بلوچستان جہاں بھارتی دہشت گردی
براستہ افغانستان کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اُسی بلوچستان میں امن وامان کی
مسلسل ابتری، خصوصاً کوئٹہ میں بدترین فرقہ وارانہ دہشت گردی کے بعد
86میتوں کے ساتھ ہزارہ برادری کے متواتر چارروزتک شدید سردی میں کھلے آسمان
تلے احتجاجی دھرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے میں ناکامی
پروزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے صدر مملکت کی منظوری سے آئین کے آرٹیکل234
کے تحت وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کی حکومت برطرف کردی ہے اور صوبے
میں دوماہ کے لئے گورنر راج نافذ کردیا گیاہے۔ وزیراعظم نے دھرنے کے شرکا
سے خطاب کیا اور ہزارہ برادری کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ امن
و امان کے قیام اور دہشت گردی کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے
فوج سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے گورنرکی صوابدید اور احکامات کے
تحت انتظامیہ کی بھرپور معاونت کریں گے۔ ہزارہ برادری کا مطالبہ تھا کہ
کوئٹہ فوج کے حوالے کیاجائے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ سول انتظامیہ کسی بھی
وقت فوج کو اپنی مدد کے لئے بلاسکتی ہے۔
کوئٹہ اور بعض دوسرے مقامات پر فرقہ وارانہ دہشت گردی کے المناک واقعات ایک
عرصہ سے جاری ہیں لیکن گزشتہ دنوں ہونے والے بم دھماکوں میں سوسے زائد بے
گناہ لوگ جاں بحق ہوگئے۔ اس سانحے کے خلاف کوئٹہ کے علاوہ کراچی، لاہور اور
پشاور سمیت پورے ملک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان میں چندسال قبل
تک فرقہ واریت کا نام و نشان نہیں تھا۔ مسلکوں کے اختلاف کے باوجود لوگ
بھائی چارے اور ہم آہنگی کی فضا میں قدم بقدم ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے تھے
کہ اچانک فرقہ پرستی عودکرآئی اور ایک خاص فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہزارہ
قبیلہ کے لوگ بڑی تعداد میں اس کا نشانہ بننے لگے۔ ایک کالعدم تنظیم قتل و
غارت کے ان واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کررہی ہے۔ اس دوران تمام فرقوں میں
مذہبی رواداری کا تسلسل قائم رہا۔ اس سے عوامی حلقوں میں اس تاثر کو تقویت
ملی کہ بعض مخصوص عناصر صوبے میں امن و امان کی مجموعی خراب حالت سے فائدے
اٹھاکر فرقہ وارانہ منافرت اور کشیدگی میںاضافہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ نہ صرف
بلوچستان بلکہ پورا ملک افراتفری اور انارکی کاشکار ہوجائے۔ اہل فکر ونظر
اس کے پیچھے کسی خطرناک بین الاقوامی سازش کو کارفرما دیکھ رہے ہیں جس کا
مقصد پاکستان کو غیرمستحکم اور منتشر کرناہے۔ ”بھاری مینڈیٹ“ رکھنے والی
بلوچستان کی یہ حکومت دوسرے معاملات کی طرح امن و امان کا مسئلہ بھی حل
کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ صوبے میں بدامنی اور لاقانونیت کا سپریم کورٹ
کو خود نوٹس لینا پڑا اوراس نے طویل سماعتوں کے بعد قرار دیا کہ امن و
انصاف کی فراہمی میں ناکامی پر صوبائی حکومت، حکمرانی کا آئینی جواز کھوچکی
ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صوبائی حکومت اسی وقت مستعفی ہو جاتی مگر صوبے
کے طول و عرض میں ٹارگٹ کلنگ اور دھماکے جاری رہے اور لاشیں گرتی رہیں جبکہ
حکومت اقتدار سے چمٹی رہی اور وفاقی حکومت نے بھی اس کا پورا ساتھ دیا۔
وزیراعلیٰ نے ذمہ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا۔ سانحہ کوئٹہ کے
بعدبھی جب پورے ملک میں صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے، وہ بیرون ملک گئے ہوئے
ہیں۔ ان کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ صوبائی ترجمان کے مطابق وہ علاج کے
لئے باہر گئے ہیں جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ بس ذاتی کام سے آیا ہوں۔ ان کی
اتحادی پارٹیوں کا رویہ یہ ہے کہ حالات پر قابو پانے میں ناکامی کے باوجود
جمعیت علماءاسلام سمیت تقریباً سب نے حکومت کی برطرفی اور گورنرراج کے نفاذ
کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ اب جبکہ وفاقی حکومت نے جمہوریت کی روح کے مطابق
حتمی اقدام اٹھا لیا ہے توگورنر کو بطور چیف ایگزیکٹو قانون نافذ کرنے والے
تمام اداروں اور ایجنسیوں کو پوری قوت سے متحرک کرنا چاہئے تاکہ قتل و غارت
بند ہو اور قاتل اپنے کئے کی سزا پائیں ۔ اگر اب بھی حالات پر قابو نہ پایا
جاسکا تو اس کے اثرات پورے ملک پر پڑ سکتے ہیں۔ وقت آگیاہے کہ وفاقی حکومت
بھی خواب غفلت سے جاگے اور بلوچستان کے حوالے سے فرقہ واریت کے علاوہ امن و
امان کو تباہ کرنے والے دوسرے مسائل کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لے اورانہیں
حل کرے۔ |