ہمارا ملک صلیبیوں اور ان کے
مقامی حواریوں کے نرغے میں ہے پہلے ۹۱۱ کے ایک خوف ناک ڈرامہ جس کا مصنوی
ماسٹر مائینذ ایک خبت الحواس شخص قرار دیا گیا۔ قربانی کے بکرے کے طور پر
راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا تھااورابھی تک اس پرمقدمہ بھی چل رہا ہے نہ
جانے کب تک ان کے اسکرپٹ کے مطابق چلتا رہے گا۔اس کے بعد بہت سے چھوٹے چھو
ٹے ڈراموں یعنی کوڑوں والی خاتون وغیرہ کے بعد حال ہی کا قابل ذکر ملالہ
یوسفزئی کا ڈرامہ تھا جسے سکندر اعظم سے بھی زیادہ پذیرائی ملی اور لوگ اسے
بُھول کر ملالہ یوسفزئی کو یاد رکھیں گے۔ اوراب مغرب سے واپس آنے والے اُن
کے پسندیدہ سیکولر اسلام کے عالمی مبلغ علامہ صاحب نے ملک میں وہ ریکارڈ
قائم کیا کہ اسے بھی کافی مد ت تک یاد رکھا جائے گا اتنی عالمی سازشیوں کے
باوجود یہ مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان جو اللہ کی طرف سے عطیہ ہے قائم
ودائم ہے اور انشاءاللہ قائم و دائم رہے گا چاہے دشمن کتنی ہی کوشش کرتے
رہیں۔ پاکستان میں بھی عجیب عجیب تجربے کئے جاتے ہیں نہ پارٹی الیکشن کمیشن
میں رجسٹرڈ ہے نہ کوئی سیاسی کام ہے اچانک ایک علامہ صاحب باہر سے تشریف
لاتے ہیں اور سیاست نہیں ریاست بچانے کا جذباتی نعرہ لگاتے ہیں مذہب کے نام
پر لوگوں کے جذبات کو اُبھارتے ہیں ڈیڑھ کروڑ کے خرچہ کے خود بلٹ پروف
فائیو اسٹار آسائشوں سے آراستہ کنٹینر میں بیٹھ کر طویل خطاب کرتے ہیں ایک
لاکھ سے بھی کم کے اجتماع کو بار بارچالیس لاکھ لوگوں کی حاضری کہنے والے
علامہ صاحب کو کیا کہا جائے ایسا سفید جھوٹ کسی عالم کو زیب نہیں دیتا۔ مصر
میں چالیس لاکھ افراد کو جمع کرنے والوں نے شہادتیں پیش کیں پندرہ پندرہ
سال کی جیلیں کاٹیں پوری دنیا میں تتر بتتر کر دئے گئے اور ساٹھ سال سے
زیادہ اسلام کے لیے جد وجہد کرتے ہوئے اخوان المسلمون ساٹھ سال کی ڈکٹیٹر
شخصی حکومت کے خلاف چالیس لاکھ افراد جمع کئے تھے جو دنیا میں ایک ریکارڈ
ہے۔ منہاج القران ایجوکیشن نٹ ورک کے اسکولوں، کالجوں ،مدرسوں اور
یونیورسٹی سے بلائے گئے مرد،و خواتین اور بچوں نے نہ قیدیں کاٹیں نہ
شہادتیں دی ہیں ہاں آپ کی اندھی عقےدت اور بار بار کی انہیں قسمیں دے کرا
یسا دیوانہ کیا کہ باوجو دسردیبارش وہ اپنی جگہ سے ہٹے نہیں بار بار وعدہ
کرتے رہے اور اسے نبایا بھی! لوگ کچھ بھی کہیں یہ ایک حقیقت ہے۔ ہم نے اپنے
اس سے قبل کالم میں کیا تھا ”قادری صاحب رک جاﺅ ابھی بھی وقت ہے“اس لیے کہ
جمہوریت کی گاڑی صحیح سمت چل رہی ہے اسے خوامخوا ہ ڈی ریل نہیں ہونا چاہیے
مگر انہوں نے رُوکنا کہاں تھا بقول کالم نگاروں کے جب تک ٹیکنوکریٹ کی لمبی
مدت کی حکومت کی بنیاد نہ رکھ دی جائے اور اس حکومت کا اسکرپٹ تیار کرنے
والے اشارہ نہ کرتے بہر حال لوگوں کے ذہن تیار کرنے کے بعد وہ اشارہ مل گیا
غیر آئینی مطالبات کے بعد علامہ صاحب نے ایک محمل معاہدے کے پر دھرنے کو
ختم کر دیاگیا اربوں روپوں کے خرچے کے باوجود نہ انقلاب آیا نہ عوام کو کچھ
ملا صرف مشہوری ہوئی کہاوت کے مطابق کھایا نہ پیا گلاس توڑا والامعاملہ ہے
اس معاہدے میں ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت اپوزیشن تک شریک نہیں بلکہ ساری
سیاسی پارٹیاںمخالف ہیں یہ دو خاموش اتحادیوں میں معاہدہ ہے جو پہلے معاہدے
کی طرح بقول اس معاہدے کے روح رواں صدر محترم کی حکم سے ہوا اس سے پہلے
معاہدے پر ان ہی کا کہنا کہ معاہدہ کوئی حدیث تو نہیں ہوتانہ جانے اس معمل
معاہدے کا کیا بنتا ہے جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق ثناءاللہ صاحب کہہ رہے
ہیں کہ عبد ا لشکور کے نام سے کنیڈا میں شہریت حاصل کی ۔سنیٹر پرویز رشید
نے نادرہ سے مطالبہ کیا ہے جعل سازی پر علامہ کا شناختی کارڈبلاک کر دیا
جائے ویسے کینڈین کی شہریت کی خلاف ورزی پر پانچ فروری کو کنیڈین حکومت نے
بلایا ہے ۔کوئی کہہ رہا ہے اربوں روپے کہاں سے آئے،بار بار لوگوں کو
اُکسانے کے باوجودلوگ گھروں سے نکل کر نہیں ٓئے اور چالیس لاکھ کا ٹارگٹ
پورا نہیں ہوا، کسی نے کہا لانگ مارچ نہیں ڈھونگ مارچ تھا ادھر شیخ الاسلام
کے نام بھی تنقید کی گئی کہ خود ساختہ ہے ۔جامعہ الا اظہر مصر نے فراڈیہ
قرار دیا ہے۔ فوج کے ایک ریٹائرڈسپہ سالارنے کہا اور صحیح کہا کہ سات سال
کی جلاوطنی کے دوران مغرب میں سیکولر اسلام کی تبلیغ کرتے رہے جس وجہ سے
انہیں مغرب میں پذیرائی ملی انہوں نے ہی ان کو پاکستان بھیجا۔ اس میں کیا
شک ہے وہ عیسایوں کے مذہبی رہنماءپوپ سے اٹلی میں ملے سوشل میڈیا پر ان کے
د ونوں گھٹنے زمین پر ٹیکے فوٹو لگی ہوئی ہے ایک تقریب میں بلیک واٹر ان کی
حفاظت کرتے ہوئی تصویرلگی ہے، سی آ ئی اے سے ملاقات کی، بھارت میں حیدر
آباد کے وزیر اعلی مودی جس نے ہزاروں مسلمانوں کو بے گناہ شہید کیااس کے
مہمان رہے اور خاموش بھی نہیں رہے مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے ان
کوخاموش رہنے کی نصیحت کی۔ کیا یہ سب پاکستان کے خیر خواہ ہیں یا صلیبیوں
کے خیر خواہ ہیں۔ یہ وہی بھارت ہے جس کی دہشت گرد پارٹیوں کا بھانڈا ان کے
وزیر داخلہ نے پھاڑا ہے جو دہشت گردی کے کیمپ چلا رہے ہیں مسلمانوں پر ظلم
کر رہے ہیں سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد، درگاہ شریف ،مالے گاﺅںدھماکوں میں
ملوث ہیں۔ پاکستان میں ریاست کو بچانے والے خود کنیڈ ا پناہ گزیں ہو گئے
تھے اور کہا تھامجھے طالبان،لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سے خطرہ ہے اب سات
سال بعد کیا خطرہ ٹل گیا ہے معاہدے سے چند لمحے پہلے جو یزید تھے ان سے
دوستی ہو گئی بار بار حسین ؓ اور یزید کی جنگ کا ذکر کیا پھر صلح کر لیحسین
ؓ نے تو اپنے نا نا کے دین کو بچانے کے لیے جان دے دی تھی صلح نہیں کی تھی۔۔
ذرائع کہہ رہے ہیں جس بجلی گیس سی این جی پانی کے لےے مارچ دھرنا کیاتھا
کیا وہ مل گئیںبار بار قسمیں کھانے اور کھلوانے کے باوجودکچھ حاصل کیے بغیر
واپس آگئے علامہ پر قاتلانہ حملے کے مقدمے پر 1990 میں لاہور ہائی کورٹ نے
فیصلہ دیا ڈاکٹر علامہ قادری صاحب ذاتی، سیاسی اور مفاد کے لےے کسی بھی
استحصال کر سکتے ہیں۔ کسی نے ناگہانی علامہ کہا،کسی نے ٹوپی ڈرامہ کہا،کسی
نے کہا پھر انقلاب نہ آ سکا،کسی نے کہا یہ سب زرداری کا ڈرامہ ہے ،کسی نے
کہا انقلاب یا ڈرامہ،سفرِانقلاب سے ڈیل چوک تک،مداری مارچ کی رسوائی اور
پسپائی، کینیڈا ٹو کینٹین ،جنگ اور ایکپریس کے نہایت ہی سینئر کالم نگار نے
کہا ملفوظات شیخ الاسلام رحمان ملک بقول علامہ( شیطان ملک) و زیر داخلہ کہہ
رہے ہیں لانگ مارچ عالمی سازش کا حصہ تھا، پیپلز پارٹی کے اراکین قومی
اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں کہاکہ معاہدہ
کاغذ کا ٹکڑا ہے اوراعتزاز احسن نے کہا آئین کے اندر ایسی ترمیم کی گنجائش
موجود نہیں اس کو آئینی تحفظ نہیں دیا جا سکتا نگران وزیر اعظم بنانے کا حق
قائد حزب اختلاف اور موجودہ وزیر اعظم کو ہے۔بات یہ ہے علامہ صاحب سیاست سے
توبہ کر کے ملک سے باہر چلے گئے تھے اب بھی فرما رہے ہیں سیاست میں حصہ
نہیں لینا ہے سیاست نہیں کرنی ہے تو لگے لگائے سیاسی نظام کو کس کے کہنے پر
ڈسٹرب کر رہے ہیں کیا زبردستی کے انقلاب دنیا میں کبھی بھی کامیاب ہوئے ہیں
کیا جب آئینی راستہ موجود ہے توزدورزبردستی سے نظام حکومت کو بدلنا اسلام
میں جائز ہے؟ علامہ صاحب پر اس کاجواب واجب ہے اگر مولانا جیسے دھرنے سے
کام بن جاتے تو سیاست دان لوگوں کی سیاسی تربیت نہ کرتے، جیلیں نہ کاٹتے،
ملک بدر نہ کئے جاتے،قتل نہ کیے جاتے، مخالف حکومتوں کی طرف سے مقدمات کا
سامنا نہ کرتے بس چند لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لے جاتے اور حکومت پر قبضہ
کر لیتے جو پاکستان ہر پارٹی آسانی سے کر سکتی ہے۔ علامہ صاحب فرما رہے ہیں
اگر معاہدہ نہ ہوتا تو ہم حکومت پر قبضہ کر لیتے۔ اب بھی ہماری علامہ صاحب
سے گزارش ہے رک جائیں ابھی بھی وقت ہے ۔ |