1917 کا انقلابِ روس اس دھرتی کا
انتہائی حیرت انگیز واقعہ تھا جس نے زارِ روس جیسے متکبر اور سفاک حکمران
کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا تھا ۔کارل مارکس کی فکر سے متاثر ہونے والے لینن
نے جس جرات اور بے جگری سے شہنشائیت کے جو رو جبر کو برداشت کیا تھا اس سے
بڑے بڑے سورماﺅ ں کو پسینہ آجاتا تھا۔ لینن اور اس کے رفقائے کار کی جدو
جہد آخرِ کار رنگ لائی اور ایک سوشلسٹ روس دنیا کے نقشے پر ابھرا جس کی
دیکھا دیکھی ساری دنیا سوشلزم کے نعروں کی زد میں آگئی۔ایک زمانے میں
سوشلسٹ ہونا بھی عظمت کی علامت گردانا جاتا تھا ۔پوری دنیا میں مزدوروں کے
حقوق کی خاطر تحریکیں منظم ہوئیں اور پاکستان بھی اس سے محفو ظ نہ رہ سکا۔
ذولفقار علی بھٹو نے سوشلزم ہماری معیشت ہے کا نعرہ بلند کر کے سارے محروم
طبقات کی محبتیں سمیٹ لیں۔ وہ سوشلزم کو اپنی پوری جزیات کے ساتھ تو نافذ
نہ کر سکے لیکن عوام کے دلوں میں پیدا ہونے والے جذبات کو سمجھنے اور انھیں
ایک بہتر مستقبل دینے کےلئے وہ ہمیشہ نعرہ زن رہے۔ سوشلزم کے نعرے نے انھیں
جو شہرت اور مقبولیت عطا کی وہ آج بھی قائم و دائم ہے ۔انقلابِ روس کے بعد
زارِ روس کے محل اور اس کے سارے خزانوں کا وارث لینن ٹھہرا ۔اب اسے ہی اس
بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ وہ زارِ روس کی طرح عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا
چاہتا ہے یا پھر ایک سچے انقلابی ہونے کا ثبوت دیتا ہے ۔ لینن کی روح میں
چونکہ ایک سچے انقلابی کا بسیرا تھا لہذا لینن نے زارِ روس کے محلوں میں
رہنے کی بجائے مزدوروں کے لئے بنائے گئے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے کا
فیصلہ کر کے تاریخ کے دامن کو ایک بالغ نظر انقلابی کی انسانی محبت کے انمٹ
جذبوں سے بھر دیا۔دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا سر براہ،زارِ روس کی بے پناہ
دولت کا وارث، انقلابیوں کی آ ٓنکھ کا تاارا ،جس کے ایک اشارے کی خاطر دنیا
بھر کے انقلابی اس کے چاروں طرف حلقہ بنائے کھڑا ہونے اپنے لئے باعثِ
افتخار سمجھتے تھے لیکن لینن نے اپنے لئے چنا بھی تو ایک مزدور کی حیثیت کے
مطابق رہنے کا گھر۔اسے نہ تو خز انوں کی کمی تھی اور نہ ہی دولت کی کمی تھی
۔ اس کے پاس مکمل اختیارات بھی تھے اور وہ کسی کے سامنے جواب دہ بھی نہیں
تھا لیکن اس نے پھر بھی سب کچھ عوام کی فلا ح و بہبود کی نذ ر کرنے کا
فیصلہ کر کے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ
ہمیشہ آدھی روٹی کھایا کرتا تھا، کسی نے اس کی وجہ پوچھی کہ تم پوری روٹی
کیوں نہیں کھاتے تو اس کا جواب تھا کہ جب مجھے یقین ہو جائے گا کہ میرے ملک
میں سب کو پوری روٹی میسر ہے تو اس دن میں بھی پوری روٹی ضرور کھاﺅں گا۔ وہ
ملک جہاں پر سرمایہ داروں،نوابوں اور جاگیر د اروں کو چن چن کر ختم کیا گیا
تھا ایک خاص مدت گزرنے کے بعد وہی ملک پھر سرمایہ داروں کی گرفت میں ہے ۔لوگ
پھر اسی جبر کا شکار ہیں جس سے انھیں 1917 میں لینن نے نجات دلائی گئی تھی
۔وہ انقلاب جس کا منبہ عوام کی طاقت تھی اب دولت کی طاقت کا اسیر ہوچکا ہے
۔ ۔
قیامِ پاکستان کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ بھی نہیں تھا کہ یہاں پر اسلام
کے عادلانہ نظام کو رو بعمل لایا جا ئے اور ا س نشاةِ ثانیہ کو ھاصل کیا
جائے جو کبھی مسلمانوں کا طرہِ امتیاز ہوا کرتا تھا ۔لیکن اقبال و قائد کے
اسی پاکستان کو مفاد پرستوں نے اس پیغام سے اتنا دور کر دیا ہے کہ اب وہ
پیغام ایک خواب و خیال نظر آتا ہے۔ بیسویں صدی کی سب سے بڑی جمہوریت پسند
شخصیت قائدِ اعظم محمد علی جناح کے ملک پر فوجی جنتا کے شب خونوں نے اسے
لہو لہان کر کے اس کے تشخص کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔غیر جمہوری
قو تیں اور ان کے پر وردہ حواری اسی پاکستان کے مالک بن بیٹھے جو جمہوری
عمل کی سب سے بڑی اور خوبصورت علامت ہے۔آج کا پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس
میں شدت پسندی نے اس کا پر امن چہرہ بگاڑ دیاہے اور اسے اقوامِ عالم میں
ایک ایسے مقام پر کھڑا کر دیا ہے جہاں پر اس کی انتہا پسندی اس کی رسوائی
کا باعث بن رہی ہے۔ آمرانہ قوتوں کی پشت پناہی نے ایک ایسا کلچر متعارف
کروایا ہے جس کی رو سے پاکستان کا شمار ایسے مماک میں ہو تا ہے جہاں پر ایک
مخصوص طبقے کی حکمرانی ہے اور اپنی اس حکمرانی میں وہ عوام کی شرکت کو کسی
بھی حا ل میں برداشت کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں ۔جمہوریت کے نام پر
وہ انھیں بلیک میل بھی کرتے ہیں اور ان کا استحصال بھی کرتے ہیں لیکن انھیں
حقِ حکمرانی تفویض کرنے پر تیار نہیں ہو تے۔پاکستان کے سارے بڑے بڑے خا
ندانوں نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں ۔ سیاسی دنگل انہی کے دمیان ہو تا
ہے اور ایوانوں میں وہی عوام کے نمائندے بنتے ہیں ۔منتخب ہونے کے بعد عوام
کی جو وہ درگت بناتے ہیں وہ پھر بیان سے باہر ہے۔ان کا مقصد اسمبلیوں میں
عوام کی خدمت کرنا نہیں ہو تا بلکہ وہاں جا کر مال و دولت بنا نا ہو تا ہے
لہذا وہ دولت سے اپنی جیبیں بھرنا شروع کر دیتے ہیں اور عوام منہ دیکھتے رہ
جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان دنیا میں کرپشن کے لحاظ سے دنیا کا
تیتیسواں (۳۳واں) ملک ہے ہر سو کرپشن اور لوٹ مار کا راج ہے اور اس میں کسی
کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کی بنیادیں جن
اعلی و ارفع اصولوں پر تعمیر ہو نی ہوتی ہیں ان بنیادیں کو ایک زمانے سے ہم
نے خود اپنے ہاتھوں سے تباہ و برباد کر دیا ہوا ہے ۔ اب جس معاشرے میں ہم
زندہ ہیں اس کی بنیادیں ما ل و دولت اور جاہ و ہشم پر استوار ہو چکی ہیں
لہذا ہر شخص حصولِ دولت کا پجاری بنا ہوا ہے اور حصولِ دولت میں جائز ونا
جا ئز کی تمیز اٹھ گئی ہے ۔ تاریخ کا یہ اٹل فیصلہ ہے جو معاشرہ بھی مفادِ
عاجلہ کی قبا حتوں کا پیر و کار بنتا ہے اسے جلد یا بدیر تباہ و برباد ہو
نا ہوتا ہے۔ اس کے مٹ جا نے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہو تا لیکن آنکھوں پر
حرص و ہو س کی پٹی اس انجام کو دیکھنے سے قاصر کر دیتی ہے ۔تاریخ کے اوراق
اس طرح کی قوموں کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں جس میں عدل و ا نصاف کی عدم
موجودگی نے انھیں صفحہِ ہستی سے حر فِ غلط کی طرح مٹا دیا تھا لیکن وہ اپنی
عیاشیوں اور غیر انسانی رویوں کی وجہ سے اس تباہی کو دیکھنے سے محروم تھے ۔اب
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک با عزت اور ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے اپنا
مقام بنائیں اور دنیا ہمیں عز ت و وقار سے نوازے تو ہمیں اس فرسودہ نظام سے
چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا جس نے امیر و غریب کے درمیان ایک خلیج پیدا کر کے
متوسط طبقے کو اقتدار کے ایوانوں سے بہت دور کر دیا ہے۔ علامہ ڈاکٹر
طاہرالقادری نے اس غصب شدہ حق کو عوام کو لٹانے کی خاطر لانگ مارچ اور
دھرنا دیا تاکہ عوامی حاکمیت کا خوا ب شرمندہِ تعبیر ہو سکے۔ پاکستان کے
جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ ذہن کی حا مل شخصیتیں اور خاندان انھیں ایسا
کرنے کا کبھی بھی مو قع فراہم نہیں کریں گی کیونکہ اس سے ان کے اپنے مفادات
کو سخت زدپہنچے گی جو انھیں کسی بھی صورت میں گوارا نہیں ہو گی ۔لیکن دھرنے
کے شرکاءنے جس استقامت کا مظا ہرہ کیا ہے اس سے تبدیلی کی خو شبو کو محسوس
کیا جا سکتا ہے ۔۔۔
سب چور ہیں قاتل ،میرے اطراف میں لیکن۔۔کب تک میں بھلا ،خوف کے محشر میں
رہوں گا
واعظ تو ڈراتا ہے، میری موت سے مجھ کو۔۔۔۔مقتل میں مجھے دیکھنا، کیسے میں
سجوں گا
30 نومبر 1967 کا دن تاریخِ پاکستان کا ایک انتہائی یاد گار دن ہے کیونکہ
اس دن قائدِ عوام ذولفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی
تھی اور روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا تھا۔عوام کے عزتِ نفس اور ان
کے مساویانہ حقوق کی بات کی تھی۔اس نے اعلان کر دیا تھا کہ طاقت کا سر چشمہ
عوام ہیں لہذا ان کی رائے مرضی اور منشاءکے بغیر ریاست کوئی بھی فیصلہ کرنے
کی اتھارٹی نہیں رکھتی۔صدیوں کے استحصالی نظام کے اندر یہ بالکل انوکھی اور
منفرد آواز تھی جس نے محروموں،کمزوروں،محکوموں،بے کسوں اور خاک نشینوں کو
جینے کی نئی راہ دکھائی تھی۔اس آواز میں اتنی دلکشی تھی اتنی رعنائی تھی کہ
پلک جھپکنے میں اس آواز نے ہر انسان کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا ۔قیامِ
پاکستان کے بعد ضرورت اس امر کی تھی کہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کو ایک دفعہ
پھر عوام کی عدالت میں پیش کیا جاتا اور ان کی ر ضا مندی اور حمائت سے اسے
رو بہ عمل لایا جاتا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد مسلم لیگ کی
ساری قیادت ذاتی مفاد ات کی اسیر ہو کر عوام سے کٹ چکی تھی اور محلاتی
سازشوں کا شکار ہو کر حکومتی معاملات سر انجام دے رہی تھی۔اسے عوامی فلا ح
و بہبود او ر ملکی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیںتھی ۔ان کا وا حد مقصد اپنے
اقتدار کو قائم رکھنا رہ گیا تھا جس سے عوام میں مایوسی اور بد دلی پھیل
رہی تھی۔ان حا لات میں قائدِ عوام ذولفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی
کی بنیاد رکھ کر انھیں نئے انقلاب سے روشناس کروا یاتھا۔1970 کے انتخابات
پی پی پی کی مقبولیت کا نقطہ عروج تھے کیونکہ اس میں متوسط طبقے کو سامنے
لایا گیا تھا۔ایسے ایسے لوگ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے تھے جھنیں ان کے
علاقے کے چوہدری اپنے برابر بٹھانا بھی اپنی توہین سمجھتے تھے ۔چھ سالوں تک
پاکستان کے گلی کوچے عوامی اندازِ سیاست سے جگمگاتے رہے۔ہر سو عوام کا راج
تھا اور عوامی حقو ق کا شور تھا۔جیالوں کی ایک ایسی جماعت تیار ہو گئی تھی
جو عوامی اندازِ سیاست اور جمہوری قدروں کی امین بن کر ابھری تھی لیکن وقت
کے بے رحم ہاتھوں نے اس پروگرام کے حاملین کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جو
تاریخ میں ہر انقلاب کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔عوامی حقوق کا نعرہ بلند کرنے
والی اس جماعت پر بھی جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور نوابوں نے قبضہ کر لیا
اور روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دھیرے ے دھیرے پیچھے ہٹتا چلا گیا۔اس میں
کوئی شک نہیں ہے کہ پی پی پی اب بھی پاکستان کی سب سے زیادہ ترقی پسند اور
ماڈرن جماعت ہے لیکن ذولفقار علی بھٹو کی رحلت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی
شہادت کے بعد اس کے عوامی اندازِ سیاست پر ضعف کے آثار طاری ہیں۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ یہ جماعت ایک دفعہ پھر اسی اندازِ سیاست کا علم لے کر باہر
نکلے جس کی راہ ذولفقار علی بھٹو نے دکھائی تھی ۔پی پی پی کے پاس وقت بہت
کم ہے کیونکہ اس کے وزرا اور حکومتی اہلکار وں کی اکثریت عوام سے دوری
اختیار کر کے پی پی پی کی مقبولیت ور اس کی شہرت کو نقصان پہنچا ر ہی ہے جس
کا تدارک بہت ضروری ہے ۔ پی پی پی میں ایک مخصوص گروہ عوامی خدمت کی بجائے
ذ اتی خدمت میں مصروف ہے ۔ اگر عوام سے ان وزرا کی بیزاری اور دوری کا یہی
انداز رہا تو پی پی پی کو سخت نقصان کا احتمال ہو سکتا ہے جس کی روک تھام
کرنا اعلی قیادت کی ذمہ داری ہے۔۔ |