پاکستان سے وفا کا جرم اور پاکستانی حکمرانوں کی مجرمانہ چشم پوشی

تحریر : محمد اسلم لودھی

متنازعہ حکومتی ٹربیونل نے 1971 ءمیں بھارت کی جانب سے پاکستان کو دو لخت کرنے کی سازش کی مزاحمت اور پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر مکتی باہنی کی کاروائیوں کو روکنے کے جرم کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے ہوئے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر اور ممتاز عالم دین ابو الکلام آزاد کو سزائے موت کا حکم سنایا ہے ۔ بے شک ابوالکلام آزاد بنگلہ دیش میں موجود نہیں ہیں لیکن اب ان کی پاکستان سے وفاداری کسی شک و شبے سے بالاتر ثابت ہوچکی ہے ۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ جب مشرقی پاکستان میں پاک فوج چاروں اطراف سے خطرات میں گھر کر بھارتی فوج ، مکتی باہنی ، بھارتی خفیہ ایجنسی را اور عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں کے تابڑ توڑ حملوںکی زد میں تھی اس وقت سوائے محب وطن بہاریوں اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کے سوا اور کوئی مددگار نہیں تھا ۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ۔ یہ سہارا حقیقت میں بہاری اور جماعت اسلامی کے کارکن ہی تھے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسے ہی لوگ بنگلہ دیش کی بھارت نواز حکومت کے ان دنوں زیرعتاب ہیںبلکہ لاکھوں کی تعداد میں بہاری پہلے ہی ڈھاکہ کی غلیظ اور تنگ و تاریک گلیوں میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے ہوئے اب بھی خود کو پاکستان کا شہری قرار دیتے ہیں جہاں منتقل ہونے کا خواب لے کر ان کی کئی نسلیں جوان ہوچکی ہیں۔ ایک جانب وفاداری کی یہ انتہا ءتو دوسری جانب پاکستانی حکمرانوں کی مجرمانہ چشم پوشی کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ تو بہاریوں کو باعزت طریقے پاکستان لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والوں کی اخلاقی حمایت اور انہیں مجرمانہ سزاﺅں سے بچانے کے لیے کچھ کرنے کے موڈ میں ہیں ۔ یاد رہے کہ ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف بھی ہالینڈ میں غلط الزامات عائد کرکے چوری کا مقدمہ بنایا گیا تھا اور ضیاءحکومت کے ایما پر پاکستان کے ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر نے وہ مقدمہ نہ صرف ہالینڈ کی عدالت سے جیتا بلکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان کے دامن پر لگنے پر داغ کو بھی ہمیشہ کے لیے دھو بھی ڈالا ۔ اس وقت بھی حالات یہی تقاضا کرتے ہیں حکومت پاکستان نہ صرف بنگلہ دیشی حکومت پر دباﺅ ڈالے بلکہ ایران ، ترکی ، سعودی عرب کو درمیان میں لاکر ابوالکلام آزاد اور ان جیسے محب وطن پاکستانیوں کے خلاف الزامات کو ختم کروائے بلکہ پاکستان سے محبت کرنے والے جتنے بھی لوگ بنگلہ دیش میں موجود ہیں ان کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے انہیں پاکستان لاکر آباد بھی کرے ۔ اس مقصد کے لیے OIC اور اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس سے زیادہ افسوس ناک بات اور کیا ہوگی کہ پاکستانی فوج کا ایک بہادر سپوت میجر محمداکرم جس نے ہلی کے محاذ پر 1971ءکی جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا اوربعد از شہادت انہیں نشان حیدربھی عطا کیاگیا اس عظیم پاکستانی فوجی افسر کا جسد خاکی اب تک بنگلہ دیش کی سرزمین پر دفن ہےں۔