اللہ پاک نے انسان کو اشرف
المخلوقات بنایا ہے جب تک اس کا ضمیر ذندہ رہے تو اس کی فطرت میں ظلم سے
نفرت اور مظلوم کی حمایت کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ لیکن بعض بھیڑیا نما انسان
ظلم و جبر کی حدیں پھلانگ کر و حشی درندوں سے بھی دو قدم آگے نکل جاتے ہیں۔
جس کی بہترین مثال مملکت عزیز پاکستان میں اسلام کے نام پر اسلام اور
انسانیت کے دشمن دہشت گرد عناصر کی طرف سے عوامی مقامات سے لے کر سکولوں
ہسپتالوں میلاد و عزا کے جلوسوں مساجد امام بارگاہوں و زیارات گاہوں حتی کہ
جنازوں پر فائرنگ ٹارگٹ کلنگ دھماکے و خودکش حملے کرکے خواتین و معصوم بچوں
تک کو بھی نہیں بخشتے، اور پھر نام بھی اسلام کا نعرہ بھی تکبیر کا لگاتے
ہیں۔ ۔حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے انہی دہشت گردوں کی نشاندہی کرکے ایک شعر
کے زریعے سمندر کو کوزے میں بند کرکے فرمایا تھا ۔
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی شمشیر نعرہ تکبیر بھی فتنہ
ظلم کرنے والے دہشت گرد اور ان کے سرپرست شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا
کوئی محاسبہ نہیں ہوگا، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ نظام قدرت میں مظلوم
کی آہ کا اتنا اثر ہے کہ یہ براہراست عرش الہی تک پہنچتی ہے،مظلوموں کی
دادرسی کی بجائے حکمران اتنے بے حس و بے شرم اور قاتلوں کے سرپرست بن جائے
،جب سابق وزیراعلی بلوچستان کے آبائی علاقے مستونگ میں بارہا زائرین کا
ناحق قتل عام اور علمدار روڈ پر دہشت گردوں کا رقص ابلیس جاری رہنے
پرصحافیوں نے سوال کیا تو رئیسانی نے بے شرمی کی انتہا کرکے جواب دیا کہ
تیس چالیس افراد کے قتل ہونے سے کروڑوں کے آبادی والے بلوچستان پر کوئی فرق
نہیں پڑتا اسی طرح جب صحافی نے سوال کیا کہ آپ کیا اقداامات کریں گے تو
مذید بے شرمی سے مظلوموں کے لہو کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ میں دو ٹرک ٹشو
پیپر علمدار روڈ رونے والوں کے لئے بھجواؤں گا۔ اسلم رئیسانی ہر وقت شراب
کے نشے میں دھت تھا لیکن اسے اقتدار اور شراب کے نشے میں شاید اندازہ نہیں
تھا کہ امیر المومنین حضرت امام علی کے فرمان کے مطابق ـ حکومت کفر سے تو
چل سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں۔ـ۔۔ یہ حکومت و ریاست کی آئینی و اخلاقی ذمہ
داری ہے کہ عوام کے جان و مال عزت و ناموس کی حفاظت کریں۔ اسی طرح نواسہ
رسول ص سید الشہدا حضرت امام حسین کا یہ فرمان کہ ، ظلم کے خلاف خاموش رہنا
ظلم میں شریک ہونے کے برابر ہے یا با الفاظ دیگر دنیا میں دہشت گردی و فساد
کی وجہ آچھے و نیک لوگوں کی ظلم پر خاموشی کی وجہ سے ہی ہے۔یا پھر نواسہ
رسول ص سید الشہدا امام حسین نے مظلوموں کی ہدایت و رہنمائی ہی کے لئے
فرمایا تھا کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنا ہی ذیادہ نقصان اٹھاؤ
