ہوتے ہیں وہ سراسر گھاٹے والے ہوتے ہیں
اور انکا اسے روز قیامت کوی فایدہ نہ ہو گا۔
’’آپ فرما دیجئے کہ اگر(تم کہو تو) میں تمہں بتا دوں کہ با اعتبار اعمال سب
سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ ہیں جنکی دنیوی زندگی کی تمام کوششیں بیکار
ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیںیہی وہ لوگ
ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار کی اور اسکی ملاقات سے کفر کیا اس لئے انکے
اعمال غارت ہو گئے پس قیامت کے دن ہم انکا کوئی وزن قائم نہ کریں
گے۔(الکھف:۱۰۵) |