جس دیس میں گنگا الٹی بہتی ہے

”بی جے پی، آر ایس ایس کے دہشت گردوں کےخلاف سیاسی جماعتیں اٹھ کھڑی ہوں، بی جے پی اور آر این سی جیسی دہشت گردی تنظیمیں اقدار کے لئے کمزور اقلیتوں کو استعمال کرتی ہیں“۔ یہ الفاظ میرے نہیں پاکستان میں بھی شہرت رکھنے والے بھارت کے سینئر سیاسی رہنماءاور آر جے ڈی کے صدر لالو پرساد یادیو کے ہیں جنہوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس کیدہشت گرد سرگرمیوں بارے وزیر داخلہ سوشیل کمار شندے کے بیان کو حقائق پر مبنی اور درست قرار دیا ہے۔

حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں ہندو شدت پسند تنظیموں ( ہندو مہا سبھا ، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ ، بجرنگ دل وغیرہ ) نے فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مسلمانانِ ہند کو صفحہءہستی سے مٹانے کےلئے جبکہ کانگریس کی گاندھی ، جواہر لال نہرو اور سردارپٹیل کی ہندو سیاسی قیادت نے برطانوی حکومتِ ہند کی پشت پناہی سے متحدہ ہندوستان کے نام پر بانیءپاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کا راستہ روکنے کےلئے کیا کچھ نہیں کیا تھا ۔ فی الحقیقت جنوبی ایشیا کی تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتی ہوئی ہندو شدت پسندی اِس بات کی گواہ ہے کہ سماجی محاذ پر ہندوستان کو بھارت ماتا کی سرزمین قرار دے کرمسلم قومیت کو ہندو ازم میں جذب کرنے اور اسلامی تہذیب و تمدن کو ہندوستان میں نیست و نابود کرنے کےلئے ہندو انتہا پسند تنظیمیں ایک طویل مدت سے شیطانی حربے استعمال کرتی آرہی ہیں جبکہ انتہا پسند ہندو سیاسی قیادت پاکستان دشمنی میں ہمیشہ ہی پیش پیش رہی ہے ۔ ایسے ہی بیشتر حقائق کی تفصیل مصنف کے کالموں میں بدرجہ اُتم جھلکتی نظر آتی ہے جنہیں اب اُنہوں نے ” جس دیس میں گنگا بہتی ہے “ کے نام سے کتابی شکل دے دی ہے۔ جو کچھ راجہ جاوید علی بھٹی کہنا چاہتے ہیں ، اُس کی ایک جھلک لندن میں 13 دسمبر 1946 میں امریکن براڈ کاسٹنگ کمپنی کو انٹرویو دیتے ہوئے اہلِ امریکہ سے قائداعظم کی گفتگو میں بھی نظر آتی ہے جب اُنہوں نے امریکیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ " گذشتہ چند ماہ میں ہندوستان المناک سانحوں میں مبتلا ہو چکا ہے ، صرف صوبہ بہار میں ہی ہندوﺅں کے منظم گروہوں نے تیس ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے اور پندرہ ہزار مسلمان تباہ و برباد ہو چکے ہیں ، میں اِس مختصر سی گفتگو میں اِن واقعات کی تفصیلات میں تو نہیں جا سکتا لیکن پورے غور و فکر سے اِسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہندوستا ن کو دو ریاستوں ، پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کر دیا جائے" ۔