یہ تکلیف دہ خبریں بھی اخبارات کے ذریعے پڑھنے کو بار بار ملتی ہیں کہ پاک فوج کے کتنے ہی جوان ( سپاہی مقبول حسین کی طرح ) لاوارثوں کی طرح بھارت میں اب بھی قید ہیں ۔جن کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان کی مجرمانہ خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے ۔مشرقی پاکستان کیسے بنگلہ دیش بنا وطن عزیز کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں کس کس جرنیل اور سیاست دان نے کیا کردار ادا کیانہ تو اس کا ابھی تک تعین کیا گیا ہے اور نہ ہی مجرموں کو سزا ملنے کی کوئی امید نظر آتی ہے لیکن وفاداری کی اتنی سزا تو نہ دی جائے کہ پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے والے محب وطن لوگوں کو بھارت نواز بنگلہ دیشی حکومت سزائے موت ہی سنادے ۔ سرحدی گاندھی کے پیروکار جو اب بھی پاکستان سے زیادہ بھارت کے وفادار نظر آتے ہیں اس خاندان کا ایک فرد" بشیر بلو ر" بم دھماکے میں گزشتہ دنوں ہلاک ہوا کبھی اسے شہید قرار دیتے ہوئے اس کے لیے نشان حیدر ایوارڈ کا مطالبہ کیاجاتاہے تو کبھی اس کے لیے نوبل پرائز کی متفقہ قرار داد منظور کی جاتی ہے ۔کس قدر زیادتی کی بات ہے کہ وطن کا سودا کرنے والوں کے لیے نوبل پرائز اور بنگلہ دیشی سرزمین پر پاکستان اور پاک فوج سے وفاداری کے صلے میں سزائے موت ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پاکستانی حکمرانوں کا وطن پرستی کا معیار کیا ہے اگر بشیر بلور کو نوبل پرائز کے لیے تجویز کرنا ہے تو ان ہزاروں بے گناہ مرد عورتوں اور معصوم بچوں کو بھی نوبل پرائز دیاجائے جواپنوں اور بیگانوں کی ناحق بمباری سے شہید ہو چکے ہیں ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے میرے لیے یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ پاکستان سے محبت اور وفا کرنے کی پاداش میں کسی بھی شخص کو موت کی سزا ملے اور ہم غیروں کی طرح خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہیں ۔ امریکہ کی طرح ہر مہذب ملک اپنے ہم وطنوں کو دشمنوں کی قید سے آزاد کروانے کے لیے جنگ کرنے تک تیار ہوجاتاہے جس کا عملی مظاہرہ امریکہ قاتل ریمنڈ ڈیوس کی شکل میں کر بھی چکا ہے لیکن پاکستان سے محبت کرنا بطور خاص بنگلہ دیش کی سرزمین پر سب بڑا گناہ بن چکا ہے ۔ کیا امریکہ کے شہری امریکی فوج کا ساتھ نہیں دیتے ، کیا بھارت کے شہری بھارتی فوج کا سہارا نہیں بنتے اگر کبھی جنگ کی نوبت آئی تو کیا بنگلہ دیش کے شہری اپنی فوج کے شانہ بشانہ نہیں لڑیں گے ۔ہر وطن پرست کی طرح ابوالکلام آزاد نے بھی دشمن فوج ( بھارت اور مکتی باہنی ) کے خلاف مزاحمت میں اگر پاک فوج کی مدد کی ہے تو یہ ہرگز جرم نہیں بلکہ یہ کارنامہ وطن سے وفاداری کا بین ثبوت ہے جس کی بنا پر پاکستان کی جانب سے انہیں اعلی ترین اعزاز سے نوازا جائے اور انہیں محمود علی کی طرح تاحیات وفاقی وزیر بنایا جائے نہ کہ بنگلہ دیشی عدالت انہیں پاکستان سے وفا داری کی سزا موت کی صورت میں دے ۔ میں سمجھتا ہوں حکومت پاکستان کو نہ صرف چپ کا روزہ توڑ کر اپنے وفاداروں پر لگنے والی تہمت کا ہر ممکن ازالہ کرنا چاہیئے بلکہ بنگلہ دیشی سرزمین پربہاریوں سمیت جتنے بھی محب وطن پاکستانی موجود ہیں ان تمام سمیت نشان حیدر حاصل کرنے والے پاک فوج کے شہید میجر محمداکرم کے جسد خاکی کو باعزت طور پرپاکستان لاکر اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے اگر حکمرانوں کو پاکستان اور پاکستانیوں سے ذرا بھی محبت ہے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 129009 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.