افغانستان میں جنگی مشن کے
بعد2014ءمیں امریکہ سمیت زیادہ تر غیر ملکی افواج کو نکالنے میں پیش رفت
جاری ہیں ۔تاہم اس سلسلے میں امریکہ کی جانب سے موثر حکمت عملی اور بیان
سامنے نہیں آیا ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے ڈپٹی مشیربین روٹس کے مطابق
امریکہ سال دو ہزار چودہ میں جنگی مشن کے خاتمہ کی بعد بقایا فوج کےلئے "زیرو
آپشن"پر غور وفکر کر رہاہے۔ڈپٹی مشیر کے اس بیان سے واضح ہے کہ امریکہ
تاحال افواج کی واپسی کے حوالے سے مربوط پلان کو آشکارہ نہیں کرنا
چاہتا۔جبکہ افغان صدر حامد کرزئی یہ ضرور چاہیں گے کہ امریکہ افغان فوج کے
مستقبل کے حوالے سے بھاری فوجی ساز و سامان،جدیدفضائیہ اور طبی امداد کے
بارے میں امریکہ افغانستان کو تنہا نہیںچھوڑے۔ افغانستان کے پاس اپنا فوجی
ساز وسامان موجود نہیں ہے اسلئے امریکہ کے جانے کے بعد طالبان سمیت اگر
دوسرے گروپ افغان صدارتی انتخابات کو تسلیم نہیں کرتے یا سودیت افواج کے
انخلا ء کی طرح خانہ جنگی کی صورتحال پیش آتی ہے تو اس سے نبر آزما ہونے
کےلئے افغانستان استعداد کار نہیں رکھتا اور ایسے غیر ملکی افواج کے ساز و
سامان پر تکیہ کرنا ہوگا ۔ لیکن اس سلسلے میں یہ خدشات بھی موجود ہونگے کہ
امریکہ سمیت دیگر غیر ممالک اپنی ٹیکنالوجی افغانستان میںمنتقل کرنا چائیں
گے یا نہیں ۔ جبکہ امریکہ اب تک 2011ءتک120ارب ڈالر افغانستان میں خرچ
کرچکا ہے تو اس صورت میں بھاری سرمایہ کاری کے بعد امریکہ کا خود کو مطمئن
کئے بغیر افغانستان کی سرز میں سے جانا آسان نظر نہیں آتا جس کا اظہار
امریکی سینٹ کے دو دیمو کریٹ ارکان کی جانب سے اپیل میں کیا جاچکا ہے کہ
امریکہ تین ہزار سے نو ہزار کے قریب امریکہ فوجی رکھنے پر دوبارہ غور کرے۔
امریکہ فوج کے سطحی اعلان کے بعد افغان فورس کی تعداد تین لاکھ 52ہزار سے
کم کرکے 2لاکھ 30ہزار کرنے کے منصوبے بھی زیرغور ہے۔تاہم اس بات کا امکان
ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکہ رہ جانے والی فوج کے حوالے سے غور و خوض کرے
گا کہ کیا یہ افواج طالبان کے ساتھ لڑیں گی یا تمام توجہ القاعدہ سے لڑنے
پر مرکوز ہوگی۔دوسری جانب پاکستان، نیٹو افواج کے کردار اور متعدد بار
پاکستانی حدود کی خلاف ورزیوں سمیت پاک افواج پر حملوں کی حوالے سے
شدیدتحفظات رکھتا ہے۔جبکہ افغان فوج کے استعداد کار کے حوالے سے بھی
پاکستان میں شبہات پائے جاتے ہیں کہ افغان فوج میں اتنی پیشہ وارانہ صلاحیت
موجود ہے کہ وہ القاعدہ ، طالبان اور غیر ملکی دہشت گردوں کے نیٹ ورک
کےخلاف کوئی کاروائی کرسکے؟ ۔ اگر ایک جانب امریکہ اور افغانستان ، نیٹو
افواج کی واپسی کے حوالے سے منصوبے بنا رہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان
نمایاں صورتحال نہ ہونے کے سبب شش وپنچ کا شکار ہے اور ایسے افغان فوج کی
کارکردگی کے حوالے سے تحفظات ہیں۔جس کی بنیادی وجہ افغانستان کے راستے
پاکستان آنےوالے خود کش حملہ آوروں کی کثیر تعداد ، ملکی سلامتی سے متعلق
اداروں پر غیر ملکیوں کے حملے اور سرحدات کو افغانستان کی جانب سے سیل نہ
کئے جانے میں غیر سنجیدگی کے علاوہ خود افغانستان کی صورتحال ہے پاکستانی