راجہ جاوید علی بھٹی جب بھارت کا اصل روپ دکھانے کی بات کرتے ہیں تو اُن کے ذہن میں تقسیم ہند کے تاریخی حوالے سے ہندو شدت پسندوں کی جانب سے قیام پاکستان کی راہ میں کانٹے بکھیرنے کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی دیدہ دانستہ ریشہ دوانیوں سے بھی مراد ہوتی ہے چنانچہ مصنف بھی جانتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قائداعظم کی بے لوث اور انتھک جدوجہد کے بعد جب مسلمانانِ ہند حصول پاکستان کےلئے قائداعظم کی قیادت میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے تو ہندو انتہا پسند تنظیموں اور کانگریسی ہندو سیاسی قیادت نے بہ اَمرِمجبوری پاکستان کی آزادی کے تصور کو تسلیم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تب بھی ہندو ذہن میں یہی بات تھی کہ پاکستان کی آزادی محض چند روزہ بات ہوگی کیونکہ پاکستان جن مسلم اکثریتی علاقوں میں بننے جارہا ہے وہ نہ صرف کثرت سے غربت اور ہندو بنئے کے قرض و بیاج میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کے علاقے ہیں بلکہ یہ علاقے اقتصادی حوالے سے بھی اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتے لہذا مستقبل کے پاکستان کو اقتصادی مسائل میں دھکیلنے اور حالات کو بد سے بدتر بنانے کےلئے قیام پاکستان سے قبل ہی ہندو دہشت گرد تنظیموں نے ہندوستان کے طول و عرض میں فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا اور نہ صرف تقسیم ہند کے فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لاکھوں لٹے پٹے مسلمانوں کو اپنی جانیں بچانے کےلئے پاکستان جانے پر مجبور کر دیا گیا بلکہ پاکستانی علاقوں میں مقیم بیشتر ہندو سرمایہ داروں کو اپنا سرمایہ ہندوستان منتقل کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی رہی سہی کسر لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے اشارے پر باﺅنڈری کمیشن ایوارڈ نے مسلمان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب اور بنگال کی تقسیم میں بندر بانٹ سے پوری کر دی۔ پنجاب کی بندر بانٹ میں گورداسپور کا مسلم اکثریتی علاقہ بھارت کے حوالے کیا گیا جس کے باعث جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست میں بھارتی مداخلت ممکن ہوئی اور نوزائیدہ پاکستانی فوج پر جموں و کشمیر میں جنگ مسلط کر دی گئی۔ بھارتی فوج نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کرکے لاکھوں کشمیریوں کو پاکستان میں دھکیل دیا ۔ پیش نظر مقصد ایک ہی تھا کہ بالآخر اقتصادی بدحالی سے تنگ آ کر پاکستان خود ہی گھٹنے ٹیک کر پھر سے اکھنڈ بھارت کا حصہ بن جائے ۔ اِس اَمر کی تائید 3 جون 1947ءمیںتقسیم ہند کا پلان منظور کرنے کے باوجود آل انڈیا ریڈیو پر جواہر لال نہرو کے خطاب سے بھی ہوتی ہے جس میں اُنہوں نے تقسیم ہند کو ایک عارضی اقدام قرار دیا اور تقریباً اِسی نوعیت کی قرارداد کانگریس کی مجلس عاملہ نے تقسیم سے متعلق لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے برطانوی فارمولے کو تسلیم کرتے ہوئے منظور کی۔ اِس اَمر کی تائید بھارتی کانگریس پارٹی کے ایک سابق صدر مولانا ابوالکلام آزاد کی لکھی ہوئی آزادیءہند سے متعلق کتاب کے مندرجات سے بھی ہوتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”سردار پٹیل اور دوسرے کانگریسی لیڈروں کا یہی خیال تھا کہ پاکستان کے وسائل اور دیگر ذرائع اتنے محدود ہیں کہ اُس کےلئے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ناممکنات میں سے ہے ۔ اِن وسائل اور دیگر ذرائع کو مزید مفلوج کرنے کےلئے ہندو سرمایہ کار پاکستان سے (افغانستان و بھارت کی جانب) ہجرت کر گئے جبکہ پاکستانی عوام کے حوصلے مفلوج کرنے کےلئے مسلم کش فسادات کا ہیبت ناک سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ پاکستان جلد از جلد ختم ہو جائے “۔ مندرجہ بالا تناظر میں قائداعظم کا یقین محکم یہی تھا کہ پاکستان بن چکا ہے اور اب اِسے کسی طرح بھی ختم نہیں کیا جا سکتا ۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 14 Articles with 9412 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.