گے۔
آخر کار ظلم و جبر کے شکار علمدار روڈ کوئٹہ کے باسیوں نے بلوچستان کی
نااہل اور قاتلوں کی سرپرست رئیسانی حکومت کے خلاف خون جمانے والی منفی دس
ڈگری شدید سردی میں اپنے پیاروں کے خون آلود لاشوں کے سامنے چار دن مسلسل
بیٹھ کر ظالم و نااہل حکمران کا خاتمہ کر ہی لیا، حالانکہ علمدار کوئٹہ میں
بے گناہوں کے لہو کی طاقت اور درجنوں شہدا کے لاشوں سمیت مثالی پرامن و
منظم ترین دھرنہ و احتجاج کو ختم کرنے کے لئے شاہ سے ذیادہ شاہ کے وفادار
کئی افرد بشمول رحمان ملک نے مظاہرین سے التجا کی کہ لاشیں دفن کردیں پھر
چاہے جتنی دیر دھرنا دیں۔ لیکن بارہا زبانی جمع خرچ وعدوں سے تنگ علمدار
روڈ کے باسیوں جس سے متاثر ہو کر نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں و دیہات
بلکہ دنیا کے درجنوں ممالک میں پاکستان کے سفارتخانوں اور اقوام متحدہ کے
دفاتر کے سامنے کوئٹہ کے مظلومین سے یکجتی کے لئے یہ دھرنا چار دن تک مسلسل
جاری رہ کر ظلم کے خلاف عالمی احتجاجی علامت بن گیا۔
اس دھرنے نے پاکستان میں مظلوموں کی طرف سے منظم و پر امن اورباوقار ملک
گیر احتجاج کی ایک نئی تاریخ رقم کردی، بیک وقت ملک کے درجنوں شہروں میں
کروڑوں عوام نے سڑکوں کا رخ کرکے احتجاج کیا جس کے منظم اور بہترین ہونے کو
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اینکرز و کالم نگاروں نے بھی بھرپور سراہا اور
کوریج بھی دی۔ اگر چہ گزشتہ سال اسلام آباد میں پاراچنار کرم ایجنسی کے
قبائلی عوام نے دہشت گردوں کے مظالم اور چار سال سے ٹل پاراچنار روڈ کی
بندش پر یہ موقف اختیار کرکے احتجاجی دھرنا دیا تھا کہ ٹل پاراچنار شاہراہ
طالبان اورحکومت و سیکورٹی فورسز دونوں کے لئے کھلی ہے۔۔۔، لیکن گزشتہ چار
سالوں سے صرف پاراچنار کرم ایجنسی کے عوام کے لئے بند اور مقتل گاہ بنی
ہوئی ہے ،اس ظلم کے خلاف اسلام آباد میں ایک سو دس دن تک یعنی چار ماہ شدید
ترین گرمی میں ایک منظم و پرامن دھرنا دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔
پاراچنار کے عوام کے اسلام آباد میں منعقدہ دھرنے حمایت میں بھی علمدار روڈ
دھرنے کی طرح بیک وقت ایک ہی دن میں پاکستان کے کئی شہروں کی شاہراوں پر
احتجاجی اجتماعات و دھرنے ہوئے تھے، لیکن اس کی بازگشت میڈیا پر نہ ہونے کے
برابر تھی، شاید اس وقت میڈیا کی ترجیات میں نہیں تھا یا پھر علمدار روڈ
کوئٹہ کی طرح شہدا کی لاشیں ہمراہ نہیں تھی، الغرض شہدا کی لاشوں اور لہو
کی قوت نے علمدار روڈ دھرنے کو ایک نئی جہت و عالمی توجہ دی۔
علمدار روڈ دھرنے کی ایک اور اہم ترین پہلو اپوزیشن کی تمام اہم پارٹیوں
سمیت برسراقتدار حکومتی پارٹی کے بعض وفاقی عہدیداروں کا بھی برملا مظلومین
کی حمایت اور نااہل و کرپٹ رئیسانی حکومت کی کوتاہی کا برملا اظہار کرکے
آئینی طریقے صدارتی آرڈنینس کے زریعے گورنر راج کی حمایت کرنا ہے، ماسوائے