اہداف پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے اور افغان نیشنل سیکورٹی فورس
کے موثر ہونے کے حوالے سے پاکستان کے خدشات مناسب اور حل طلب ہیں۔لیکن اس
سلسلے میں افغان حلقے پاکستان کے اندیشوں کو مسترد کرتے ہیں کہ غیر ملکی
افواج کے بعد افغانستان میں کوئی افرا تفری نہیں پھیلے گی جیسے1990ءکی
دہائی میں سودےت فوجوں کی واپسی کے بعد پیدا ہوئی تھی۔افغانستان کے نائب
وزیر برائے تجارت ،مزمل شنواری کا کہنا ہے کہ "افغانستان نے معیشت ،سیاست ،سیکورٹی
اور انسانی حقوق کے شعبوں میں خاصی پیشرفت کی ہے"۔ان کا مزید کہنا تھا
کہ"ہم بہت پُر امید ہیں کہ دس سال پہلے کے مقابلے میں ، ہمارے وسائل خاص
طور پر انسانی وسائل میں خاصی ترقی ہوئی ہے،ہماری فورسز کا نطام بہتر ہوگیا
ہے۔افغانستان میںاقتصادی ترقی ہو رہی ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ افغانستان ترقی
کرے گا ۔ میں نہیں سمجھتا کہ مستقبل میں کوئی مسئلہ پیدا ہوگا ۔ 2014ءکے
بعد خوشحالی آئے گی۔"لیکن اس کے باوجود کہ افغان انتظامیہ پر امید ہے اور
اچھی توقعات سوچتی ہے ،غیر جانبدار مبصرین اس حوالے سے افغانستان کے استدال
سے متفق نہیں ہیں کہ 2014ءکے بعد افغانستان ملکی بغاوت اوردیگرمسائل سے
بخیر خوبی نبر آزما ہوسکے گا۔ جبکہ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں جدید
ہتھیاروں کے ساتھ غیر ملکی فوجیوں کی بڑی تعداد موجود ہونے کے باوجود
افغانستان میں استحکام نہیں ہے۔اسی عنصر کے تحت افغان مہاجرین کی واپسی کی
تاریخ میں بھی مزید چھ ماہ کی توسیع کی جا چکی ہے۔غیر جانبدار مبصرین کی
طرح امریکہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ پائدار امن کے لئے انھیں طالبان سمیت دیگر
گروپوں سے امن مذاکرات کرناہونگے ۔ اور ایک ایسا من سمجھوتہ کرنا ہوگا جو
تمام فریقین کے لئے قابل قبول ہو۔افغانستان میں امریکہ کے سفیر ، جیمز
کنننگھم بھی اظہار کرچکے ہیں کہ" امن سمجھوتے کی اشد ضرورت ہے جیسے علاقے
کے دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل ہو"۔ان کا کہنا تھا کہ" پاکستان کے ساتھ
بلکہ علاقے کے دوسرے ممالک کے ساتھ ، جو درست سمت میں ، حقیقی معنوں میں
امن کے عمل کی حمایت سے ہی افغانستان میں امن اور استحکام آئے گا۔"گو کہ
پاکستان کی جانب افغانستان میں امن کےلئے کی جانے والی پیش رفت تاحال موثر
نظر نہیں آرہی ، حالاں کہ پاکستان نے خیرسگالی کے طور طالبان کے دو درجن سے
زیادہ رہنماﺅں کو رہا کیا ہے۔اور پاکستان اس بات کا اعلان کرچکا ہے کہ تمام
طالبان رہنما ءرہا کر دئےے جائیں گے۔ جس کا امریکہ اور افغانستان نے خطے
میں امن کےلئے اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مزاحمت کاروںکو
مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد ملے گی۔پاکستان ،اپنی سرزمین میں بیرونی
مداخلت کاروں اور افغان جنگ سے کافی متاثر ہوچکا ہے اس لئے وہ افغانستان کے
مسئلے کا منطقی حل چاہتا ہے تاکہ خطے میں مستقل وپائدار امن آسکے۔پاکستان
کی کوششیں ، ماضی کے مقابلے اس بار نہاےت ذمے دارانہ اور متاثر کن ہے کہ
پورے ملک میں بد امنی اور دہشت گرد کاروائیوں کے باوجود پاکستان سنجیدگی کے
ساتھ افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ |