کتابوں پر تبصرہ

کتابوں،خیالوں کی دنیا کتنی وسیع ہے۔یہ آپ کی اپنی دنیا ہے۔دنیا کی منافقت،ریاکاری اور جھوٹ سے پاک۔سیاستدان ہوں یا مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات،سب پبلک پراپرٹی ہیں۔ان پر بات کرنا اٹھارہ کروڑ عوام کا ”جبری حق‘ہے۔”حدادب“رہتے ہوئے ”خیالوں میں موصول“ ہونے والی کتابوں پر تبصرہ حاضر ہے۔

حکومتی کارکردگی کے اکھٹے پانچ سال
خوبصورت سیاہ سرورق سے سجی ایک ضیخم کتاب جس پر نہ ازمنہ قدیم کی روایتی مینا کاری کی گئی ہے۔اور نہ ہی حکومتی عنان اقتدار کی باچھوں کھلی تصویریں سرورق کے دائیں بائیں موجود ہیں۔مصنف کے نام کی جگہ ایک حکومتی اہلکار کے نام سے درج ہے۔ کتاب میں حکومت اور حکومت میں شامل اتحادیوں کی بچپن سے لے جوانی اور جوانی سے لے کر بڑ ھاپے تک کی تصاویر کی”کولیکشن“ شامل ہے۔جو کہ کتاب کا حجم اور کارکردگی بڑھانے میں بڑی معاون ثابت ہوئی ہیں۔تقریبا آدھی سے ذیادہ کتاب صرف یہ بتانے کے لئے لکھی گئی ہے کہ موجودہ حکومت نے ایک آمر سے حکومت کیسے حاصل کی۔کتاب اس فقرے سے شروع اور اسی فقرے سے ختم ہوتی ہے۔”جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے“۔کتاب چونکہ کے حکومتی کارکردگی کے بارے میں بتانے کے لئے لکھی گئی ہے۔اس لئے خوبصورت مہنگے کاغذ پر اس کو چھاپنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔حکومت نے اپنے ماضی کے ادوار کا تذکرہ بڑے دل نشین پیرائے میں کیا ہے۔ ماضی کو ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے ”ذرا تصور کریں وہ بھی کیا ہمارا دور تھا جب لوشیڈنگ سرے سے نہیں تھی،آٹا اتنا سستا کہ کھانے کو دل ہی نہیں چاہتا تھا۔گوشت،چاول،گھی سبھی آئٹمیز دس روپے کلو میں وافر موجود تھیں۔سبزی والا سبزی کے ساتھ مرچ اور دھنیا فری میں ڈال دیتا تھابیس،پچیس روپے میں موٹرسائیکل کا ٹینک بھر جاتا تھا۔مگر جو پاکستان ہمارے حوالے کیا گیا وہ ایک مہنگائی میں گھرا ہوا پاکستان تھا جس کو ہم اب واپس شاندار ماضی میں لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔“۔ماضی میں عوام کی فلاح بہبودکے لئے اقدامات کا شدومد سے ذکر ہے۔مگر موجودہ دور میں جہاں حکومت نے اپنے بڑے بڑے”منصوبے“اور عوام کی فلاح کے لئے اٹھائے گئے ”بیڑے“بتانے کی کوشش کی گئی ہے وہاں تقریباً پانچ سو صفحات یاتو ”مس پرنٹ“ ہیں یا ”اوور پرنٹ“ ہیں۔روشن ماضی میں جانے کے حوالے سے کتاب میں ایک ماہر معاشیات کے”اقوال زیریں“ کو بھی ایک سیکشن میں جگہ دی گئی ہے۔وہ فرماتے ہیں ”لوگ روشن کل میں جانے کے خواہش مند ہیں۔لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں حکومت سمیت عوام ماضی میں جانا چاہتے ہیں۔اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ تاریخ کے جس دور میں جانا چاہتے ہیں اپنے ملک میں اس دور کا بجٹ لاگو کر دیں ملازمین کی تنخواہیں بھی اسی نسبت سے ہوں۔بس چند دن آپ کی تکلیف کے ہونگے اس کے بعد آپ اس تکلیف کے عادی ہو جائیں گے۔“اس تھیوری کو بغور پڑھنے کے بعد اس ماہر معاشیات کے واری واری جانے کو دل چاہتا ہے۔کتاب کے بیک ٹائٹل پر چار دیدہ زیب رنگوں سے ایک فقرہ جھلملا رہا ہے۔”موجودہ حکومت تاریخ میں پہلی مرتبہ دوسری مدت کے لئے منتخب ہونے جا رہی ہے۔ واقعی جمہوریت بہترین انتقام ہے۔“

لوٹے اور اڑانیں
تازہ موصول ہونے والی خوبصورت سرورق سے کتاب جس پرلوٹوں کے چہروں والے پرندے اڑانیں بھر رہے ہیں۔کتاب میں میں لوٹوں کی اڑانیں بھرنے کی تازہ تریں کاروائیاں درج ہیں۔کتاب میں مصنف کے نام کی بجائے ایک لوٹے کے قلم سے درج ہے۔کتاب کا انتساب ”دنیا میں پہلے لوٹے کے نام“درج ہے۔چونکہ کتاب کافی ”کھول کر“لکھنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن چونکہ صیغہ راز میں ہمارا رہنا اور ان کا رکھنا مجبوری ہے۔اسی لئے ہم بطور مبصر محتاط رویہ اپناتے ہیں۔۔مصنف کے خیال میں اس کا آغاز مغلیہ دور سے ہوا۔ جب مختلف کاموں کے لئے کبوتروں کو استعمال کیا جانے لگا۔پہلے پہل کبوتر وں کی جو نسل جاسوسی کے لئے استعمال کی گئی ان کے نتائج بہت شاندار تھے۔مگر پھر بغیر سوچے سمجھے عاشق معشوقی کے لئے استعمال کئے جانے والے کبوتروں کو جاسوسی کے لئے استعمال کیا گیا۔یہ کبوتر چونکہ اچھی خوراک کے دل دادہ تھے۔اس لئے ان کبوتروں کو جہاں اچھی خوراک ملی وہیں بیٹھتے چلے گئے۔اور راز دشمن کے پاس جاتے رہے۔مصنف نے مشہور زمانہ کبوتروں کی کہانی جو کہ ایک جال میں پھنس گئے تھے اور ایک دانا کبوتر کے مشورے پر جال سمیت اڑ گئے تھے۔اس کہانی کو مصنف نے ایک سیاسی کہانی کا درجہ دیا ہے۔مصنف کے مطابق اس کہانی سے فی زمانہ یہ سیاسی سبق ملتا ہے کہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے ”یونفیکیشن گروپ“کسی بھی وقت جال سمیت اڑایا جا سکتا ہے۔جیسا کہ یہ پریکٹس نہ صرف ایک آمر کے دور میں کام یاب ہو چکی ہے اور فی زمانہ اس سے گڈ گورننس بھی مستفید ہو چکی ہے۔مصنف کے خیال میں لوٹے والی اصطلاح اب پرانی ہو چکی ہے۔اب تو جس کا ”چھجا“ مضبوط اور”دانہ دنکا“ کا ”کھلار“ذیادہ ہو گاسیاسی پرندوں کی اڑانیں بھی اسی کی طرف ہونگی۔چونکہ اب ”جھیلیں“خشک ہو چکی ہیں اس لئے مہمان پرندوں کی ڑانوں میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔

شاہ رخ کون؟
زیر نظر کتاب شاہ رخ اور ساحر لودھی کے ٹائٹل سے سجی ہوئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر شاہ رخ کی گردن کو کاٹ کر ساحر لودھی کی گردن پر فٹ کر دیا جائے تو شائد کوئی پہچان بھی نہ پائے کہ ان میں اصل شاہ رخ کون ہے کتاب میں جا بجا شاہ رخ اور ساحر لودھی سینکڑوں تصویریں سجائی گئی ہیں۔کتاب ساحر نامی کسی مصنف کی لکھی ہوئی ہے جس میں بہت سے حوالوں سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصل میں شاہ رخ ساحر لودھی ہے۔کتاب میں ان لوگوں کے دستخط سمیت ”بیان حلفی“ ہیں جنہوں نے ساحر لودھی کے مختلف شوز میں ”شرطیہ“شرکت کی ہے کہ ہم نے ساحر لودھی کو ہر لحاظ سے شاہ رخ سے بہتر پایا ہے۔مصنف لکھتا ہے کہ کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب شاہ رخ نے ”بلو باربر“نامی فلم میں ساحر خان کے نام سے اداکاری کی۔بس اس وقت سے ساحر لودھی یہی سمجھے بیٹھا ہے کہ اس کردار کو میں شاہ رخ سے بہتر پرفارم کر سکتا تھا۔حالا نکہ اس کے شو میں شرکت کرنے والے اس کی ڈھارس بندھاتے ہیں ”۔مگر دل ہے کہ مانتا نہیں“سبھی کہتے ہیں تم شاہ رخ ہو۔مگر ساحر کہ اپنے دل میں کہیں چور چھپا بیٹھا ہے جو اس سے ہر پل یہی کہتا ہے تم ”بلو باربر“ کا کردار شائد بلو باربر سے اچھا ادا کر سکو مگر شاہ رخ کے تم پاسک بھی نہیں ہو۔یہ سب تمہارے منہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔حتی کہ ”چھوٹو“ بھی اسے شاہ رخ سے بڑا ایکٹر،ڈانسر اور گلو کار سمجھتا ہے۔مصنف لکھتا ہے کہ بہت عرصہ قبل ایک طوطے والے بابا نے ایک کارڈ طوطے کی چونچ سے لے کر اس کے سامنے لہرایا تھا۔جس پر درج تھا۔”تم شاہ رخ ہو مگر۔۔۔“ اور اس”مگر“کی طوطے والے بابا اور ساحر لودھی کے علاوہ کسی کو خبر نہیں۔
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 32310 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.