بلوچستان حکومت میں حصہ دار جی یو آئی ف و مولانہ فضل الرحمن کے جنہوں نے
اس فیصلے کے بعد اس کی مخالفت اور بیان بازی و احتجاجی تحریک شروع کرنے کا
اعلان کیا۔تجزیہ نگاروں کے مطابق جی یو آئی ف و مولانہ فضل الرحمن کو اس
بات کا غم ہے کہ چونسٹھ اراکین بلوچستان اسمبلی کے ماسوائے ایک رکن کے باقی
تمام اسمبلی ممبران یعنی تریسٹھ وزرا تھے، اور ان وزرا میں جی یو آئی ف و
مولانہ فضل الرحمن کے اراکین بھی نااہل و کرپٹ رئیسانی حکومت کی کرپشن
میں۔۔۔ پانچوں انگلیاں گھی میں۔۔۔اس ظلم و جبر میں برابر کے شریک تھے،
اسلئے مولانہ فضل الرحمن کو غم تو ہوگا۔ ناقدین کا جی یو آئی ف و مولانہ
فضل الرحمن سے سوال ہے کہ اب وزارتوں کے پیچھے واویلا و غم اور احتجاج کرنے
سے پہلے کیا جی یو آئی ف نے نااہل وزیر اعلی کے خلاف ان ہاؤس تبدیلی لانی
کی کوشش کی؟؟؟ یا پھر کیا مستونگ کوئٹہ و بلوچستان میں قتل ہونے والے
مظلوموں کے لئے کوئی صدائے احتجاج بلند کی؟؟؟ اگر نہیں تو جی یو آئی ف و
مولانہ فضل الرحمن سے بصد احترام عرض ہے کہ یہ نظام قدرت کا اصول ہے کہ
ظالم حکومت کا حصہ دار یا اس پر خاموش رہنا ظلم میں شریک ہونا ہے۔ اسلئے جی
یو آئی ف و مولانہ فضل الرحمن اپنے گریبانوں میں جھانک کر وزارتوں کے موج
مستیوں کے پیچھے رونے سے مظلوموں کے ہمدرد بن جائے
ظلم کے خلاف احتجاج ابتدا ہی سے دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف انداز میں
میں ہوتا رہتا ہے لیکن بعض احتجاج ایسے منفرد ہوتے ہیں، جس کی دنیا بھر میں
لوگ تقلید کرکے آئیڈیل بنا کر نقل اتارنا شروع کرتے ہیں اور وہ احتجاج کی
ایک علامت بن جاتے ہیں۔ ان منفرد احتجاجوں میں سے ایک عراق میں امریکی صدر
بش پر منتظر ذیدی کی طرف سے پھینکنے والا جوتا، جس کی بعد میں نہ صرف عراق
بلکہ پوری دنیا میں احتجاجی جوتے کو آئیڈیل بنا کر جوتا پھینکنے کے احتجاج
کی بارہا تکرار ہوئی۔ اسی طرح علمدار روڈ کوئٹہ کا دھرنا بھی پاکستان میں
احتجاج کی ایک علامت بن گیا، اور یوں آنے والے ادوار میں بھی علمدار روڈ
کوئٹہ دھرنے کی طرزپر منتظر ذیدی کے جوتا پھینکنے کی طرح بارہا تقلید اور
نقل اتاری جائیگی، لیکن ایک بات یاد دہانی کے قابل ہے کہ نہ ہی منتظر ذیدی
جیسا منفرد انداز میں کوئی پھر جوتا پھینک سکتا ہے اور اسی طرح علمدار روڈ
جیسے منظم پرامن اور استقامت سے بھرپور دھرنے کی نظیر ملنامشکل ہے۔ علمدار
روڈ دھرنے نے طاغوت شکن امام خمینی کی اس پیغام کی ایک بار پھر تائید
کروادی کہ دنیا ہمیں رونے والا قوم کہہ کر مذاق اڑاتی تھی، لیکن انہی
آنسوؤں و احتجاج سے ہم نے صدیوں سے برسراقتدار شاہی نظام کو نابود
کردیا۔۔۔۔ اسی طرح علمدار روڈ کوئٹہ کے مظلومیں اور دنیا بھر میں ان کے
حامی باضمیر افراد نے بھی مظلومیت آنسو اور احتجاج سے پانچ سال پر محیط
رئیسانی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ |